پیرس کی ڈائری
محمود بھٹی
کلمے کے نام پر رمضان میں آزاد ہونے والے ملک میں آزادی کا ایسا چلن ہوا ہے کہ ہر نیا دن نئی عوام کش پالیسی کی خبر لیکر سامنے آرہا ہے اور متاثرین کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے، پہلے مہنگی ترین بجلی پر بات ہو جائے، اس نے تو امیر وں کی بھی چیخیں نکلوا دی ہیں، مہنگی بجلی کی آڑ میں نجی ہائوسنگ سوسائٹیوں نے لوٹ مار کا نیا دھندہ شروع کر دیا ہے، نجی سوسائٹیاں بھیڑیوں کی طرح اپنے رہائشیوں کو نوچ نوچ کر کھا رہی ہیں، یہ سوسائٹیاں بلوں میں رہائشیوں سے بھتہ وصول کررہی ہیں، مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس کے لوگ یہاں گھر بنا کر انتظامیہ کی بلیک میلنگ کا شکار ہوکر پھنس کر رہ گئے ہیں، حکومت کی جانب سے گھروں کی خرید و فروخت پر اس قدر ٹیکس عائد کردیئے گئے ہیں کہ ان سوسائٹیوں میں ایک بار بس جانیوالے افراد نہ واپس جاسکتے ہیں اور نہ کسی نئی جگہ رہائش کر سکتے ہیں، اس لئے وہ انتظامیہ کے مظالم کیخلاف کچھ بھی نہیں کر پا رہے ہیں، عملی طور پر نجی سوسائٹیوں کے رہائشی اپنے ہی خریدے ہوئے گھروں میں کرایہ دار بن رہ گئے ہیں کیونکہ ہر ماہ پچاس ہزار روپے سے دو لاکھ روپے تک مالیت کے بل موصول ہورہے ہیں اور حکومت سمیت کوئی انھیں بچانے کیلئے نہیں آرہا ہے، کوئی قاعدہ ، کوئی قانون مددگار ثابت نہیں ہورہا ہے یہاں تک کہ عدالتوں نے بھی ان مظالم پر آنکھیں بند کی ہوئی ہیں،ان عدالتوں کو عوام کی تکالیف سے کیا لینا دینا انکا کو سب کچھ فری ہے، عوام زیادہ سے زیادہ عدالت سے رجوع کرسکتے ہیں اور وہ کر بھی چکے ہیں، لیکن ان کیسوں کا کئی کئی سالوں سے فیصلہ ہی نہیں ہو پا رہا ہے،یہاں سوال یہ بھی ہے کہ حکومت نے کس قانون کے تحت یہ پالسیی بنائی کہ نجی سوسائٹیاں کھلم کھلا عوام کی بوٹیاں نوچ سکتی ہیں، لاہور سمیت ملک بھر میں ایسی نجی سوسائٹیاں موجود ہیں جو واپڈا سے تھوک میں بجلی خرید کر اپنے رہائشیوں کو اضافی ٹیکس لگا کر مہنگے ترین نرخوں پر بیچ کر انکا خون نچوڑ رہی ہیں، یہ سوسائٹیاں بجلی گھر تک پہنچانے کے لئے اپنے رہائشیوں سے آپریشنل کاسٹ کے نام پربھاری بھرکم اضافی چارجز الگ سے وصول کررہی ہیں،خدا کی پناہ سردیوں میں ایک پانچ مرلے کے گھر کا بل 56 ہزار روپے اور بڑے گھروں کا بجلی کا بل ڈیڑھ لاکھ روپے تک پہنچ چکا ہے، عوام کی اپیل ہے کہ حکومت فوری طور ان سوسائٹیوں کو واپڈا کے بل کے علاوہ تمام ٹیکس وصول کرنے سے روک دے، یہ سوسائٹیاں رہائشیوں سے تمام ٹیکس باقاعدگی سے وصول کر رہی ہیں لیکن اسے باقاعدگی سے قومی خزانے میں جمع نہیں کروا رہی ہیں، پچھلے دنوں 76 کروڑ روپے کے سرکاری ٹیکس ادا نہ کرنے پر ایک سوسائٹی کی بجلی کاٹ دی گئی بعد ازاں ایک قسط کی ادائیگی کے بعد بحال کردی کر دی گئی، اس سوسائٹی نے کئی ماہ پہلے ٹیکس رہائشیوں سے وصول کرلئے تھے ، اگر ان سوسائٹیوں کا فرانزک آڈٹ کروایا جائے تو پتہ چل جائیگا کہ یہ سوسائٹیاں قومی خزانے میں بروقت جمع کرنیکی بجائے ٹیکس کا روپیہ منافع بخش سکیموں میں لگا دیتی ہیں اس طرح وہ عوام اور حکومت دونوں کو دھوکہ دے رہی ہیں، عوام کی اپیل ہے کہ حکومت جنگی بنیادوں پر عوام کو اقساط میں سولر سسٹم فراہم کرے، عوام کی یہ بھی اپیل ہے کہ بجلی کمپنیوں کیساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کی جائے ورنہ عوام مکمل طور پر دیوالیہ ہوجائیگی،
سوئی گیس بلوں پر نظر ڈالیں تو پتہ چلے گا کہ پانچ سال پہلے تک متوسط گھرانے میں ہر ماہ سوئی گیس کا بل چند سو روپے تک موصول ہوتا تھا اب یہ بل پندرہ ہزار روپے اور بڑے گھروں میں یہ بل ایک لاکھ روپے تک پہنچ گیا ہے، افسوس یہ ہے کہ وہ قدرتی گیس جو ہمارے ملک میں سے نکلتی ہے اور اس کا ڈالر سے کوئی لینا دینا نہیں ہے وہ ہمیں 22 قیراط سونے کے ایک گرام کی قیمت کے برابر ماہانہ مل رہی ہے، وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ ا?ئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کیلئے بجلی اور سوئی گیس کے نرخ بڑھائے گئے ہیں، سوئی گیس حکام نے نہایت بیدردی سے وضاحت کی ہے دنیا بھر میں گیس بہت مہنگی ہے، کوئی یہ نہیں بتا رہا کہ دنیا بھر میں آمدنی اور اخراجات میں اتنا بھی فرق نہیں ہوتا کہ عوام بھوکے مرجائیں، یہ تو ریاست مدینہ کے ایک سابق امیر کے کئے گئے بندوبست والے ملک کی چند خبریں تھیں اب کافر ملک امریکہ کی بات کرتے ہیں، 96 سالہ کافر بیوہ ڈاکٹر روتھ گوٹیسمین نے اپنے بچوں سے مشورہ کرکے اپنے خاوند کے 1 ارب ڈالر (2 کھرب 79 ارب پاکستانی روپے سے زائد) کا ورثہ نیویارک کے غریب ترین علاقے برونکس میں موجود البرٹ آئن اسٹائن کالج آف میڈیسن کو عطیہ کر دیا جس سیدنیا حیران ہوگئی،
کالج انتظامیہ نے اتنی بڑی رقم کو ہڑپ نہیں کیا بلکہ اعلان کیا کہ اب مستقبل میں کبھی بھی طالبعلموں کو ٹیوشن فیس ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی، میں سوچ رہا ہوں کہ جنت ان جیسے کافروں کو ملے گی یا مسلمانوں کو جو اپنے ہی عوام کو جیتے جی نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں۔