مکرمی! دنیا میں آج تک کوئی ماں ایسی نہیں ملے گی جس نے کوئی دہشت گرد پیدا کیا ہو، کسی ماں باپ نے اپنے بیٹے کا نام دہشت گرد نہیں رکھا غریب سے غریب ماں باپ کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اُس کی اولاد پڑھ لکھ کر کسی اچھی نوکری پر فائز ہو جائے مگر اُن کا یہ خواب کم از کم پاکستان میں تو کبھی پورا نہیں ہوا کیونکہ آرٹیکل 62-63 نے یہ چیز روز روشن کی طرح واضح کر دی ہے کہ اس ملک میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی کوئی قدر نہیں۔ اصل ڈگریوں کی کوئی وقعت نہیں یہاں جعلی ڈگری والے بوڑھے کئی کئی محکموں سے تنخواہ وصول کررہے ہیں اور کوئی کام بھی نہیں کرتے سینکڑوں لوگ پاکستانی خزانے سے تنخواہ بھی وصول کرتے ہیں اور عرصہ سے باہر کے ملکوں میں بھی کاروبار کر رہے ہیں۔ ملک میں اگر محکموں میں کوئی آسامیاں ہوں بھی تو وہ حکمران لوگ پانچ پانچ دس دس لاکھ میں فروخت کر دیتے ہیں۔ غریب کا بچہ اتنے پیسے کہاں سے لائے اسی وجہ سے آئے دن خودکشیوں کی خبریں سنائی دیتی رہتی ہیں۔ خودکشیاں کرنے والے یہی پسے ہوئے طبقے کے لوگ ہیں اور اسی پسے ہوئے طبقے کے بچے ہر طرف سے مایوس ہو کر تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق اُس راہ پر چل نکلتے ہیں جسے ہم دہشت گردی کہتے ہیں۔ خودکش بمبار کہتے ہیں لہٰذا پاکستانی حکمرانو!
آپ ہی اپنی اداو¿ں پر ذرا غور کریں ہم اگر عرض کریں گے تو شکائت ہوگی
(مرزا عبدالمجید ہمایوں ناز سیمنا ٹوبہ ٹیک سنگھ )