پچھلے تین دن میں پلوں کے نیچے سے کتنا پانی ملتان بہہ گیا، اس کا اندازہ ہم چشم نم کیا کریں گے؟ ایک تخمینے کے مطابق یہ پانی پوری قوم کے ذہن و دل کی آبیاری کے لئے کافی تھا! محترمہ بے نظیر بھٹو کی سہیلی اور ممتاز برطانوی صحافی کرسٹینا لیمب میدان عمل میں اتر آئیں اور ایک چشم کشا رپورٹ ذرائع ابلاغ کی زینت بنا گئیں! ’بے نظیر کی جائے شہادت مشرف کے قریبی ساتھی کے حکم پر دھلوائی‘ یہ بات جناب سعود عزیز نے انہیں بتائی! حسین حقانی صاحب نے بتایا کہ مشرف حکومت نے بے نظیر کی سکیورٹی بڑھانے کی جگہ گھٹانے کے احکامات صادر کر دیئے! جناب بیت اللہ محسود نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو پیغام بھجوایا، ’اپنا دشمن! ہم ملوث نہیں!‘ یہ پیغام سانحہ کارساز کے بعد محترمہ بے نظیر تک پہنچایا گیا! محترمہ بے نظیر بھٹو کی وصیت ایک نامعلوم شخص نے آصف زرداری تک پہنچائی اور جناب آصف زرداری اس ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریر اور ’بھٹو‘ کے غلط ہجے بھی نہ پہچان پائے! ادھر ایک ’پارٹی فیصلہ‘ جاری ہوا ’بے نظیر قتل: رحمن ملک اور بابر اعوان سے تفتیش نہیں ہو گی!‘
نیویارک ٹائم سکوائر میں ایک دھواں نکلتی گاڑی سے دھماکہ پیدا کرنے والا خودساختہ مواد نکال کر محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا اور یوں نیویارک کے لوگ ایک بڑی تباہی سے دوچار ہوتے ہوتے رہ گئے! پاکستانی طالبان نے ناکام حملے کی ذمہ داری قبول کر لی!‘ مگر امریکی حکام نے یہ ’اعتراف‘ ناقابل تردید شہادتوں کی بنا پر ’مسترد‘ کر دیا اور صدر اوباما کی ہدایت پر اصل مجرموں کے پیچھے نکل کھڑے ہوئے! اب امریکی ہر شرارت کے پیچھے بھارتی شہریوں کو نظرانداز کرنا چھوڑ بیٹھے ہیں! ہفتے کی شام ہم میڈیکل سٹور پر دوا لینے گئے تو میڈیکل سٹور پر پریکٹس کرنے والے ڈاکٹر صاحب نے ہمیں اپنے پاس بلایا اور ٹیلی فون کریڈل پر رکھتے ہوئے بولے، ’رائے ونڈ روڈ پر ایک کے بعد ایک دو عدد دھماکے ہوئے ہیں!‘
ہمارا موڈ آف ہو گیا اور ہم صرف ضروری ادویہ لے کر گھر لوٹ آئے! گھر پہنچے تو معلوم ہوا کہ ہدف کوئی سرکاری رہائش گاہ نہیں تھی بلکہ رفیع پیر تھیٹر تھا، جہاں بیک وقت تین پروگرام چل رہے تھے! ان میں ایک نشست جسٹس (ریٹائرڈ) جناب بھگوان داس کے ساتھ برپا تھی! بہرطور صرف دو آدمی شیشے کے ٹکڑے لگنے سے زخمی ہوئے اور تمام لوگ بخیروعافیت نکال کر گھر پہنچا دیئے گئے! ایک چلتے پروگرام کے دائیں طرف ’رفیع پیر‘ کے نام نامی سے منسوب تھیٹر کی عمارت نظر آ رہی تھی اور ’جیو! معاملات الجھا کر جیو!‘ کے نعرے پر عمل کرتے ہوئے، دھماکے کی ذمہ داری تنظیم:دفاع نظریہ پاکستان نے قبول کر لی‘ کی عبارت جل بجھ رہی تھی! ہمارا ذہن بہت پیچھے چلا گیا!
راولپنڈی کے مرکزی باغ میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم نواب زادہ خان لیاقت علی خان کی شہادت کی تحقیقات کا رخ بار بار جناب لیاقت علی خانؒ اور جناب حمید نظامیؒ کے درمیان موجود اختلافات کی طرف مرکوز کیا جاتا رہا اور جناب لیاقت علی خان کی قیادت کے ساتھ پاکستان میں آزاد صحافت کی قیادت کی بساط بھی ساتھ کے ساتھ لپیٹ دینے کا پروگرام بنتا اور بگڑتا رہا! بہرطور نوائے وقت آج بھی نکل رہا ہے اور اس کے بانی مدیر کبھی ’لیاقت قتل‘ میں ملوث نہیں کئے جا سکے! آج ’دفاع نظریہ پاکستان‘ نامی تنظیم کا ذکر ذرائع ابلاغ پر آیا مگر ہماری حکومت اور ہماری پولیس امریکی حکومت اور پولیس کی طرح ’ذمہ داری‘ کا کوئی ثبوت مہیا نہیں کر سکی! نوائے وقت کے ادارتی شذرے بھی اس ذکر سے خالی ہیں! یہ بے سروپا باتیں اپنی موت آپ مر جاتی ہیں! مگر ’معاملات الجھا کر جینے والے‘ یہ بات جوڑنا گوارا نہیں کر رہے! افسوس اس بات کا ہے کہ اس بار ہمارے اپنے ان کے ساتھ ہیں!
نیویارک ٹائم سکوائر میں ایک دھواں نکلتی گاڑی سے دھماکہ پیدا کرنے والا خودساختہ مواد نکال کر محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا اور یوں نیویارک کے لوگ ایک بڑی تباہی سے دوچار ہوتے ہوتے رہ گئے! پاکستانی طالبان نے ناکام حملے کی ذمہ داری قبول کر لی!‘ مگر امریکی حکام نے یہ ’اعتراف‘ ناقابل تردید شہادتوں کی بنا پر ’مسترد‘ کر دیا اور صدر اوباما کی ہدایت پر اصل مجرموں کے پیچھے نکل کھڑے ہوئے! اب امریکی ہر شرارت کے پیچھے بھارتی شہریوں کو نظرانداز کرنا چھوڑ بیٹھے ہیں! ہفتے کی شام ہم میڈیکل سٹور پر دوا لینے گئے تو میڈیکل سٹور پر پریکٹس کرنے والے ڈاکٹر صاحب نے ہمیں اپنے پاس بلایا اور ٹیلی فون کریڈل پر رکھتے ہوئے بولے، ’رائے ونڈ روڈ پر ایک کے بعد ایک دو عدد دھماکے ہوئے ہیں!‘
ہمارا موڈ آف ہو گیا اور ہم صرف ضروری ادویہ لے کر گھر لوٹ آئے! گھر پہنچے تو معلوم ہوا کہ ہدف کوئی سرکاری رہائش گاہ نہیں تھی بلکہ رفیع پیر تھیٹر تھا، جہاں بیک وقت تین پروگرام چل رہے تھے! ان میں ایک نشست جسٹس (ریٹائرڈ) جناب بھگوان داس کے ساتھ برپا تھی! بہرطور صرف دو آدمی شیشے کے ٹکڑے لگنے سے زخمی ہوئے اور تمام لوگ بخیروعافیت نکال کر گھر پہنچا دیئے گئے! ایک چلتے پروگرام کے دائیں طرف ’رفیع پیر‘ کے نام نامی سے منسوب تھیٹر کی عمارت نظر آ رہی تھی اور ’جیو! معاملات الجھا کر جیو!‘ کے نعرے پر عمل کرتے ہوئے، دھماکے کی ذمہ داری تنظیم:دفاع نظریہ پاکستان نے قبول کر لی‘ کی عبارت جل بجھ رہی تھی! ہمارا ذہن بہت پیچھے چلا گیا!
راولپنڈی کے مرکزی باغ میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم نواب زادہ خان لیاقت علی خان کی شہادت کی تحقیقات کا رخ بار بار جناب لیاقت علی خانؒ اور جناب حمید نظامیؒ کے درمیان موجود اختلافات کی طرف مرکوز کیا جاتا رہا اور جناب لیاقت علی خان کی قیادت کے ساتھ پاکستان میں آزاد صحافت کی قیادت کی بساط بھی ساتھ کے ساتھ لپیٹ دینے کا پروگرام بنتا اور بگڑتا رہا! بہرطور نوائے وقت آج بھی نکل رہا ہے اور اس کے بانی مدیر کبھی ’لیاقت قتل‘ میں ملوث نہیں کئے جا سکے! آج ’دفاع نظریہ پاکستان‘ نامی تنظیم کا ذکر ذرائع ابلاغ پر آیا مگر ہماری حکومت اور ہماری پولیس امریکی حکومت اور پولیس کی طرح ’ذمہ داری‘ کا کوئی ثبوت مہیا نہیں کر سکی! نوائے وقت کے ادارتی شذرے بھی اس ذکر سے خالی ہیں! یہ بے سروپا باتیں اپنی موت آپ مر جاتی ہیں! مگر ’معاملات الجھا کر جینے والے‘ یہ بات جوڑنا گوارا نہیں کر رہے! افسوس اس بات کا ہے کہ اس بار ہمارے اپنے ان کے ساتھ ہیں!