کب ڈرا سکتا ہے غم کا عارضی منظر مجھے


ہر صورت 11 مئی کو انتخابات کے انعقاد کیلئے آرمی چیف نے مصمم ارادہ ظاہر کیا۔
.... اور امن دشمن عناصر کے حوصلے پست کرنے اور لاقانونیت کرنے والوں کو عبرت نشاں بنانے کے لئے ایسے ہی پختہ ارادے اور بلند آہنگ لہجے کی ضرورت تھی کہ جو آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اختیار کیا کہ الیکشن بروقت ہونگے .... حالات اتار چڑھا¶ کا شکار بنائے جا رہے ہیں.... مگر مجھے جرمنی کے جنرل جوڈل کی یاد آتی ہے کہ جب دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر جرمنوں نے اتحادیوں کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے تو جنرل جوڈل کو ان کے دو معاونوں کے ساتھ تیز روشنیوں کے حصار میں لایا گیا تھا.... اور جنرل جوڈل نے اپنے بیان میں جرمن شکست کو بھی ایک وقار بخش دیا تھا ہار جیت کو بھی باوقار بنایا جا سکتا ہے انہوں نے کہا تھا .... ”اب جرمن اور جرمن افواج فاتحین کے رحم و کرم پر ہیں لیکن یاد رہے کہ گزشتہ پانچ سال سے زیادہ لمبی جنگ میں جتنی کامیابیاں اور جتنی صعوبتیں جرمن قوم کے حصے میں آئی ہیں وہ دنیا کی کسی اور قوم کے حصے میں نہیں آئیں“.... جوڈل کو پھانسی دے دی گئی اسی طرح پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر ماتھیاس ارزبرگر کو لایا گیا تھا ماتھیاس جرمن وفد کا لیڈر تھا اس نے 11 نومبر 1918 کو صبح کے وقت پانچ بج کر دس منٹ پر شکست کے کاغذات پر دستخط کرتے ہوئے کہا ”سات کروڑ کی قوم مصیبت زدہ تو ہو سکتی ہے مردہ نہیں“.... تو سولہ سترہ کروڑ پاکستانی عوام مصیبت زدہ تو ہو سکتی ہے مردہ نہیں.... بقول اقبال....
کب ڈرا سکتا ہے غم کا عارضی منظر مجھے
ہے بھروسا اپنی ملت کے مقدر کا مجھے
.... اور اسی لئے انتخابات کے لئے جلسے جلوسوں کے اہتمام میں اضافے کا رجحان بھی نظر آ رہا ہے.... اور اس دوران ”ن لیگ“ کے فاتح ہونے کے مسلسل اعلانات اس کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ پیغامات ایک تسلسل سے آ رہے ہیں مگر سیاست کے کھیل میں کچھ پتہ نہیں ہوتا ضروری نہیں کہ بادل امنڈ امنڈ کر آئیں اور یہ اندازہ کر لیا جائے کہ بارش برسے گی .... بادل ہوا کے زور سے اڑ کر کہیں اور برسنے کیلئے بھی چلے جاتے ہیں لہذاٰ ن لیگ والوں کو کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیئے.... آج کل کے ووٹرز بھی بادلوں کی طرح کے ہو گئے ہیں....
 کشت بے آب نے دیکھے ہیں وہ گہرے بادل
جو کہیں اور برسنے کو ادھر سے گزرے
کیونکہ عمران خان آج کل لاہور میں انتخابی مہم کو جاری وساری رکھے ہوئے ہیں اور اب تو عام طبقے میں یہ خیال زور پکڑتا جا رہا ہے کہ اصل مقابلہ تو ن لیگ اور تحریک انصاف کا ہی ہونا ہے نوازشریف راولپنڈی‘ اسلام آباد جلسے کے لئے آنے والے ہیں انہیں چاہیئے کہ وہ چترال کا بھی انتخابی دورہ کریں کیونکہ چترالی عوام مشرف کی محبت میں اس لئے گرفتار تھے کہ مشرف نے وہاں پولو گرا¶نڈ بناکر اس علاقے میں دلچسپی لی تھی.... اب چترالی عوام مشرف کی طرف سے مایوس کن صورت حال کے بعد کافی حد تک کنفیوز ہیں.... اور مشرف کے بعد ان کا رجحان مسلم لیگ ن کی طرف ہو سکتا ہے بہر حال ہم تو نیک و بد سمجھائے دیتے ہیں آگے ان کی مرضی بقول اقبال....ع
 شائد کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات!
............................
روس میں پہلا ”ہیرو آف لیبر“ ایوارڈ 5 افراد کو دیا گیا۔
.... اور اس مرتبہ تو روس میں ”یوم مزدور“ پر تعطیل بھی کی گئی ہے تاریخ کا جائزہ لیں تو پندرھویں سے انیسویں صدی تک روسیوں کی اکثریت کا تعلق دیہات سے تھا اور لوگ زراعت پیشہ تھے .... مگر یہ زراعت پیشہ اپنی اپنی زمینوں کے مالک نہیں تھے بلکہ جاگیرداروں کی غلامی میں تھے اور ان زرعی غلاموں کو ہر سال صرف پندرہ دن کیلئے آقا¶ں سے آزادی ملا کرتی تھی اور پھر 1593 کے بعد یہ حق بھی چھین لیا گیا تھا یہ لوگ ”اقتصادی غلامی“ میں جکڑے ہوئے لوگ تھے حتٰی کہ بیسویں صدی تک بھی روس میں ذاتی آزادی اور نچلے طبقوں کیلئے زمین کی انفرادی ملکیت ایک فریب کے سوا کچھ نہیں تھی‘ مگر خواب دیکھنے والی آنکھیں خواب دیکھتی رہتی ہیں بقول عرفی....
 زنقص تشنہ لبی دان بعقل خویش مناز
دلت فریب گراز جلوہ سراب نخورد
(چونکہ پیاسے کو پانی پینے کی شدید خواہش ہوتی ہے اس لئے اسے خواب میں بھی خشک صحرا کے اندر پانی کا دریا نظر آئے گا)
....ہمارے ہاں بھی ہر سال کی طرح ”یوم مئی“ پورے جوش اور ولولے کے ساتھ منایا گیا اور اس مرتبہ بھی جلسے جلوس‘ ریلیاں اور سیمینارز وغیرہ بھی منعقد ہوئے ہیں یہ معلوم نہیں کہ یہ سارے اقدامات صبح کی پہلی کرن کے ساتھ محنت مشقت کرنے کیلئے بیلچوں اور کدالوں کے ساتھ مصروف رقص ہونیوالے مزدوروں کی تقدیر بدلنے کا ذریعہ بنتے ہیں کہ نہیں یا پھر انکی زندگیاں یونہی مجبوریوں کی ہم آہنگی میں ہی گزر جائیں گی.... یہ سچ ہے کہ لوگ آگہی کی منزلوں سے گزر کر بیداری کی طرف بڑھ رہے ہیں مگر خدا نہ کرے کہ یہ بیداری سرکشی میں بدل جائے اور اس سے پہلے عدل کا کوئی ایسا نظام قائم ہو جانا چاہیئے کہ دنیا بھر کے غریب لوگ اقتصادی غلامی سے نجات حاصل کرکے جاگیرداروں کے شکنجے سے نکل کر زندگی گزار سکیں.... بقول فیض احمد فیض....
 جب کبھی بکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت
شاہراہوں پہ غریبوں کا لہو بہتاہے
آگ سی سینے میں رہ رہ کر ابلتی ہے
اپنے دل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے
............................
 بقول مسرت شاہین ”چوڑیاں خوشحالی کی ضامن ثابت ہونگی۔
.... اور مسرت شاہین نے یہ بات اس لئے کی کہ ان کا انتخابی نشان ”چوڑیاں“ ہیں اور پشتو فلموں کی معروف اداکارہ کو اسی قسم کے انتخابی نشان کا انتخاب ہی کرنا تھا کہ جو انکے ہم مزاج ہوتا .... ماضی میں مردوں نے چوڑیاں پہن کر سیاست اور حکمرانی کی ہوگی اس لئے خوشحالی کا ضامن نہ بن سکے مگر مسرت شاہین بھی کہاں انتخابات کی کڑی مہم میں چوڑیاں سنبھالتی پھریں گی؟.... ایک تاجر شیشے کی چوڑیوں کی بوری گدھے پر لاد کر دوسرے شہر کی طرف جا رہا تھا راستے میں ایک پولیس والے نے ڈنڈا مار کر پوچھا .... اس میں کیا ہے؟.... تاجر نے جواب دیا.... ”پہلے تو چوڑیاں ہی تھیں“ .... لہذاٰ خوشحالی کا ضامن چوڑیاں ہونگی تو کرچی کرچی ہو کر بھی خوشحالی کی منتظر عوام کیلئے کیا تبدیلی لے کر آ سکتی ہیں کہ جہاں ابھی تک شیر‘ بلے اور تیر تلوار کچھ نہ کرسکے مگر پھر بھی مسرت شاہین کے حوصلے کی داد دینی پڑتی ہے کہ وہ کارزار سیاست میں مسلسل موجود ہیں اور یہ ہمت پشتو فلموں میں کام کرنے کی وجہ سے ہی آئی ہوگی.... مسرت شاہین جیت جائیں گی یا نہیں.... اس بارے میں تو کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا مگر یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ ان کو ووٹ نہیں پڑیں گے.... سیاست کے میدان کے علاوہ ان کے بحیثیت اداکارہ بھی کافی ”فین“ موجود ہیں کہ جو انہیں ووٹ دیں گے چاہیے ان کا مقصد ”چوڑیوں“ کے ذریعے خوشحالی لانے کا نہ بھی ہو.... بقول شاعر....
خط لکھیں گے گرچہ مقصد کچھ نہیں ہو
ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے
.... ویسے عمران خان اپے جلسوں میں ”بلے“ اور ”شرٹس“ تقسیم کرتے ہیں.... مسرت شاہین بھی اپنے انتخابی جلسوں میں ”چوڑیاں“ تقسیم کر سکتی ہیں لیکن انہیں ”چوڑیوں“ کے سائز کے بارے میں خصوصی آرڈر دینا پڑے گا کیونکہ عموماً انتخابی جلسوں میں مردوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن