دو روز پیشتر پریس کلب فیصل آباد کے صدر نصیر احمد چیمہ اور پریس کلب سمندری کے صدر مہر لیاقت نے راقم کو فیصل آباد اور سمندری میں مدعو کیا۔راقم نے فیصل آباد اور سمندری کے پریس کلبوں میں صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ خوش آئند امر ہے کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا ہے کہ الیکشن 11 مئی کو ہی ہوں گے۔ لیکن کچھ غیر ملکی اس وقت پوری کوشش کر رہے ہیں کہ افغانستان سے انخلاءسے قبل پاکستان میں الیکشن نہ ہوں، دہشت گردی کی لہر اسی سلسلے کی کڑی ہے جبکہ پاکستان اتھارٹیز کو یقین ہے کہ اس وقت الیکشن کا انعقاد پاکستان کیلئے انتہائی فائدہ مند ہے اور اگر الیکشن ملتوی کئے گئے تو اس کے پاکستان پر بہت منفی اثرات پڑیں گے۔جو قوتیں الیکشن ملتوی کرانے کی کوششیں کررہی ہیں ہمارے حکمرانوں کو ناکام بنانے کیلئے حتی المقدور کوششیںکرنا ہوں گی۔
پاکستان کے مختلف علاقوں میں ہونے والی دہشت گردی انتخابات کے التواءکیلئے اندرونی و بیرونی دشمنوں کی کارروائی معلوم ہوتی ہے۔ اگر انتخابات کا انعقاد پر امن نہ ہوسکا تو ملک میں انارکی پھیلنے کا اندیشہ ہے جو ملکی سلامتی کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ دہشت گردی کے حالیہ واقعات کی وجہ سے عوام کے اندر انتخابات کے التواءکے خدشات بڑھ رہے ہیں نگران وزیراعظم فوری طور پر آل پارٹیز کانفرنس بلائیں جس میں سکیورٹی اداروں اور فوج کے سربراہ سمیت الیکشن کمیشن کے سربراہ بھی شریک ہوں اور قوم کو یقین دلائیں کہ کسی بھی صورت الیکشن ملتوی نہیں ہوں گے اور ایک دو نام نہاد سیاسی جماعتوں کے واویلا مچانے سے ملک کو انتشار اور انارکی کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔ ہمیشہ برسراقتدار رہنے والے لوگوں نے ملک کیلئے کچھ نہیں کیا۔ غلط پالیسیاں فیصلے اور لوٹ کھسوٹ نے ملک کو تباہی کے کنارے پر کھڑا کردیا۔
وقت آگیا ہے کہ ووٹ کی طاقت کے ذریعے باکردار نیک نیت اور قوم کا درد رکھنے والے امیدواروں کو کامیاب کرایا جائے۔ اب صحافیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ چوروں لٹیروں خصوصاً سیاستدانوں کی کرپشن کو بے نقاب کریں تاکہ کرپٹ لوگ دوبارہ نہ آسکیں‘ اس سلسلے میں عوام کو شعور دینا ہوگا کہ وہ اپنا ووٹ کا صحیح استعمال کریں الیکشن میں اپنی آواز اٹھائیں کہ کرپٹ لوگ جنہوں نے 5 سال تک ملک کو لوٹا ان کو ووٹ نہ دیں اچھے لوگوں کو ووٹ دیں تاکہ ملک خوشحال ہوسکے۔ اس وقت صالح اور جرات مند قیادت کی اہم ضرورت ہے صاف ستھری قیادت ہی ملک کو بحرانوں سے نکال سکتی ہے تبدیلی کے نعرے لگانے والے نیا جال لیکر آگئے ہیں عوام کو ان نئے شکاریوں سے بچنا چاہیئے۔
یہ درست ہے کہ انتخابات کا پر امن انعقاد اور امیدواروں کو تحفظ دینا فوج کی نہیں بلکہ انتظامیہ اور پولیس کی معاونت کرنے والے سکیورٹی دستوں کی ذمہ داری ہے۔ لیکن اس وقت ملکی صورت حال کے تقاضے کچھ ایسے گنجلک صورت اختیار کر چکے ہیں کہ فوج کو کہیں براہ راست اور کہیں بالواسطہ سول انتظامیہ کی طرح کی ذمہ داریاں انجام دینا پڑگئی ہیں۔ بہرحال اصولی طور پر یہ ذمہ داری انتظامیہ اور پولیس پر عائد ہوتی ہے کہ وہ امیدواروں اور سیاسی سرگرمیوں کو تحفظ کی فراہمی یقینی بنائیں۔ اس سلسلے میں پولیس اور انتظامیہ پر اعتماد یا پھر ان کو درپیش مشکلات کے پیش نظر سیاسی جماعتوں کے امیدواروں اور آزاد انتخابات لڑنے والے امیدواروں نے بساط بھر سکیورٹی کا خود بھی انتظام کرنے کی سعی کی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو مقتدر سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ خاص طور پر ایم کیو ایم‘ اے این پی اور کسی حد تک پی پی پی کے امیدواروں کو خطرات درپیش ہیں۔ اگر پی پی پی حالیہ حکمران جماعت نہ ہوتی تو اسے بھی شاید دوسری عام سیاسی جماعتوں کی طرح نسبتاً کم خطرات لاحق ہوتے۔ بہرحال اس وقت ایم کیو ایم اور اے این پی ہی دو سیاسی جماعتیں دکھائی دیتی ہیں ان کا امیدواروں کو بطور خاص خطرات لاحق ہیں اور اب تک کے حالات سے بھی اس امر کا عندیہ ملتا ہے کہ پی پی پی، اے این پی اور ایم کیو ایم کے امیدوار حالات کے تناظر میں شاید آزادانہ اور سیاسی سرگرمیاں نہ کرسکیں۔ انتخابی سرگرمیاں اب آخری مراحل میں داخل ہوگئی ہیں اس لئے انہیں سبوتاژ کرنے کی خواہشمند غیر جمہوری قوتیں پوری تیاری کے ساتھ سرگرم ہوگئی ہیں۔
یہ نگران حکومت الیکشن کمیشن اور قانون نافذ کرنے والے قومی اداروں کی آزمائش کا وقت ہے۔ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے کہ محفوظ پاکستان کیلئے محفوظ انتخابات ناگزیر ہیں اس لئے عام شہریوں سمیت تمام ذمہ دار لوگ اپنی اپنی جگہوں پر مستعد اور ہوشیار رہیں۔ نگران وزیراعظم ‘ نگران وزرائے اعلیٰ اور ان کی انتظامیہ کو الیکشن کو پر امن بنانے کیلئے ہر ممکن کوشش کرنا ہوگی اور امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانے کیلئے بھرپور توجہ دینا ہو گی۔