الیکشن کا دن پریذائیڈنگ افسر اور اُ ن کے ساتھی عملے کو اپنے بل بوتے پر کھلڑی محفوظ رکھ کر گزارنا ہوتا ہے۔ حکومت،انتظامیہ اور پولیس مددگاری کے دعویدار تو ہوتے ہیں، مددگار نہیں ہوتے۔ پولنگ سے دو دن قبل ایک بے چینی کی کیفیت ہوتی ہے۔ جبری خدمت اور اس خدمت میں تذلیل کے چرکے سہنے کا ڈر ہوتا ہے۔ الیکشن سے قبل لائن میں لگ کر انتخابی سامان حاصل کرنا ہوتا ہے۔ ہڑبونگ،دھکم پیل،پٹواریوں،اُن کے نائبین اور چپڑاسیوں کی شاہی میں اساتذہ ”پھرتے ہیں میرخوار کوئی پوچھتا نہیں“ کی چلتی پھرتی تصویر بے چارگی بنے ہوتے ہیں۔
اس حشرِ ناشناسی میں انتخاب کا سامان حاصل کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوتا۔ لائن میں لگے اساتذہ دل گردے، بلڈ پریشر اور شوگر کے نسخے ایک دوسرے سے بانٹتے، اس دن کی کوفت کو کوستے، جلد خلاصی کی دعائیں کرتے اپنے پرانے شاگردوں کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں تاکہ کوئی اس امتحانِ ناروا سے نکالے۔ دھوپ،گرمی اور پیاس کی پریشانی اس پرمستزاد ہے۔ پولنگ بکس، بلٹ پیپرز کی کاپیاں، لفافے اور ان میں مختلف سامان سنبھالتے ہے بے چارے پرایذائیڈنگ افسر، کوئی بیٹے کو لایا ہے تو کوئی داماد کو، کسی نے بھتیجے کو پکڑا ہوا ہے تو کوئی بھانجے کو ساتھ لیے ہوئے ہے اور کسی کے ساتھ اس کا شاگرد مددگار بنا ہوا ہے۔
خواتین پریذائیڈنگ آفیسرز کا حال تو اس سے بھی زیادہ برا ہوتا ہے۔انتخابی عملے کا کنبہ کسی نہ کسی رنگ میں انتخاب کے اہتمام میں لگا ہوتا ہے۔ بیوی بچے دو دن کیلئے سامان کا بیگ تیار کرتے ہیں۔ ایک دو جوڑے، چادر، ٹوتھ پیسٹ، برش، صابن ، تولیہ، کوئی کتاب یا رسالہ، اضافی عینک، روزانہ کی دوائیاں احتیاطی طورپر رکھی گئی درد،بخار، نزلہ زکام اور ہاضمے کی گولیاں، مچھروں سے بچنے کیلئے کوئی لوشن،میٹ یا کوائل، الیکشن والے دن بالخصوص ذیابیطس کے مریضوں کیلئے چنے،گڑ، ٹافیاں، بسکٹ اور گردے کے مریضوں کیلئے پانی کی بوتلیں، غرض سامان کی ایک طویل فہرست کو مکمل کرنا ہوتا ہے۔ ساری زندگی اچھے بچوں کی طرح کالج سے گھر اور گھرسے کالج آنے والے بے ضرر پروفیسر صاحبان کو، جو ضروری سفر کو بھی کسی نہ کسی ڈھنگ سے غیر ضروری قرار دے کر اس سے گریز کرتے ہیں، ایک مشکل سفر درپیش ہوتا ہے۔ اپنا سامان، الیکشن کا سامان گویا پوری بارات کا سامان اور بے چارہ دلہا یعنی پریذائیڈنگ افسر یہ سب کچھ اکیلے ہی بھگتنا ہے۔ دور کے پولنگ سٹیشن پر الیکشن سے ایک دن قبل پہنچنا لازم ہوتا ہے۔ انتخابی سامان کی حفاظت، پہنچ اور تزئین و آراستگی سب اسی بے چارے کی ذمہ داری ہوتی ہے اور اس پر اگلے دن کے اندیشے ہلکان کرتے ہیں۔
الیکشن کے دن کیا ہوتا ہے؟ آئیے چند پروفیسروں کی زبانی وہ ہم آپ کو سنوائے دیتے ہیں۔ چند پر بیتی سب کی کہی ہے۔ ایک پروفیسر صاحب فرماتے ہیں کہ میں اپنا سامانِ خوردونوش ساتھ لے کرگیا۔ پٹواری کے نائب کی رہنمائی میں جہاں پہنچے تو میزبانوں کو اندازہ ہوگیا کہ موصوف ضرورت سے زیادہ ایماندار ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ ہم نے شفاف الیکشن پر ایک لیکچر بھی وہ پہنچتے ہی دے مارا۔ ہمارے اسسٹنٹ پریذائیڈنگ اور پولنگ افسر ہمیں آنکھوں ہی آنکھوں میں حکمت اور مصلحت اختیار کرنے کے اشارے کرتے رہے لیکن شفاف الیکشن کا بھوت ہمارے سر سے لیکچر دے کر ہی اترا۔ ہماری تقریر سُن کر میزبانوں نے مدارات کا رنگ بدل دیا۔ ضیافت پھیکی ہوگئی اور گزشتہ الیکشن کے خوفناک واقعات سے ہمارا عزم جانچا جانے لگا۔ ہم نے کہا کہ ضروری نہیں کہ ہر دفعہ ایسا ہی ہو۔ ہمارا مصمم ارادہ دیکھ کر انہوں نے دھاندلی کا منصوبہ نمبر ایک تو ایک طرف رکھ دیا اور منصوبہ نمبر دو پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس منصوبہ نمبر 2کا راز ہم پر الیکشن کے دو ہفتوں بعد اپنے ایک شاگرد کی زبانی فاش ہوا تو ہم اپنی دانش کی پٹائی اور ایمانداری کی رسوائی پر سرپیٹ کر رہ گئے۔
الیکشن والے دن صبح سویرے میزبان گروپ کے حامیوں نے پولنگ سٹیشن پر یوں قبضہ کرلیا کہ پولنگ بوتھ کے دروازے کے ساتھ ساتھ لمبی قطاریں بنالیں۔ انتخابی عملے کے ایک دو ہمدردوں کو سست روی سے ووٹنگ کروانے اور ممکن حد تک انمٹ سیاہی لگانے سے اجتناب کرنے کا بھی اشارہ کردیا گیا۔ دن بارہ بجے تک پولنگ سست روی سے ہوتی رہی اور پولنگ سٹیشن پُر امن رہا۔ مخالف پولنگ ایجنٹ نے اعتراض کیا کہ باہر ہمارے لوگوں کو ووٹ نہیںڈالنے دیاجارہا ہے۔ میں نے شکایت کا جائزہ لیا۔ استفسار پر لائن میں لگے لوگوں نے کہا کہ ہم پہلے آئے ہیں جو بعد میں آئے ہیں وہ بعد میں ووٹ ڈالیں ہم اپنی جگہ کسی دوسرے کو کیوں دیں۔ جواب معقول تھا ہم نے بھی لائن کے اصول پر عمل کی تصدیق کی۔ بارہ بجے کے قریب جب ہمارے میزبانوں کے ووٹ ختم ہوگئے اور مخالفین کے ووٹ پول ہونا شروع ہوئے تو انہوں نے دھاندلی دھاندلی کا شور مچادیا۔لٹھ بازی شروع ہوگئی۔ کچھ لڑاکے پولنگ بوتھ میں گھس آئے۔ ایک نے مخالف پولنگ ایجنٹ پر ڈنڈے سے حملہ کردیا۔ میں آڑے آگیا اس دوران اُسے بھاگنے کا موقع مل گیا ۔ تھوڑی دیر آمنے سامنے کی لڑائی کے بعد دونوں فریق ایک دوسرے سے دور ہوکر سنگ بازی کرنے لگے۔ پولنگ سٹیشن کی کھڑکیوں اور دروازوں پر پڑنے والے پتھروں سے ایسا لگ تھا جیسے یہ ہمارے سر پہ برس رہے ہوں۔ پولیس حسبِ معمول کہیں غائب ہوگئی۔ ہمارے عملے کے بھی ایک صاحب کھسک گئے۔
تھوڑی دیر کی معرکہ آرائی کے بعد پولنگ سٹیشن پر پہلے ووٹ ڈالنے والوں نے قبضہ کرلیا کیونکہ یہ اُن کا علاقہ تھا اور اُنہوں نے اپنے علاقے میں اسی کارروائی کیلئے پولنگ سٹیشن رکھوایا تھا۔ مجھے کہا گیا کہ اب پولنگ ممکن نہیں۔ واقعی صورتحال بھی یہی تھی۔ میں نے پولیس ملازمین کو ڈھونڈا اور اُن سے کہا کہ جاﺅ اور پولیس فورس لے کر آﺅ۔پہاڑی علاقے میں واقع اس پولنگ سٹیشن سے قریبی تھانہ تقریباً دس میل دور تھا۔ یہاں پہنچنے کیلئے جیپ سے بھی چالیس منٹ لگتے تھے۔ اہلکاروں نے کہا کہ ہمیں جان کا خوف ہے ہم باہر نکلیں تو ہمیں ماراجائے گا۔ میں نے انہیں وردی اتار کر جانے کا کہا۔ بصد مشکل وہ نکلے۔ اب پولنگ بند تھی مجھے مشورہ دیا گیا کہ میں بھی سامان لیکر یہاں سے نکل جاﺅں۔ میں نے کہا کہ چار بجے تک تو میں یہیں رہوں گا اس کے بعد دیکھا جائے گا۔ اس دوران سنگ باری اور شور شرابا جاری رہا۔ پھر دور کے لوگ جو پولنگ اسٹیشن کے سامنے پہاڑ پر چڑھے ہوئے عقب سے حملے کے خوف سے واپس چلے گئے۔ مغرب کے قریب پولیس فورس ایک مجسٹریٹ کی سربراہی میں پہنچی۔
اب یہ مطالبہ شروع ہوگیا کہ ہم ووٹ نہیں ڈال سکے ہیں پولنگ مکمل کروائی جائے۔ مجسٹریٹ صاحب کے حکم سے موٹر سائیکلوں کی لائٹوں میں پولنگ شروع ہوگئی۔ دھڑا دھڑ ووٹ ڈالے جانے لگے۔ جلد پولنگ مکمل کرنے کی کوشش میں سب نے حصہ ڈالا جو ووٹ ڈال چکے تھے چپکے چپکے انہوں نے بھی ووٹ ڈالا۔ اندھیرے میں نہ انمٹ سیاہی کا پتہ چلتا تھا اور نہ ہی نگرانی مو¿ثر ہوسکتی تھی۔
اس دوران مجسٹریٹ صاحب ایک زلف کے اسیر ہوکر لیڈیز پولنگ بوتھ پر اپنی توجہ مرکوز کرنے پر مجبور ہوگئے۔ بیلٹ پیپر ختم ہونے پر پولنگ بھی ختم ہوگئی۔ گنتی ہوئی،نتائج پولنگ ایجنٹس کودئیے گئے اور ہم اُسی فورس کے ساتھ لد کر، نتیجہ اور سامان اُن کے حوالے کرکے، اپنے ساتھ ہونے والے ہاتھ سے بے خبر واپس سدھارے۔
کیا الیکشن،کہاں کی جمہوریت؟
May 04, 2013