فضل حسین اعوان
ہر وہ شخص اور ادارہ مجاہد ہے جو پاکستان کی بہتری کے لیے اعلانیہ یا خاموشی سے کام کرتا ہے۔ ایسے ہی ہوبارہ فاؤنڈیشن والے ہیں جو پاکستان کی ترقی، غربت کے خاتمے اور جیپ ریلی جیسے ایونٹس کو فروغ دینے کے لیے بروئے عمل ہیں۔ یہ فاؤنڈیشن بنیادی طور پر پاکستان میں تلور اور ہرن کی ختم ہوتی ہوئی نسل کو بچانے کے لیے وجود میں آئی جس میں اس نے برق رفتاری سے کامیابی حاصل کی۔ لاکھوں کی تعداد میں ابو ظہبی سے تلور کی افزائش کر کے آزاد فضاؤں میں چھوڑے جا چکے ہیں۔ یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ پاکستان میں بلیک بَک کالا ہرن کی نسل مکمل طور پر ختم ہو گئی تھی۔چنکارہ کے کچھ دانے بچے تھے۔ محکمہ جنگلی حیات کے ساتھ مل کر دونوں کی افزائش کی گئی آج یہ محکمہ جنگلی حیات کے پاس ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں۔ ہوبارہ فاؤنڈیشن کے چولستان میں لال سہانرہ اور رحیم یار خان کے سینٹروں میں بھی ہزاروں کی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ یونیورسٹیوں، کا لجوں، فضائیہ، رینجرز پاک فوج اور دیگر کئی اداروں کو بھی افزائش کے لیے دیئے گئے ہیں۔
اسی فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ہسپتالوں ڈسپنسریوں صحرا میں انسانوں اور جانوروں کے لیے پینے کے پانی کے منصونے کام کر رہے ہیں۔ سیلاب جیسی آفات اور رمضان جیسی برکات کے دنوں میں مستحقین کا خیال رکھا جاتا ہے۔
رحیم یار خان اور روجھان کو ملانے والا پل اسی فائونڈیشن کی جانب سے بڑی لاگت سے تعمیر کیا۔ یہ پل دس کلو میٹر طویل ہے۔ بریگیڈیئر مختار ا حمدان پراجیکٹس کو دیکھتے ہیں۔ ان سے ملاقات ہوتی ہے ان کے اندر ایک عظیم پاکستانی موجود ہے۔90 سال کی عمر میں بھی نوجوانوں اور ہمارے جیسے جوانوں سے زیادہ فٹ نظر آتے ہیں
چولستان میں ہر سال فروری میں جیپ ریلی کا انعقاد ہوتا ہے۔ دن میں وہاں گلائیڈر اپنا رنگ دکھاتے ہیں رات کو روشنیاں رنگ جمارہی ہوتی ہیں۔رنگ و نور کی برکھا برس رہی ہوتی ہیں۔
پانچ روز تک مقابلے جاری رہتے ہیں۔ لوگ دوردراز سے آتے ہیں۔ صحرا میں شہر بس جاتا ہے۔ ریس میں بڑی گاڑیاں تو حصہ لیتی ہی ہیں بائیک اورجیپ بگھی بھی مقابلے میں کمالات دکھاتی ہیں۔ ہر ریسر پارٹی اپنا کلر اور پرچم لہرا رہی ہوتی ہے۔ بڑے بڑے ہورڈنگز اور فلیکسز اپنا نظارہ کراتی ہیں۔ اس ایونٹ کو ہوبارہ فاؤنڈیشن کی جانب سے سپانسر کیا جاتا ہے مگر بالکل خاموشی کے ساتھ، کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ کوئی اس ادارے کا فلیگ ہوتا ہے نہ فلیکس نہ کوئی اور نشان ، اس مرتبہ زین محمود نے مردوں اور ماہم نے خواتین میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔
جیپ ریلی کے ایونٹ کے موقع پر بہاولپور میں کچھ محلات اور شہر سے دور قلعے دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ نور محل اور گلزار محل پاک فوج کے زیر کنٹرول لش پش کرتے نظر آتے ہیں۔ان کی بہترین خطوط پر تزئین کی گئی ہے۔ گلزار محل میں تو تقریبات منعقد کرنے کی بھی سہولت ہے۔ کمرے کرائے پر دستیاب ہیں۔ ڈیرہ نواب میں صادق پیلس بھوتوں کے بسیرے کا منظر پیش کرتا ہے۔ یہ حکمرانوں کی بے حسی کا نوحہ بیان نہیں کرتا بلکہ یہ کئی حصہ داروں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان کی اس طرف توجہ نہیں۔ رولز رائس گاڑی ایک گیراج میں اس حالت میں کھڑی ہے کہ اس کے اندر اور اطراف میں درختوں کی سوکھی شاخیں بڑی تعداد میں بکھری ہوئی ہیں بس ایک تیلی دکھانے کی ضرورت ہے۔ ایرانی قالین پیلس کی عسرت بیان کرتے ہیں۔ دروازے اکھڑ چکے، شیشے ٹوٹے ہوئے قیمتی سامان چوری ہو چکا ہے وہاں نگران موجود ہیں بس وہ نگرانی شاید یہ کرتے ہیں کہ کوئی درخت کوئی پودا ہرا نہ ہو جائے۔ اس محل کو ہوٹل میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
4قلعے بھی اس مرتبہ وزٹ کئے۔ موج گڑھ، امروٹ، جام گڑھ اور میر گڑھ۔ جام گڑھ اور میر گڑھ کی بیرونی دیواریں محفوظ ہیں اندد بربادی کی داستان ماتم کناں یے۔ میر گڑھ قلعہ میں ایک مقامی نوجوان بتا رہا تھا کہ قلعے انڈر گراؤنڈ سرنگوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ان میں گھوڑے دوڑاکرتے تھے۔ جو سرنگیں ہم نے دیکھیں ان میں صرف ماڑی سی بکری داخل ہو کر ہی دوسری طرف سے نکل سکتی ہوگی۔ موج گڑھ قلعے کی اندرونی اور بیرونی کوئی بھی دیوار سلامت نہیں۔ ہر سو چھوٹی اینٹیں بکھری ہوئی ہیں۔ مروٹ قلعے کا سالانہ لاکھوں میں محکمہ اوقاف کی طرف سے ٹھیکہ ہوتا ہے۔ اس بے درودیوار قلعے کے ایک کونے میں خوبصورت مسجد موجود ہے۔ جو نمازیوں کی منتظر رہتی ہے۔ ایک تین منزلہ مکان گرتے گرتے اب ڈیڑھ منزلہ کا رہ گیا۔ اس کے بالکل سامنے دربار حضرت علیؓ ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس مقام پرحضرت علیؓ تشریف لائے تھے آپ نے جس پتھر پر کھڑے ہو کر نماز ادا کی وہ آپ کے جلال سے پگھل گیا۔ جس پر آپ کی پیشانی اور ہاتھوں کے نشان ثبت ہو گئے۔ ایک خاتون اور دو تین حضرات نے کہا کہ انہوں نے خود وہ پتھر دیکھا جو80کی دہائی میں فوجی اٹھا کر لے گئے۔ مقامی لوگ دربار پر ہر دعا قبول ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ جہاں نوراتا ہوتا لوگ منت ماننے کے لیے نو دن اور نو راتیں جہاں قیام کرتے۔ دربار کے باہر درخت پر کئی ہار لٹکے ہوئے تھے جو ایسے جوڑوں کی طرف سے چڑھائے گئے تھیجن کی شادی کی منت پوری ہوئی۔ دربار کے اندر شیشے کا بکس پڑا ہے۔ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں پتھر رکھا تھا۔ ہم نے کئی لوگوں سے وہاں بات کی ایک لڑکی نے کہا وہ حضرت علی ؓسے حج کرانے کی فریاد لے کر آئی ہے۔
اس لڑکی کی ماں بھی وہیں دربار کے اندر دیگر چار پانچ عورتوں کے ساتھ بیٹھی تھی اس کی کسی بیماری سے نجات کی منت پوری ہوئی تھی۔ ہرجمعرات کو بڑی تعداد میں بکروں کی دربار پر نذر دی جاتی ہے
اس ٹور کے دوران ایک مرتبہ پھر صحابہ کے مزار پر حاضری دی۔ حضرت طیب ،طاہر، جوار اور جواد کی متصل قبریں ہیں۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ صحابہ کرامؓتھے۔ اول تو شک کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔بالفرض یہ صحابہ کرام نہیں ہیں تو بھی یہ نیک لوگ ہیں کیونکہ وہاں ایک طمانیت کا احساس ہوتا ہے۔
سینٹرل لائبریری کا وزٹ کیا جس میں لاکھوں کتابیں نادر نسخہ جات اور مخطوطات دیکھنے کا موقع ملا۔ چیف لائبریرین ڈاکٹر جاوید اقبال نے بریفنگ دی اور ایک ایک سیکشن وزٹ کرایا۔خزینہ نور اکائونٹ افسر اور بکس ایشو کرتی ہیں۔انہوں نے لائبریری کو خواتین کے لیے بھی نایاب کتب کا ذخیرہ قرار دیا۔لائبریری سے متصل میوزیم ہے جس میں نوادرات دلکشی کا باعث بنتے ہیں۔
رات کو واپسی پر جیسے ہی جنگل اور صحرا کے سنگم پر پہنچے۔ ڈالے کا ڈرائیور ملک عثمان گْھٹی گْھٹی آواز میں گویا ہوا۔ یہ کیا تھا!!۔اس نے ساتھ بیٹھے کامران پرویز کو مخاطب کرکے پوچھا۔ شاید اونٹ تھا ،کامران نے جواب دیا۔ ان کے لہجے میں خوف نمایاں تھا۔ پچھلی سیٹ پر محمد اکرام درمیان میں بیٹھے تھے انہوں نے بھی تصدیق کی کہ دس بارہ فٹ اونچے درخت کے اوپر سے ہیولا سا نظر آیا۔ یہ صحرا میں موڑ پر درخت تھا۔ جیسے ہی لائٹ پڑی وہ جو بھی چیز تھی یکدم درخت کے پیچھے نیچے ہوگئی۔ اگلے روز صبح یہ جگہ ملاحظہ کی۔ اسی جگہ پر کچھ لوگ پہلے بھی سایہ دیکھ چکے تھے۔دوسرے روز آدھی رات کے رات بعد ہم لوگ اسی گاڑی میں اسی جگہ سے گزرے رہے تھے کہ اچانک ہمیں پیچھے آتی ہوئی گاڑی نے بڑی تیز رفتاری سے کراس کیا۔اس گاڑی کو عمران ڈرائیور چلا رہے تھے۔ان گاڑی وزٹ کے دوران ہمارے والی گاڑی کے پیچھے ہی رہے۔ ان کو کھینچ کے ساتھ ملانا پڑتا تھا۔اب ان کی دم کو کیسے آگ لگی یہ حیران کن تھا۔سی بی ایس ہمارے عارضی مستقر پہنچے توعمران نے بتایا کہ اسی جگہ پر مجھے کوئی ماورائے عقل چیز نظر آئی تھی۔ میں نے گاڑی دوڑا دی شکر ہے کراس کرتے ہوئے دوسری گاڑی بچ گئی۔ایڈونچر کا شوق رکھنے والوں کو ایسے واقعات کا سامنا کرنے کے لیے خود کو تیار رکھنا چاہیے۔
اخر میں یہ انفارمیشن بھی ضروری ہے کہ ہوبارہ فاؤنڈیشن کی ساری فنڈنگ ابوظہبی کے حکمرانوں کی طرف سے ہوتی ہے۔ شیخ زید بن سلطان النہیان جب تک زندہ رہے وہ ان پراجیکٹس میں گہری دلچسپی لیتے رہے۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادے اور جان نشین خلیفہ محمد بن زید سلطان النہیان نے یہ سلسلہ اسی گرم جوشی کے ساتھ جاری رکھاہوا ہے۔