پیر‘ 22 شعبان المعظم 1445ھ ‘ 4 مارچ 2024ء

محمود خان اچکزئی پی ٹی آئی کے امیدوار بن کر قوم پرست نہیں رہے۔ بلاول۔ 
ویسے خود بلاول بھی بھول رہے ہیں کہ وہ سندھ اور بلوچستان میں جا کر عام طور پر قوم پرستی کی جو چادر اوڑھ لیتے ہیں وہ خیبر پی کے اور پنجاب میں اتار کر تہہ کر کے رکھ دیتے ہیں۔ خاص طور پر پنجاب میں آ کر تو وہ قوم پرستی کو گناہ شمار کرنے لگتے ہیں کہ یہاں یعنی پنجاب میں کوئی قوم پرستی کی بات نہ کرے۔ پنجاب کے حقوق کے لیے آواز بلند نہ کرے۔ یہ ان کے نزدیک غلط اور زیادتی ہے باقی صوبوں کے ساتھ۔ یہ مسئلہ تقریباً تمام قوم پرست سیاسی جماعتوں کا ہے۔ وہ صرف اور صرف پنجاب کو غلط ثابت کرنے کے لیے اپنی ہر ناکامی کا الزام پنجاب کے سر تھوپنے کی جو سیاست کرتے ہیں اس کی وجہ سے باقی صوبوں کے ناخواندہ لوگ اور سادہ لوح شہری پنجاب کو غلط سمجھتے ہیں۔ اب صرف محمود خان اچکزئی پر غصہ اتارنا ابھی صحیح نہیں ہو گا کیونکہ یہ بات سب جانتے ہیں کہ کون کون قوم پرستی کی منفی سیاست کر کے عوام کو، سادہ لوح لوگوں کو گمراہ کرتا ہے۔ اب خود محمود خان اچکزئی کو بھی احساس ہونا چاہیے کہ وہ کس طرح پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر ان کے صدارتی امیدوار بن گئے ہیں۔ خود پی ٹی آئی والے بھی بھول رہے ہیں کہ ان کے کپتان یعنی سربراہ کس طرح سر پر مفلر رکھ کر محمود خان اچکزئی کا عام جلسوں اور اسمبلی کے اجلاسوں میں مذاق اڑاتے رہے ہیں۔ آج ان کی جماعت نے ان کو کس طرح اپنا امیدوار بنا لیا اور وہ بن گئے۔ بہرحال چونکہ بلاول کے والد بھی صدارتی امیدوار ہیں اور امید بھی یہی ہے کہ وہ بھاری اکثریت سے صدر بن جائیں گے تو پھر نجانے کیوں بلاول اچکزئی پر اتنا غصہ کر رہے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نادانستہ طور پر ہی سہی اپوزیشن اتحاد کو مضبوط بنانے کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ بہرحال محمود خان اچکزئی شاید یہ تنقید آسانی سے فراموش نہیں کر پائیں گے اور کسی مناسب وقت پر اس کا جواب دیں گے۔ 
٭٭٭٭٭
ڈی سی اسلام آباد ،ایس پی اور ایس ایچ او کو توہین عدالت پر قید اور جرمانے کی سزا ئیں۔
عدالت کے اس فیصلے سے معلوم ہوتا ہے کہ اب حالات جس رخ پر جا رہے ہیں اس میں قانون نے خود اپنا راستہ نکالنے کے لیے سختی سے عمل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اب انتظامیہ کی خودسری والی پالیسی  قدرے رک سکتی ہے۔ اس سارے عمل میں سب سے زیادہ پسنے والے لوگ انتظامیہ کے ہی ہوتے ہیں کیونکہ اوپر سے آرڈر ملتا ہے کہ ایسا کرو۔ وہ نہ کریں تو وہ ترقی اور تبادلے کے سلسلے میں رکاوٹوں کا شکار ہوتے ہیں۔ اب اگر کریں تو عدالتیں ان کو نہیں چھوڑتیں۔ یوں ان کے لیے کام کرنا دشوار تر ہوتا جا رہا ہے۔ بیوروکریسی والے سارے گنگا نہائے نہیں ہوتے۔ ویسے غور کیا جائے تو اسی طرح باقی اداروں میں بھی سب ستی ساوتری نہیں ہر جگہ اچھے اور بْرے لوگ ہوتے ہیں۔ قانون سب کے لیے یکساں ہونا چاہیے۔ اگر ہو گیا تو پھر کوئی ادارہ اپنی حدود سے ہٹ کر کسی ناجائز حکم کو تسلیم نہیں کرے گا۔ اب توہین عدالت پر جس طرح عدالتی احکامات سے روگردانی پر اسلام آباد کے ڈی سی کو چھ ماہ قید اور ایک لاکھ جرمانے کی سزا ہوئی ہے اسی طرح ایس پی کو بھی 4 ماہ قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ کیا گیا ہے جبکہ ایس ایچ او کوبھی دو ماہ قید اور ایک لاکھ کا ڈز  لگا ہے۔ اس سے اب باقی لوگوں کو بھی سبق مل رہا ہے کہ کم از کم ’’ہم سے نہ ٹکرانا ہم سے ہے زمانہ‘‘ اچھی بات یہ ہے دونوں اہم انتظامی افسران نے نہایت خندہ روی سے یہ فیصلہ سنا، قبول کیا۔ سیاستدانوں کی طرح پریس کانفرنس کر کے قانون کی عدالت کی دھجیاں نہیں بکھیریں۔ یہ عمدہ مثال ہے۔ باقی سب کو بھی اس پر عمل کرنا چاہیے۔ 
٭٭٭٭٭
چاروں صوبوں میں وزرائے اعلیٰ نے اپنے عہدوں کا حلف اٹھا لیا۔
یوں سمجھ لیں جمہوریت کی ریل ایک بار پھر پٹڑی پر چل پڑی ہے۔ وزیر اعظم کا انتخاب ہوتے ہی یہ عمل مکمل ہو جائے گا۔ خدا خدا کر کے تمام تر رکاوٹوں کے باوجود جمہوریت کی ریل کا چل پڑنا ایک اچھا شگون ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی دیکھ لیں جانے انجانے میں بہت سے لوگ اور سیاسی عناصر اس عمل کو ایک بار پھر سبوتاڑ کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کر رہے ہیں۔ ان میں سے اکثر اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ کسی طرح اس جمہوری عمل کو متنازعہ بنا کر ایک بار پھر افراتفری اور انتشار کا ماحول پیدا کر دیں۔ یہ لوگ نجانے کیوں ایسا کرنا چاہتے ہیں حالانکہ چاروں صوبوں میں ان کی نمائندگی بھی ہے۔ ایک صوبے میں حکومت بھی ان کی ہے۔ قومی اسمبلی میں سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کا اعزاز بھی ان کے پاس ہے اس کے باوجود گزشتہ روز جس طرح سڑکوں پر نکل کر ان لوگوں نے جمہوریت کی روح قبض کرنے کی کوشش کی، سارے جمہوری عمل کو ناکام تر بنانے کے لیے عوام کو احتجاج کی راہ دکھائی، اس سے خیر کا کوئی راستہ تو نکلنے سے رہا۔ ویسے عجیب بات ہے کہ جہاں وہ جیتے وہاں سب ٹھیک تھا۔ جہاں مخالف لوگ جیتے وہاں سب غلط تھا۔ یعنی میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو والی وہی پرانی چال کہہ لیں یا پالیسی۔ پھر خود کو جمہوریت کا پاسبان کہلوانے کا شوق بھی یہی رکھتے ہیں۔ اب چاروں صوبوں میں حکومتیں بننے کے بعد قومی سطح پر مرکزی حکومت بھی بن جائے گی تو بہتر یہی ہے کہ ہر معاملہ آئینی اور قانونی طریقے سے حل کیا جائے سڑکوں کی بجائے عدالتوں اور قانون کا سہارا لیا جائے۔ غیر قانونی بیساکھیوں کا سہارا لے کر جمہوری عمل ری ڈیل نہ کیا جائے۔ ورنہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پھر وہی چپقلش پیدا ہو گی جس کی وجہ سے ہمیشہ ہمیں اچانک میرے عزیز ہم وطنو…کی صدا سنائی دیتی ہے اور پھر ہم سر پر ہاتھ رکھ کر اپنی کوتاہیوں کی تلافی کرتے کرتے کئی سال گنوا دیتے ہیں۔ 
٭٭٭٭٭
یوٹیلٹی سٹورز پر چینی بازار سے بھی مہنگی فروخت ہو گی۔
اگر یوٹیلٹی سٹورز پر چینی بازار سے بھی مہنگی فروخت کی جا رہی ہے تو اس سے بہتر ہے یوٹیلٹی سٹورز کو ہی بند کر دیا جائے۔ یہ عوام کو لوٹنے والے مراکز بننے لگے ہیں جہاں ناقص اور غیر معیاری اشیاء بھی مہنگے داموں فروخت کی جا رہی ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے، عوام دوستی ہے، کہ جو چینی بازار میں 145 کی مل رہی ہے وہ انہیں یوٹیلٹی سٹورز پر 155 روپے کی ملے گی۔ اس سے تو لاکھ درجے بہتر ہے کہ حکومت گلی محلوں میں راشن ڈپو طرز کے سٹور کھولے جہاں واقعی ارزاں نرخوں پر عوام کو گھروں کے قریب ہی اشیائے خورد و نوش دستیاب ہوں۔ ان میں آٹا، چاول، چینی اور گھی اگر سستے داموں ملے تو کم از کم انہیں ریلیف کا احساس ہو گا۔ آگے ماہ رمضان آ رہا ہے جس کے لیے ہمارے ذخیرہ اندوز اور سفاک تاجر ’’اک مہینہ ساڈا تے گیارہ مہینے تہاڈے‘‘ کے فلسفے کے تحت اس مقدس ماہ کو بھی لوٹ مار کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ یوں عام 10 روپے کی چیز بھی 100 روپے میں فروخت کر کے لوگوں کو خون کے آنسو رلاتے ہیں اور اذان کی آواز سن کر دوڑتے ہوئے مسجد کا رخ کرتے ہیں۔ کیا انسانوں کا خالق و مالک اپنی مخلوق پر ستم ڈھانے والوں کی دعائیں قبول کرے گا۔ ان سے پوچھے گا نہیں کہ میرے احکامات کی مکمل خلاف ورزی کر کے مخلوق خدا کو تنگ کرکے کس منہ سے رحم کی، برکت کی دعائیں مانگتے ہیں۔ دنیا بھر میں اس مقدس ماہ پر کیا مسلم کیا غیر مسلم سب ممالک میں مسلمانوں کو رعایت دی جاتی ہے اور ہمارے ہاں مہنگے داموں چیزیں فروخت کر کے اس ماہ مقدس کے ثمرات کو ضائع کیا جاتا ہے۔ لوگوں کے دستر خوان سے رزق چھیننے والے اپنی تجوریاں بھرتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ ان سے بھی حساب ہو گا۔ ان کے عمرہ و حج کا ثواب بھی غریبوں کی بددعائوں کی وجہ سے ختم ہو جاتا ہے الٹا ان سے حساب کتاب کا باعث بنتا ہے۔ ہمارے تاجر بھائی ذرا اس بات پر بھی غور کریں اور روزے داروں پر رحم کریں تاکہ خدا تعالیٰ ان پر بھی رحم کرے۔
٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن