وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ کھینچاتانی کی موجودہ صورتحال اور غیرسنجیدگی کے ماحول میں طالبان سے مذاکرات کا عمل آگے نہیں بڑھ سکتا۔ حکومتی اقدامات کے باعث دہشت گردی کم ہو گئی ہے۔ پہلے دس، دس دھماکے ہوتے تھے، اب ایک بھی نہیں ہوتا۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چودھری نثار نے کہا کہ جو بھی اٹھتا ہے یہی کہتا ہے کہ حکومت مذاکرات میں سنجیدہ نہیں، حقیقت یہ ہے کہ حکومت کی سنجیدگی کے باعث ہی معاملات یہاں تک پہنچے ہیں۔ طالبان کمیٹی کے بعض ارکان نے طے پانیوالے امور کے برعکس سر بازار تماشہ لگا دیا۔وزیراعظم سے کہوں گا کہ اس سارے تماشے کے ماحول اور کھینچاتانی کے عمل میں مذاکراتی عمل آگے نہیں بڑھایا جاسکتا۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں نہ پہلے ڈیڈلاک تھا نہ آج ہے۔قیام امن کا واحد راستہ مذاکرات ہی ہیں۔ مذاکراتی عمل میں حکومت اور افواج پاکستان کی جانب سے نہ پہلے کوئی رکاوٹ تھی نہ آج ہے ۔ فوج اور حکومت میں تناؤ نہیں۔حکومت اور فوج کی طرف سے مذاکرات کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں۔
طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے تمام سیاسی پارٹیاں‘ مذہبی تنظیمیں‘ فوج اور سول سوسائٹی کبھی ایک پیج پر نہیں رہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے دہشت گردی کے خاتمے کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا‘ بلاشبہ قیام امن کیلئے دہشت گردی کا خاتمہ ناگزیر ہے۔ حکومت نے اپنی دانست میں دہشت گردی کے خاتمے کیلئے مذاکرات کو بہتر سمجھا اور یہی آپشن اختیار کیا گیا۔ اس سے قبل مشرف کے زیر سایہ مسلم لیگ (ق) اور اسکے بعد پیپلزپارٹی کی جمہوری حکومتیں طالبان کو آئین سے بغاوت کا مرتکب قرار دے کر انکے ساتھ مذاکرات کیلئے تیار نہیں تھیں۔ میاں نوازشریف متعدد بار خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر دہشت گردی کے خاتمے کی خواہش کا اظہار کر چکے ہیں۔ طالبان مذاکرات پر کبھی آمادہ ہوتے‘ کبھی انکار کر دیتے۔ ایسا بھی ہوا مذاکرات کی پیشکش کرکے واپس لے لی گئی۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے مذاکرات کی سنجیدگی سے پیشکش اور کوشش کی تو اس کو خودکش دھماکوں کے ذریعے سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی۔ جنرل کیانی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت اس پر بھی امن کو ایک اور موقع دینے کی بات کرتے رہے۔ جنرل کیانی کی ریٹائرمنٹ پر جنرل راحیل شریف آرمی چیف بنے تو فوج کی طرف سے طالبان کی کارروائیوں پر اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جانے لگا۔ دس اہلکاروں کی شہادت کے جواب میں تیس تیس شدت پسندوں کو نشانہ بنایا گیا اور وسیع پیمانے پر انکے ٹھکانے تباہ کر دیئے گئے تو شدت پسندوں کی کمر ٹوٹ گئی۔ ان کو مزید کمزور آپس کی لڑائی نے کیا۔ اب وہ اپنی بقاء حکومت کے ساتھ مذاکرات میں سمجھتے ہیں۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ شدت پسند دوبارہ صف بندی کیلئے مذاکرات کو وقت حاصل کرنے کے حربے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو وہ اپنی منصوبہ بندی میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔ اس کا ادراک فوج اور اسکی ایجنسیوں کو بھی ہو سکتا ہے‘ شاید اسی لئے فوج ایسے لوگوں سے مذاکرات پر تیار نہیں جن کے ہاتھ پانچ ہزار سپاہ کے خون سے رنگے ہیں‘ تاہم فوج نے حکومت کی عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کی خواہش میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ اس کا اعتراف وزیراعظم‘ وزیر داخلہ اور کئی دیگر وزراء بھی اپنے بیانات میں کر چکے ہیں۔ اسکے باوجود بھی آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا یوم شہداء پر خطاب میں یہ کہنا قابل غور ہے کہ باغی آئین کی اطاعت کریں ورنہ ریاست کے نمٹنے میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔ حکومت جن لوگوں کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے‘ فوج ان کو آئین کے دائرے میں آنے کی تنبیہ کر رہی ہے‘ اس سے مذاکرات کے حوالے سے حکومت اور فوج کے ایک پیج پر ہونے کا تاثر مبہم ہو جاتا ہے۔ شدت پسندوں کے ساتھ کس طرح نمٹنا ہے‘ اس کیلئے کم از کم پاک فوج اور سیاسی قیادت کا کسی بھی لائحہ عمل پر متفق ہونا ضروری ہے۔
بقول وزیر داخلہ حکومتی اقدام سے دہشت گردی کی کارروائیوں میں کمی آئی‘ البتہ یہ کہنا مبالغہ آرائی ہے کہ پہلے دس دس دھماکے ہوتے تھے‘ اب ایک بھی نہیں ہوتا۔ شدت پسندوں کی کارروائیاں مکمل طور پر تو انکی طرف سے جنگ بندی کے دوران بھی نہیں رکی تھیں اور اب بھی جاری ہیں‘ آئے روز سکیورٹی اہلکاروں کو بارودی سرنگوں کے ذریعے نشانہ بنایا جاتا ہے تاہم دھماکوں میں پہلے جیسی شدت اور سنگینی نہیں ہے جبکہ ڈرون حملے پانچ ماہ سے مکمل طور پر بند ہیں جن سے محفوظ رہنے کا شدت پسندوں کے پاس کوئی طریقہ نہیں ہے۔
مذاکرات کیلئے حکومتی اور طالبان کمیٹیوں کے اعلان کے ساتھ ہی دونوں کمیٹیوں کے ارکان اپنے اصل مقصد کے بجائے خودنمائی کیلئے میڈیا پر جلوہ افروز ہونے لگے۔ حکومت نے اپنی کمیٹی بدلی اور وزیر داخلہ کو فوکل پرسن مقرر کردیا تو حکومتی کمیٹی کے دیگر ارکان‘ اگر انکے ذمے کوئی کام ہے تو خاموشی سے کر رہے ہیں۔ مذاکرات کے حوالے سے پیشرفت سے میڈیا کو چودھری نثار بریف کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف طالبان کمیٹی کا ہر رکن فوکل پرسن بنا ہوا ہے‘ وہ جن کی نمائندگی کرتے ہیں‘ ان سے رابطہ کبھی کبھار ہوتا ہے لیکن یہ میڈیا میں بیان دینے کو اپنا فرض سمجھتے ہیں‘ خواہ اس کا کوئی مقصد ہو نہ ہو۔ انکی تان عموماً اس بیان پر ٹوٹتی ہے کہ طالبان قیدیوں کو رہا کیا جائے۔ حکومت مذاکرات کیلئے سنجیدگی کا مظاہرہ کرے‘ ایسی بیان بازی کو وزیر داخلہ چودھری نثار تماشا قرار دیتے ہیں۔ بلاشبہ تماشے کے ماحول میں مذاکراتی عمل آگے نہیں بڑھ سکتا۔
وزیر داخلہ اب بھی مُصر ہیں کہ قیام امن کا واحد راستہ مذاکرات ہی ہیں‘ اگر دوسرا فریق ایسا نہیں سمجھتا تو حل کیا ہے؟ اگر مذاکرات ہی قیام امن کیلئے ناگزیر ہیں تو فریقین کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ مذاکرات کیلئے ان کا ڈھنڈورا پیٹنا ضروری نہیں۔ جس طرح کا تماشا طالبان کمیٹی لگاتی ہے‘ ویسا ہی حکومتی سطح پر بھی لگایا جاتا ہے۔ چودھری نثار کو کھینچا تانی کے ماحول میں مذاکرات کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے اور وہ وزیراعظم کو اس سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں تو میڈیا میں مشتعل ہونے کی کیا ضرورت تھی؟ طالبان کمیٹی نے حکومت اور طالبان کو ایک میز پر بٹھا دیا‘ اسکے بعد کمیٹی کا کردار ختم ہو گیا۔ حکومتی کمیٹی براہ راست طالبان کے ساتھ رابطے میں رہے‘ اگر وہ سنجیدہ نہیں جیسا کہ انکے رویے سے بھی اظہار ہوتا ہے تو پھر مذاکرات کی افادیت ختم ہو جاتی ہے۔ مذاکرات کے مقام پر اتفاق نہ ہونے پر بھی مذاکرات تاخیر کا شکار ہیں۔ فریقین اسی مقام پر مذاکرات کرلیں‘ جہاں ایک نشست ہو چکی ہے۔ اصل بات مذاکرات کیلئے مقام پر اتفاق کی نہیں‘ نیت کی ہے۔ اگر نیتیں درست ہوتیں تو آٹھ نو ماہ میں صرف ایک ہی رسمی نشست نہ ہوتی‘ اب تک مذاکرات تکمیل تک پہنچ چکے ہوتے۔
مذاکرات کو مسئلہ کشمیر کے حل جتنا وقت نہیں دیا جا سکتا‘ شدت پسندوں سے پوچھا جائے کہ اب انکی آئین کے بارے میں کیا رائے ہے۔ اگر وہ آئین کو تسلیم کرتے ہیں تو طویل مذاکرات کی ضرورت نہیں رہے گی‘ ان کو آئین کے مطابق ہر پاکستانی کی طرح حقوق حاصل ہیں اور بطور پاکستان ان پر کچھ ذمہ داریاں بھی ہیں‘ وہ ان کو پوری کرنا ہو گی۔ آئین کسی شہری کو اپنی فوج تو کیا‘ عام پاکستانی پر بھی ہتھیار اٹھانے کی اجازت نہیں دیتا۔ اگر وہ اب بھی آئین کو تسلیم نہیں کرتے تو اپریشن کے سوا کوئی حل نہیں ہے۔ حکمران کھینچا تانی کے ماحول اور گومگو کی حالت سے نکل کر آئین اور ریاست کے باغیوں کیخلاف بھرپور کارروائی کے آپشن کو عمل میں لائے۔ اب اسکے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ مزید تاخیر سے بہنے والا خون فیصلے میں تساہل برتنے والوں کے سر ہو گا۔
شدت پسندوں سے مذاکرات یا اپریشن …… حکومت گومگو کی کیفیت سے نکل کر ٹھوس لائحہ عمل اختیار کرے
May 04, 2014