نئے پاکستان کی بحث --- کیوں؟

May 04, 2013


وطن عزیز پاکستان سے جو لوگ پیار کرتے ہیں اور جو نہیں چاہتے کہ اس پر آنچ بھی آئے، انہیں یہ پیارا وطن اپنے تن من دھن سے بھی زیادہ عزیز ہے مگر کچھ لوگ کسی نئے پاکستان کی بات کرتے ہیں اور جب بھی ایسے لوگ متحرک ہوتے ہیں تو پرانے پاکستان کو جو اصلی پاکستان ہے پریشانی لاحق ہو جاتی ہے ہمارے پرانے پاکستان کے باسی نئے پاکستان والی بات سُن کر فکرمند ہو جاتے ہیں کہ جس طرح غالب کو دہلی اچھا لگتا تھا دنیا جہاں سے بھی زیادہ عزیز تھا اسی طرح ہم پاکستانیوں کو بھی اپنا پرانا پاکستان دل و جان سے زیادہ عزیز ہے۔ اسی طرح ہم پرانے پاکستان کو پرانی کتاب کی طرح دل میں سمائے پھرتے ہیں ہمارے لئے تو نیا لاہور ہی بن جائے تو ہم اسے بھی کوستے پھرینگے کہ ”نہیں ریساں شہر لاہور دیاں“ کہ ہمارے پرانے لاہور میں وہ مینار پاکستان ہے جس پر بنگالی، اردو اور انگریزی زبان میں بھی ہمارے عزت و ناموس کی داستان رقم ہے یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے پاکستان کے لئے آج بھی یہی کہتے ہیں کہ ”پاکستان ہے تو ہم ہیں“ بلکہ گنگناتے ہیں کہ ”سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے“ کہ جو لوگ اس سنہری دھرتی کو معرض وجود میں لانے میں شریک تھے مرتے وقت نئی نسل کو کہہ گئے تھے کہ
ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے
اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے
ایک زمانے میں کسی نئے پاکستان کو بنانے کیلئے ذوالفقار علی بھٹو بھی میدان میں آئے تھے مگر خواب دیکھنے والے بھٹو صاحب ڈھاکہ، نواکھلی اور چٹاگانگ کو شاید بھول گئے تھے اسکے بعد تحریک انصاف سے پہلے کافی لوگوں نے کسی نئے پاکستان کی بات کی مگر وہ لوگ بھی بھارت جا کر کسی نہر والی حویلی پر اپنا سب کچھ قربان کرنے پر آمادہ ہو گئے! ہم تو محض ان بزرگوں کے طرفدار ہیں جو قیام پاکستان سے پہلے حضرت قائداعظم اور حضرت علامہ اقبال کی قیادت میں پاکستان کیلئے جدوجہد کرتے رہے۔
انہی میں جناب حمید نظامی مرحوم اور ریٹائرڈ کرنل امجد حسین جیسے جواں سال پاکستان کے نام پر کٹ مرنے والے وہ لوگ تھے جو گلی گلی قریہ قریہ دن رات پاکستان کیلئے کام کرتے رہے تھے، کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہم اس پیارے پاکستان کے مشرقی پاکستان، جونا گڑھ، منادر سمیت کئی دوسرے علاقوں کو بھی پاکستان کا حصہ بنانے میں کامیاب ہو سکتے! یا کم از کم اعلان ہی کر دیتے۔ ہمارے ذہنوں سے تو ابھی تک وہ بھیانک یاد ہی محو نہیں ہو سکی جب مشرقی پاکستان میں میانوالی کے ایک جنرل نیازی نے اپنی جان قربان کرنے کی بجائے ہتھیار پھینک دئیے تھے تو بھارت نے کچھ غداروں سے مل کر میرے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا دیا تھا اور اسکے بعد اس حادثے کے بعد جب صرف مغربی دریا پاکستان کو ہی مجبوراً ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے حوالے کرنا پڑا تو بے شک مرحوم نے نئے پاکستان کی ترکیب محض مقہور پاکستانیوں کو نئی سوچ دینے کیلئے دی تھی۔ وہ دن اور آج کا دن کسی نے بھی نئے پاکستان کی ترکیب کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔
مگر پھر سے نئے پاکستان کی بات کرنیوالے شاید سادگی یا مکاری میں بھول گئے ہیں کہ نیو خان کے نام پر نئی ٹرانسپورٹ کا آغاز تو ہو سکتا ہے، نیو بٹ کے نام پر مٹھائی کی دکانیں کھل سکتی ہیں مگر پاکستان وہی اصلی ہے جو پرانا پاکستان ہے، پیارا پاکستان ہے نیا پاکستان نہ بننا چاہئے نہ بنانے کا دعویٰ کرنا چاہئے اور نہ ہی کسی مچھندر کو میرے پیارے پاکستان کو نیا پاکستان کہنے کا یا بنانے کا حق ہے۔
اب اقتدار کی خاطر تحریک انصاف اور کچھ دوسری سیاسی شخصیات جس طرح کی زبان استعمال کر رہے ہیں جس طرح کے حیلے وسیلے اختیار کئے ہوئے ہیں اس پر اور اس انداز سیاست پر ہمیں کچھ کہنے، تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں کہ ہم آج کے حالات میں پندو نصیحت کرنے کو وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں مگر پاکستان سے محبت کا دم بھرنے والے ان بظاہر جنونی لوگوں سے یہ ضرور کہیں گے کہ بے چینی میں تھوڑ ی کمی لانے کی کوشش کریں اور ہم مقہور و محب وطن پاکستانیوں کو یہ تاثر نہ دیں کہ باری کے انتظار میں کچھ لوگوں کی بے چینی زیادہ ہو گئی ہے۔ ان حالات میں فقط یہ کہہ لیں، کسی نئے پاکستان کی بات کرنے کی بجائے اتنا سوچ لیں کہ ”پاکستان ہے تو ہم ہیں“ اگر ایسا نہیں ہوا تو خواہشمندان اقتدار سے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ خواہش اقتدار یا ہوس اقتدار میں جو کانٹوں پر زبان رکھ لیں گے وہ ساری زندگی کُرلاتے، پچھتاتے رہیں گے۔
ہم نئے پاکستان کی ترکیبوں سے بے چین و بے قرار ہو جاتے ہیں اس لئے پرانا پاکستان، اصلی پاکستان ہی اچھا لگتا ہے کہ نئی نویلی دلہنیں یا تیسری مخلوق جب کسی نئے پاکستان کی بات کرتی ہیں تو ہم یہ دعا کرتے ہیں کہ اس طرح کے دعوے سے بہتر ہے کہ ہمیں قائداعظم کا اصلی پاکستان لوٹا دیا جائے۔ ہے کوئی ایسا رہنما جو ہمیں اصلی اور پرانا پاکستان لوٹا دے اور پرانے پاکستان پر آنچ نہ آنے دے۔ آخر میں نئے جذبات یا نئے پھندے کو لے کر آنے والے پرانے شکاریوں سے یہی کہا جا سکتا ہے کہ ....
اِن اندھیروں سے کہو کہیں اور ٹھکانہ کر لیں
ہم نئے عزم سے آغازِ سفر کرتے ہیں

مزیدخبریں