خالد لودھی لندن میں نوائے وقت کے بیورو چیف ہیں۔ کبھی کبھی وہ بہت پتے کی بات کرتے ہیں۔ وہ خود بھی پاکستان میں سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ متعلق رہے ہیں۔ سینئر صحافی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ خود ساختہ جلاوطنی کو قانوناً ممنوع قرار دے دینا چاہئے۔ یہ بیماری صرف ہمارے سیاستدانوں وغیرہ میں ہے۔ دوسرے ملکوں کے کم کم لوگ ایسا کرتے ہیں۔ پاکستان سے امیر کبیر لوگ بھی ملک سے باہر چلے جاتے ہیں۔ اب وہ پکنک منانے اپنے ملک میں کہیں نہیں جاتے جبکہ پاکستان میں دنیا کے خوبصورت ترین مقامات ہیں۔ یہاں ان علاقوں کو جو سیاحت کے حوالے سے بہت مفید اور مزیدار جگہیں بن سکتی ہیں مگر یہاں کوئی سہولت نہیں ہے۔ بنیادی ضرورتیں بھی پوری نہیں بلکہ ہیں ہی نہیں۔ بلند و بالا پہاڑ درخت۔ درختوں پر پرندے سبزہ زار اور جنگل۔ جنگل میں منگل تفریح پر نکلے ہوئے لوگ اپنے طور پر پکنک منانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اکثر منگل کی بجائے بدھ بن جاتی ہے۔ بہت جھیلیں ہیں جہاں جھیل سی آنکھوں والے پرندے اور لڑکیاں بھی ہوتی ہیں۔ مگر رستے اتنے دشوار گزار ہیں کہ منزل پر پہنچنے کی بجائے موت کی منزل زیادہ قریب دکھائی دیتی ہے۔ مری وغیرہ اب اپنی کشش کھو بیٹھے ہیں وہاں عام لوگوں نے بھی جانا شروع کر دیا ہے۔ تو اب خاص لوگ بیچارے بہت بیزار ہیں۔ اب وہ بیرون ملک تفریح کرنے اور پکنک منانے چلے جاتے ہیں۔ وہاں لوگ ہفتہ اتوار کو پکنک کرتے ہیں۔ پاکستانی ہر روز پکنک منانے کا مشغلہ جاری و ساری رکھتے ہیں۔
جلاوطنی بھی سیر و تفریح عیش عشرت یعنی عیاشی وغیرہ کے کام آتی ہے۔ ایک ٹکٹ میں دو دو مزے بلکہ سو سو مزے۔ پنجابی میں زیادہ مزا ہے۔ ”چپڑیاں تے نالے دو دو“ بیرون ملک بھی پروٹوکول اور سکیورٹی کے بغیر مزا نہیں آتا۔ سرکاری ہو تو مزا ہی کچھ اور ہے۔ یہاں کے خرچے پاکستان واپس جا کے نکال لئے جاتے ہیں۔ لندن میں جنرل مشرف الطاف حسین رحمن ملک کے لئے تو مستقل انتظام ہے۔ بینظیر بھٹو، بلاول بھٹو اور اس کی بہنوں بلکہ اس کی سہیلیوں کے لئے بھی ”پاکستانی“ انتظام ہوتا ہے۔ جب صدر زرداری اور پیپلز پارٹی کی حکومت ہوتی ہے تو کوئی مشکل نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ بھی آسانیاں ہی آسانیاں ہیں۔
لندن تو ان لوگوں کا دوسرا گھر ہے۔ دبئی بھی دوسرا ہی گھر ہے۔ پہلے لندن میں پاکستان کے لئے سیاسی سرگرمیاں اور فیصلے ہوتے تھے، دبئی میں بھی ہوتے ہیں۔ عشرت العباد اور بلاول خفا ہو کے دبئی گئے تھے۔ واپس آ گئے۔ بینظیر بھٹو اور جنرل مشرف دبئی سے پاکستان پہنچے تھے۔ لندن میں اور دبئی میں سیاستدانوں اور امیر کبیر لوگوں کے اپنے گھر ہیں۔ یہاں جلاوطنی سے کیا مراد ہے؟ اپنے گھر میں جلاوطنی؟ اپنے گھر میں جیل بنائی جاتی ہے تو وہ بھی ایسی ہی ہوتی ہو گی۔ جنرل مشرف عیش میں ہیں۔ جیسے لندن میں ہوں دبئی میں ہوں ہر جگہ ان کے اپنے گھر ہیں۔ پاکستان میں وہ جلاوطنی کے لئے خرچہ بنانے آتے ہیں۔ لوٹ مار کرپشن سیاست و حکومت (دونوں میں کوئی فرق نہیں) جیسی سیاست اور حکومت پاکستان میں ہے۔ دنیا میں کہیں نہیں ہے۔ مسلمان ملکوں میں بھی ہے۔ بینظیر بھٹو کو کس نے جلاوطن کیا۔ نواز شریف بھی خود گئے۔ بھٹو صاحب بھی جلاوطن ہوتے تو وہ بھی کسی دن دوبارہ حکومت میں آ جاتے۔ وہ پھانسی چڑھ گئے مگر بزدلی نہ دکھائی۔ سقراط کو بھی موت کی کوٹھڑی سے جلاوطن کرانے کی کوشش کی گئی مگر اس نے انکار کر دیا۔ اس طرح میرے سچ کو جھوٹ سمجھ لیا جائے گا۔ پاکستان میں کروڑوں لوگ تنگ ہیں۔ بہت تنگ ہیں وہ باہر جا سکتے ہوتے تو چلے نہ جاتے۔ یہ جو اپنی فیملی کی بھوک مٹانے، اپنی بہنوں کی شادیاں کرنے، اپنی بے روزگاری اور غربت سے لاچار ہو کر مزدوریاں کرنے بیرون ملک چلے آتے ہیں اور بہت قابل رحم زندگی گزارتے ہیں وہ بھی تو جلاوطن ہیں۔ سیاستدان تو عیش کرتے ہیں۔ ہم وطنی میں بھی اور جلاوطنی میں بھی۔ جس طرح ان کی جلاوطنی جعلی اور مصنوعی ہوتی ہے ان کی ہم وطنی بھی جعلی اور مصنوعی ہوتی ہے۔ وہ آتے جاتے رہتے ہیں۔ اپنے زکام کا علاج بھی لندن سے کراتے ہیں۔
کچھ کام جو وطن میں نہیں ہو سکے۔ جلاوطن ہو کر کئے جاتے ہیں۔ پاکستان کے لئے بڑے سیاسی فیصلے باہر ہوئے۔ پاکستان واپس آ کے ان فیصلوں کی کمائی کھاتے ہیں۔ یہ تو بتایا جائے کہ انہیں پاکستان میں کون چلاتا ہے۔ ماضی قریب میں نواز شریف نے اے پی سی لندن میں بلائی۔ پاکستان سے سیاستدان لندن آئے۔ بینظیر بھٹو کے ساتھ مل کر میثاق جمہوریت کیا جو پاکستان میں مذاق بن گیا۔ اب بھی جن سیاستدانوں کو اچھے حالات پاکستان میں نہ ملے وہ جلاوطن ہو جائیں گے۔ اس وقت بھی کئی لوگ خود ساختہ جلاوطنی میں ہیں۔ الطاف حسین، شوکت عزیز وغیرہ وغیرہ۔ جنرل مشرف خود ساختہ جلاوطنی میں عیش و عشرت کر رہے تھے اور ساتھ ساتھ سیاست بھی کر رہے تھے۔ انہیں کس نے مشورہ دیا کہ ہم وطنی کے دوزخ میں آ جاﺅ، وہ آ گئے۔ اب ہم وطنی کا مزا چکھ رہے ہیں۔ اب وہ پھر جلاوطنی کے لئے بے قرار ہیں اور وہ جلاوطن ہو بھی جائیں گے۔ نجانے کیا فرق ہے جلاوطن ہونے میں اور جلاوطن کرنے میں؟
برادرم خالد لودھی کی اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ خود ساختہ جلاوطنی قانون ممنوع ہونا چاہئے۔ ایک سال تک اس طرح کی جلاوطنی میں جانے والوں کے لئے وطن میں آنے پر پابندی لگا دی جائے نہ وہ پاکستان آ سکیں گے اور نہ پاکستانی سیاست کے وارث بنیں گے۔ نہ یہاں موروثی سیاست کریں گے۔ لوگ اپنے ملک میں لاوارث ہو گئے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ آبروئے صحافت بہادر اور مجاہد قلمکار مجید نظامی نے آصف زرداری کو ”مرد حر“ کا خطاب دیا تھا۔ وہ حریت پسندی تو برقرار نہ رکھ سکے اور قیدی سے قائد بن گئے۔ نواز شریف نے نظامی صاحب سے گلہ کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ وطن میں رہ کر مقابلہ کرتے تو آپ کو بھی ایسا ہی کوئی خطاب دیتا۔ خود ساختہ جلاوطنی بزدلانہ سیاست ہے۔ ”اپنے لوگوں“ کو بیچ منجدھار کے چھوڑ کے چلے جاتے ہو اور عیش کرتے ہو۔ سیاست بھی کرتے ہو؟