گلزار ملک
حکومت بننے کے مراحل تقریبا مکمل ہوتے جا رہے ہیں اور دوسری طرف تقریبا ہر پاکستانی اپنے حکمرانوں سے بہتر مستقبل کے لیے امیدیں لگائے بیٹھا ہے کہ اب وہ وقت آنے والا ہے کہ جس میں ہماری تمام امیدیں پوری ہوں گی جو ہم نے ان حکمرانوں سے لگا رکھی تھی اس وقت عوامی مسئلہ جو سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے وہ ہے مہنگائی کا اس کا تقریبا 80 فیصد گراف نیچے آنا چاہیے اور دوسری امیدیں یہ بھی لگائے بیٹھا ہے کہ بے روزگار نوجوانوں کو روزگار ملے گا جو نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں اٹھائے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں انہیں نوکریاں ملیں گی ظلم و زیادتی ختم ہوگی انصاف ہر شہری کو ملے گا۔ بے گھر لوگوں کو مالکانہ حقوق پر گھر ملیں گے ایسی ہی بہت ساری اور بھی امیدیں ہیں جو عوام نے ان حکمرانوں کے ساتھ ہر دور میں لگائے رکھی ہوتی ہیں یہ تو ہیں وہ امیدیں جو عوام نے اپنے حکمرانوں سے لگا رکھی ہیں اور کچھ وہ وعدے ہیں جو ان سیاست دانوں نے انتخابات کے دوران مختلف شہروں میں ہونے والے بڑے بڑے جلسوں میں کہا تھا کہ ہم حکومت میں آکر فری بجلی کے یونٹ تمام پاکستانی صارفین کو دیں گے یہ اعلانات تقریبا دونوں پارٹیوں نے کیے تھے اور ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ مزید بجلی کو سستا بھی کریں گے اب دیکھتے ہیں کہ یہ یونٹ کم ہوتے ہیں یا مزید بجلی کا بل اس سے بھی زیادہ بڑھ جاتا ہے انتخابات کے دوران یہ بھی وعدے کیے جاتے رہے کہ ہم نوجوانوں کو نوکریاں دیں گے بے روزگاری کا خاتمہ کر دیں گے مہنگائی کے جن کو ہر صورت میں قابو کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے میرا نہیں خیال کہ ان لوگوں نے انتخابات کے دوران جو وعدے کیے تھے وہ تمام وعدے ہر صورت پورے ہوں کیونکہ یہ لوگ جب انتخابات میں عوام کے پاس پہنچتے ہیں تو وہاں پر اگر یہ ایسے سبز باغ نہ دکھائیں تو یہ لوگ کیسے آگے نکل سکتے ہیں لہذا یہ وعدے کرنا ان لوگوں کی مجبوری ہوتی ہے جب یہ اقتدار میں آجاتے ہیں تو سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ اب دیکھ لیں ابھی حکومت مکمل طور پر بنی نہیں ہے لیکن پھر بھی ان کی باتیں وہی پرانی شروع ہو گئیں ہیں اس نے یہ کیا اس نے یہ نہیں کیا میں نے یہ کیا تھا مارے گئے لٹے گئے والی باتیں پھر سے شروع ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ان کی ایسی باتیں اب سے ہی شروع ہو گئی ہیں جس کا اندازہ آپ کو ہوگیا ہوگا۔
جب گزشتہ روز اسلام آباد میں واقع پنجاب ہائوس میں ملک کی اہم سیاسی قیادت کے درمیان مشاورت کا مرکز بنا رہا۔ نامزد وزیراعظم کی جانب سے دیئے جانے والے ڈنر میں ملکی معیشت چیلنجز اور دوسرے امور پر بات چیت ہوئی۔ صدر، وزیر اعظم، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر پر ہونے والی نامزدگیوں کی تائید کے علاوہ چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے اتحاد کو مضبوط رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔ اس موقع پر نامزد وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے 16 مہینے کی حکومت میں پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا ورنہ آج ہم یہاں نہ بیٹھے ہوتے۔ آج اگر پاکستان دیوالیہ نہیں ہوا تو یہ میاں محمد نواز شریف کی لیڈرشپ میں 16 مہینے کی حکومت تھی۔ ہم نے آخری دنوں میں جو فیصلے کئے ان کی وجہ سے نگران حکومت کے دور میں پاکستان متوازن رہا۔
اور دوسری طرف مسلم لیگ ( ن ) کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان زخمی ہے، اسے مشکلوں اور مصیبتوں سے نکالنا ہے، اگلے ڈیڑھ دو سال مشکل ہوں گے اور مشکل فیصلے کرنا ہوں گے لیکن یقین ہے ان شاء اللہ ملک مشکلات سے نکل جائے گا۔ یہ باتیں تو ہم ایک عرصہ سے سنتے آرہے ہیں اب ان سے کام نہیں چلے گا ضرورت اس امر کی ہے کہ فوری طور پر کچھ عملی طور پر کر کے دکھائیں یہ ارکان بہت سخت لڑائی لڑ کر قومی اسمبلی میں پہنچے ہیں، واسطہ ایسے لوگوں سے پڑا ہے جن کی مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی‘ بانی پی ٹی آئی جب گرے تو میں سب سے پہلے ہسپتال پہنچا اور بنی گالہ میں مل کر آیاتو پتہ چلا کہ لندن میں طاہرالقادری سے اتحاد ہوگیا۔ لندن میں پاکستان میں دھرنوں کا پلان بنایا گیا، ایک طرف دھرنے تھے دوسری طرف دہشت گردی تھی، دھرنے ہوتے رہے ہم موٹروے اور بجلی کے کارخانے لگاتے رہے، ہم دہشت گردی کے خلاف لڑتے رہے۔ مجھے فارغ کرنے والے جج کسی کو منہ دکھانے کے قابل ہیں؟۔ ججوں نے مجھے غصے سے نکالا، یہ کیا غصہ تھا؟۔ ججوں نے پاکستان کے ساتھ غلط کیا، یہ نقصان انہوں نے نواز شریف کو نہیں بلکہ ملک کو نقصان پہنچایا۔ شہباز شریف کو داد دوں گا کہ انہوں نے ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا، ان کی ہمت ہے کہ انہوں نے ملک کو بچایا ہے، عوام کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے، 1990 میں جب پہلی بار وزیراعظم بنا تو اس وقت جو کام کیا اس کا ثمر ہمیں ملا۔ دریں اثناء میاں محمد شہباز شریف نے کہا کہ آپ نے یہ سارے جبر تحمل سے برداشت کیے، جعلی جھوٹے مقدمات کا سامنا کیا، اور کبھی نہیں کہا کہ فلاں میر جعفر، فلاں غدار ہے۔ اداروں کے خلاف کیا کیا بدترین زبان استعمال کی گئی۔ توڑ پھوڑ کی گئی۔ آپ کو تین مرتبہ معزول کیا گیا کبھی آپ نے اپنے کسی ورکر کو ایک لفظ نہیں کہا۔ صبر اور تحمل سے کام لیا۔ یہ ہے وہ نواز شریف جو پاکستان کا صرف سیاستدان نہیں بلکہ پاکستان کا ایک مدبر ہے۔ ہمارے کئی لوگ ہارے کئی جیتے لیکن یہ کیا کہ جو ہارے وہ غلط ہے اور جو جیتے وہ ٹھیک جیتے، یہ ہے وہ دوغلا پن، کے پی میں ان کی جو اکثریت ا?ئی ہے تو کیا وہاں ساری کی ساری دھاندلی ہوئی ہے، پنجاب میں جہاں ہم جیتے ہیں تو وہ دھاندلی اور جہاں ہارے ہیں تو وہ ٹھیک ہے، یہ ہے وہ دوغلا پن، یہ ہے وہ تکبر، یہ ہے وہ رعونت، یہ ہے وہ اپنی ذات پاکستان سے اوپر۔ اپنی ذات کو پاکستان سے اوپر کر دینا یہ کبھی کسی نے سوچ اختیار نہیں کی۔ یہی سوچ ہے جس نے آج پاکستان کو تباہی کے کنارے پر لا کھڑا کیا ہے۔
بہرحال اگلے مرحلہ کی طرف بڑھیں میری ان سب سے یہی درخواست ہے کہ وہ یہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ملک اور عوام کا سوچیں کہ کیا کرنا ہے اس بڑھتی ہوئی مہنگائی کو کنٹرول کیسے کرنا ہے عوام سے انتخابات کے دوران آپ نے جو وعدے کیے ہیں ان کو پورے کریں تمام تر رونا دھونا بند کر دیں ملک و قوم کا بہت نقصان ہو چکا ہے اب ہم مزید نقصان کے متحمل نہیں ہو سکتے لہذا فوری طور پر جو مسائل اس عوام کو درپیش ہیں ان کو دور کیا جائے جس میں سب سے بڑا مسئلہ اس وقت مہنگائی کا ہے اسے فوری ختم کرنا بہت ضروری ہے