اسلام آباد (وقائع نگار + آئی این پی + آن لائن) سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو قتل کیس میں ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر چودھری ذوالفقار کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا، فائر نگ میں ان کا گارڈ زخمی ہو گیا، گاڑی کی زد میں آکر ایک خاتون بھی جاںبحق ہو گئی۔ واقعے کے بعد بے نظیر قتل کیس کی کارروائی ملتوی کر دی گئی، نگران وفاقی وزیر داخلہ ملک حبیب خان نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی اسلام آباد کو رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیدیا ہے، ابتدائی پوسٹمارٹم رپورٹ کے مطابق چودھری ذوالفقار کو 12 گولیاں لگیں۔ ان کے جسم پر زخموں کے 17 نشانات تھے، ان کی موت جبڑے پر لگنے والی دو گولیوں کے باعث ہوئی، یہ گولیاں جبڑے کو چیرتی ہوئی کنپٹی اور دماغ سے باہر نکلیں۔ وفاقی دارالحکومت کے سیکٹر جی نائن میں بے نظیر قتل کیس میں ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر چودھری ذوالفقار بےنظیر قتل کیس میں انسداد دہشت گردی عدالت جانے کے لئے اپنی رہائش گاہ سے باہر نکل رہے تھے کہ ان پر نامعلوم افراد نے فائرنگ کر دی جس کی وجہ سے وہ شدید زخمی ہو گئے۔ انہیں پمز ہسپتال لے جایا گیا لیکن وہ راستے میں ہی دم توڑ گئے۔ چودھری ذوالفقار کا گارڈ بھی زخمی ہوا۔ ڈاکٹروں کے مطابق گارڈ کی حالت خطرے سے باہر ہے اور وہ ہوش میں ہے۔ دوسری جانب چودھری ذوالفقار کے قتل کے باعث بینظیر قتل کیس کی کارروائی 14 مئی تک ملتوی کر دی گئی، ہائیکورٹ اور ڈسٹرکٹ کورٹ راولپنڈی میں مکمل ہڑتال کی گئی۔ پولیس کے مطابق چودھری ذوالفقار کو متعدد بار قتل کی دھمکیاں مل چکی تھیں۔ چودھری ذوالفقار علی کے گارڈ کے مطابق حملہ آور پیدل تھے اور ان کا ٹارگٹ صرف چودھری ذوالفقار ہی تھے۔ چودھری ذوالفقار خود ہی گاڑی چلا رہے تھے۔ انہیں ٹارگٹ کیا گیا۔جی نائن سے جی پی او چوک پہنچے تو دو پیدل افراد نے فائرنگ کر دی۔ فائرنگ سے زخمی ہونے کی وجہ سے میں حملہ آوروں پر جوابی فائرنگ نہ کر سکا۔ دونوں ملزم فائرنگ کے بعد وہاں سے فرار ہو گئے۔ ڈاکٹروں کے مطابق چودھری ذوالفقار کے جسم پر 12 سے زائد گولیاں لگیں، ہسپتال لانے سے قبل راستے میں ہی ان کا انتقال ہو چکا تھا۔ چودھری ذوالفقار کے دونوں پھیپھڑے متاثر ہوئے، جب کہ دل محفوظ رہا، بائیں کہنی بھی فریکچر ہوئی۔ ان کے سینے سے ایک گولی نکالی گئی۔ رپورٹ کے مطابق چودھری ذوالفقار کو دس فٹ کے فاصلے سے گولیاں ماری گئیں۔ گاڑی کی ٹکر سے جاںبحق ہونے والی نامعلوم خاتون کا پوسٹ مارٹم بھی مکمل کر لیا گیا۔ خاتون کی بائیں ٹانگ اور دایاں بازو کچلا گیا اور سر پر شدید چوٹیں آئیں جو موت کا باعث بنیں۔ واضح رہے کہ چودھری ذوالفقار نے پرویز مشرف کی تفتیش شروع کرنے کے بعد متعدد بار اپنے آپ کو لاحق خطرات سے حکام کو آگاہ کیا تھا۔ وزارت د اخلہ کی جانب سے چودھری ذوالفقار علی کو تین سکیورٹی اہلکار فراہم کرنے کی بھی ہدایت کی گئی تھی تاہم انہیں یہ سکیورٹی میسر نہیں آ سکی تھی۔ ذرائع کے مطابق چودھری ذوالفقار علی نے ان خطرات کے باعث اپنے گھر میں باقاعدہ سکیورٹی کے انتظامات بھی کئے تھے تاہم انہیں گھر سے عدالت جاتے ہوئے ٹارگٹ کیا گیا۔ پولیس تھانہ مارگلہ نے ابتدائی رپورٹ میں نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔ چودھری ذوالفقار انسداد دہشت گردی عدالت میں بےنظیر بھٹو قتل کیس میں پرویز مشرف کی درخواست ضمانت کی سماعت کیلئے جا رہے تھے۔ انہوں نے تفتیشی چالان پیش کرنا تھا۔ واقعہ پر اسلام آباد اور راولپنڈی کے وکلا نے عدالتوں کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔ جونہی ان کی گاڑی جی نائن سے جی پی او چوک کے قریب پہنچی تو نامعلوم مسلح افراد نے گاڑی پر شدید فائرنگ کر دی جس سے گاڑی کے شیشے ٹوٹ گئے اور چودھری ذوالفقار اور ان کا گارڈ شدید زخمی ہو گئے۔ چودھری ذوالفقار بعدازاں ہسپتال لے جاتے ہوئے راستے میں ہی دم توڑ گئے۔ مارگلہ تھانہ پولیس کے مطابق مقتول چودھری ذوالفقار علی جونہی اپنے گھر سے نکلے تو چار نامعلوم مسلح افراد نے جو کہ پہلے سے ہی گھات لگائے بیٹھے تھے، ا±ن پر اندھا دھند فائرنگ کر دی۔ ذرائع کے مطابق حملہ آور ٹیکسی پر سوار ہو کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ سرکاری وکیل کے ڈرائیور نے گاڑی بھگانے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں ایک راہگیر خاتون گاڑی کے نیچے آکر جاںبحق ہو گئی۔ دوسری طرف عینی شاہدین کے مطابق ملزم موٹر سائیکلوں پر نہیں بلکہ ایک ٹیکسی میں سوار تھے اور فائرنگ کے بعد وہ اس ٹیکسی میں فرار ہو گئے تھے۔ عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ فائرنگ کے نتیجے میں زخمی ہونے والے افراد کافی دیر تک وہاں پڑے رہے۔ پولیس ایک گھنٹے کی تاخیر سے پہنچی اور زخمیوں کو ہسپتال لے جایا گیا۔ پولیس نے تمام علاقوں کی ناکہ بندی کر کے ملزموں کی تلاش شروع کر دی تاہم ابھی تک اس ضمن میں کوئی کامیابی نہیں ملی۔ پمز ہسپتال کے ڈاکٹروں کے مطابق چودھری ذوالفقار کو جب ہسپتال میں لایا گیا تو وہ دم توڑ چکے تھے اور ان کے سینے اور کندھے میں 12 سے 13 گولیاں لگی تھیں۔ ادھر راولپنڈی‘ اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن سمیت ملک بھر کی بار ایسوسی ایشنز نے پراسیکیوٹر جنرل چودھری ذوالفقار پر حملے کیخلاف تمام عدالتی سرگرمیوں کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ چودھری ذوالفقار پر حملہ کرنے والوں کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے۔ چودھری ذوالفقار پر حملے کے بعد کراچی کمپنی کے تاجروں نے خوف و ہراس کے باعث دکانیں بند کر دیں اور علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ صدر آصف زرداری نے چودھری ذوالفقار پر ہونیوالے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ قتل کے معاملے تک پہنچنے کیلئے تمام تر تحقیقات اور قاتلوں کا سراغ لگانے کیلئے ہرممکن اقدامات کئے جائیں۔ ملزموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لئے فوری کارروائی کی جائے۔ وزیر داخلہ ملک حبیب خان نے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے آئی جی اسلام آباد سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔ آل پاکستان مسلم لیگ ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر چودھری ذوالفقار علی کے قتل کی بھرپور مذمت کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس واقعہ میں ملوث افراد کو گرفتار کر کے بے نقاب کیا جائے اور انہیں قانون کے مطابق سخت ترین سزا دی جائے۔ ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر چودھری ذوالفقار کے زخمی محافظ فرمان علی کو ایف سی نے اپنی تحویل میں لے لیا۔ فرمان علی ایف سی کا ملازم اور چودھری ذوالفقار کی سکیورٹی پر مامور تھا۔ چودھری ذوالفقار کے قتل کی تحقیقات کیلئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دیدی گئی۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل کا حکم وزیر داخلہ ملک حبیب خان نے دیا تھا۔ ٹیم میں ایس پی صدر جمیل ہاشمی، ایس پی انوسٹی گیشن کیپٹن (ر) مستنصر فیروز، سی آئی ڈی اور ایف آئی اے افسر شامل ہیں۔ چودھری ذوالفقار قتل کیس کی ابتدائی رپورٹ وزیر داخلہ کو پیش کر دی گئی ہے۔ چودھری ذوالفقار قتل پر سندھ ہائیکورٹ بار نے 6 مئی کو عدالتی بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ راولپنڈی ڈویژن کے وکلا نے ہڑتال کی ہے۔ چودھری ذوالفقار نے پسماندگان میں دو بیٹے اور بیوہ سوگوار چھوڑے ہیں۔ مقتول چودھری ذوالفقار جہلم کے رہائشی تھے تاہم اپنی پیشہ وارانہ مصروفیات کے باعث انہوں نے اپنی رہائش جی نائن اسلام آباد میں اختیار کر رکھی تھی۔ انہوں نے بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر لیگل ایف آئی اے اور بطور ڈپٹی ڈائریکٹر (ایڈمن) ہیڈ کوارٹر اسلام آباد میں ذمہ داریاں نبھائیں۔ اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل ہی انہوں نے ملازمت کو خیرباد کہا اور وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔ وہ پرویز مشرف کے خلاف ساتواں چالان عدالت میں پیش کرنا چاہتے تھے۔ پمز ہسپتال کے ترجمان ڈاکٹر وسیم خواجہ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ابتدائی رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ چودھری ذوالفقار کو 12 گولیاں ماری گئی ہیں جس سے ان کی موت واقع ہو گئی۔ ترجمان پمز ہسپتال نے بتایا کہ چودھری ذوالفقار کے گارڈ فرمان علی کو بھی ایک گولی لگی ہے۔
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ بار کی سابقہ صدر عاصمہ جہانگیر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ چودھری ذوالفقار اور بےنظیر کے قتل میں چند بڑے اور با اثر لوگ ملوث ہیں۔ بار کونسل نے قتل کا نوٹس لیا ہے، ملزموں کے خلاف قانون کے تحت کارروائی ہونی چاہئے۔ وکلا کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ معاملہ میں ایجنسیاں ملوث نہیں تو قتل کی تحقیقات کے بعد قاتل بے نقاب ہونے چاہئیں۔ آئے روز کسی نہ کسی وکیل کو قتل کر دیا جاتا ہے جو انتہائی افسوس کی بات ہے، ایڈووکیٹ ذوالفقار کے قتل میں بعض ”اہم افراد“ ملوث ہو سکتے ہیں کیونکہ مرنے والے بی بی کے قتل اور مشرف سے متعلق شواہد عدالت میں پیش کرنا چاہتے تھے مگر موت نے انہیں مہلت نہیں دی ان کی وفات پر تمام وکلا برادری سوگوار ہے۔ پاکستان بار کونسل کی جانب سے چودھری ذوالفقار اور دیگر وکلا کی ٹارگٹ کلنگ اور وکلا کو ملنے والی دھمکیوں کی شدید مذمت کی ہے۔ بار کونسل کے وائس چیئرمین قلب حسن نے کہا کہ حکومت قاتلوں کو جلد گرفتار کرے، وکلا کی ٹارگٹ کلنگ اور اغوا کے واقعات کو روکا جائے، وکلا کی سکیورٹی اور تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ وکلا نے ہمیشہ ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی اور بالادستی کے لئے اپنی ذمہ داریاں پوری کی ہیں، اگر قاتلوں کو جلد گرفتار نہ کیا گیا تو وکلا ملک بھر میں ہڑتال اور احتجاجی سلسلہ شروع کریں گے۔ آئی این پی کے مطابق عاصمہ جہانگیر نے کہا ہے کہ چودھری ذوالفقار کا قتل انجانے میں نہیں بلکہ بڑی منصوبہ بندی کے بعد کیا گیا ہے ، حکومت ان کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ وکلا کو خاص طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پر اسیکیوٹر ذوالفقار کا قتل انتہائی افسوسناک ہے جس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ چودھری ذوالفقار نے بدھ کو بیان دیا تھا کہ بے نظیر بھٹو قتل کیس میں بڑے بڑے نام ملوث ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ روز دن 12 سے ایک بجے کے دوران سپریم کورٹ بارروم میں نامعلوم افراد فون کر کے ان کے گھر کا پتہ پوچھتے رہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ چودھری ذوالفقار کے قاتلوں کو بے نقاب کیا جائے اور پتہ چلایا جائے کہ اس قتل کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔لاہور سے وقائع نگار خصوصی کے مطابق پنجاب بار کونسل نے چودھری ذوالفقار کے قتل کے خلاف آج صوبے میں مکمل ہڑتال کا اعلان کر دیا ہے، بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین طاہر نصراللہ وڑائچ کے مطابق وکلا آج عدالتوں میں پیش نہیں ہوں گے۔ عدالتی امور کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے گا۔ حکومت وکلا برادری کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ قاتلوں کو فوری گرفتار کیا جائے۔