طالبانائزیشن کے بارے میں ہمارے پاس کوئی اطلاع نہیں‘ اتحادیوں کے تحفظات کا انہیں علم ہوگا : قائم علی شاہ

May 04, 2009

سفیر یاؤ جنگ
لاہور (انٹرویو: سلمان غنی) وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے ملک کے مستقبل کو جمہوریت سے مشروط قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی کا اصولی فیصلہ ہے کہ جمہوری قوتوں کو ساتھ لے کر چلیں گے‘ اہم فیصلوں میں انہیں اعتماد میں لیا جائے گا‘ امریکی عزائم کیا ہیں ہم نہیں جانتے لیکن ملک میں جمہوری حکومت عوامی تائید و حمایت سے چلتی رہے گی۔ اندرونی و بیرونی چیلنجوں سے پارلیمنٹ کے ذریعے نمٹیں گے۔ وہ نوائے وقت سے بات چیت کررہے تھے۔ اس موقع پر قاسم ضیائ‘ منیر حسین گیلانی اور پیپلزپارٹی لاہور کے صدر چودھری اصغر علی موجود تھے۔ قاسم علی شاہ نے کراچی میں ہونے والی حالیہ بدامنی کے واقعات کے حوالے سے انکشاف کیا کہ شرپسندوں‘ گھیرائو جلائو کے مرتکب اہم افراد پکڑے جاچکے ہیں تحقیقات ہورہی ہے دیکھا جارہا ہے کہ یہ لوگ غیرملکی آشیرباد پر عمل کررہے تھے یا کسی سیاسی حمایت سے البتہ یہ طے ہے کہ عوام کے جان و مال پر اثرانداز ہونے والے سزا سے نہیں بچ سکیں گے۔ لینڈ مافیا ہیں یا کوئی اور مافیا کوئی قانون سے بالاتر نہیں۔ قانون پر اثرانداز ہونے والوں کے خلاف قانون ضرور حرکت میں آئے گا۔ یہ ہمارا اپنی اتحادی جماعتوں کے درمیان بھی طے ہوچکا ہے۔ 12 مئی کے واقعات کے سب بڑے متاثرین ہم خود ہیں میری قیادت میں جلوس نکلا تھا۔ ہمارے بندے مارے گئے تھے۔ 12 مئی اور 9 اپریل کے واقعہ کی تحقیقات کیلئے ہائیکورٹ کے جج کی سربراہی میں جوڈیشل انکوائری ہورہی ہے۔ کراچی میں دہشت گردی اور گھیرائو جلائو کے واقعات میں غیرملکی ہاتھ کا جائز لیا جارہا ہے جو بھی تحقیقات ہوگی عوام کے سامنے لائیں گے۔ طالبائزیشن کے عمل کے حوالے سے ہمارے پاس کوئی اطلاعات نہیں نہ یہاں اس حوالے سے کوئی سرگرمیاں ہیں۔ ہمارے کسی اتحادی کے تحفظات ہیں تو انہیں معلوم ہوگا۔ کراچی میں بدامنی کسی وطن دوست کی کارروائی ہوسکی۔ کراچی میں چاروں صوبوں کے لوگ بستے ہیں یہ منی پاکستان ہے۔ یہاں بدامنی لاقانونیت کرنے والوں کو معاف نہیں کیا جاسکتا۔ ہم نے سندھ کی سطح پر فیصلہ کیا کہ بدامنی‘ قتل و غارت یا لوٹ مار میں جو ملوث ہوگا وہ قابل معافی نہیں۔ فاٹا میں جاری آپریشن کے کوئی اثرات کراچی یا سندھ میں نہیں البتہ وہاں کے متاثرین اپنے عزیز و اقارب کے پاس یہاں آرہے ہیں تو ان کی جانب سے کسی غیرقانونی سرگرمی کی کوئی شکایت نہیں ملی۔ دونوں سے رابطہ کی کوشش کررہا ہوں تاکہ ان پر پوزیشن واضح کروں۔ انہوں نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں شمولیت کے حوالے سے کہا کہ پیپلزپارٹی نے مفاہمت کی پالیسی کے تحت پہلے ہی مخلوط حکومتیں بنائی ہم سمجھتے ہیں ملک کو درپیش چیلنجوں سے صرف اس صورت میں نمٹا جاسکتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) سے بھی اپیل کی گئی وزیراعظم کا ان سے رابطہ سے امید ہے وہ بھی مفاہمت کے عمل کے تحت حکومت سے تعاون کریں گے۔ انہوں نے بلوچستان کی صورتحال کے حوالے سے کہا کہ وہاں صورتحال میں بہتری آرہی ہے۔ خود صدر نے بھی بلوچستان کا دورہ کیا وہاں کے مسائل کیلئے خصوصی پیکج کا اعلان کیا۔ انشاء اللہ وہاں بہتری پیدا ہوگی۔ انہوں نے ایک اور سوال پر کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ ہم نے سندھ میں امن قائم کر دکھایا لیکن حالیہ واقعات نے امیج خراب کیا ایسے اقدامات کررہے ہیں کہ آئندہ ایسا واقعہ نہیں ہوگا۔ گھیرائو جلائو اور قتل و غارت میں کوئی بھی ملوث ہوگا کسی بھی جماعت سے ان کا تعلق ہوگا سزا سے بچ نہیں سکے گا۔ پیپلزپارٹی پاکستان کی سب سے اہم سیاسی قوت ہے اور وہ طاقت کی بجائے سیاسی فیصلوں پر یقین رکھتی ہے اور ہم سیاسی فیصلوں کے ذریعے ہی سسٹم کو مضبوط کرنے کے خواہاں ہیں۔ انہوں نے ایک اور سوال پر کہا کہ جمہوریت جمہوری سسٹم اور جمہوری اداروں کے ذریعے ہی ملک بقاء و سلامتی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے لہٰذا ایسا کوئی عمل نہیں کریں گے جس سے جمہوریت کمزور ہو۔ دریں اثناء جہانگیر بدر کی رہائش گاہ پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہا کہ کراچی میں کوئی طالبائزیشن نہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر ہم پر تنقید کرتے ہیں جبکہ ان کے وفود ہم سے ملکر ہماری تعریف کرتے ہیں‘ کراچی میں 29 اپریل کو ہونے والے واقعات کی تحقیقات کی جارہی ہیں‘ 3 روز میں اس بارے رپورٹ آجائے گی جو صدر اور وزیراعظم کو بھجوائی جائے گی۔ ایم کیو ایم ہماری اتحادی ہے لیکن آئی جی اور سی سی پی او جیسے افسروں کی تبدیلی کے مطالبے مناسب نہیں۔ 12 مئی کو ہمارے کارکنوں کو تیتروں اور بٹیروں کی طرح مارا گیا اور اس روز دہشت گردی کی سب سے پیپلزپارٹی اور دوسرے نمبر پر اے این پی شکار ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم والے ہم سے پہلے ناراض تھے نہ اب ہیں۔ ہم نے عمران پر پابندی ختم کرنے کا اعلان کیا ہے اس پر ایم کیو کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ پرویز مشرف کے دور میں 12 مئی سمیت بہت سے واقعات ہوئے لیکن کبھی ان کی تحقیقات نہیں کی گئی اور آج تک یہ پتہ نہیں چلا کہ کس نے کیا کیا۔ مشرف کے دور میں دیئے جانے والا این ایف سی ایوارڈ کسی کیلئے بھی قابل قبول نہیں ہونا چاہیے‘ نئے این ایف سی ایوارڈ کیلئے چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ ایک دوسرے سے رابطوں میں ہیں۔
مزیدخبریں