دیہاتوں میں خاک اڑ رہی ہے

پاکستان کی 70% آبادی دیہاتوں میں آباد ہے۔ یہ مخلوق 68 سال سے جمہور اور آمریت کی چکی کے دو پاٹوں میں پس رہی ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری، بنیادی ضروریات زندگی کی ناپیدگی، زرعی ٹیکسوں اور یوٹیلیٹی بلوں کی بھرمار نے غریب کسان کو نقل مکانی پر مجبور کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ شہروں کی آبادی دن بدن لاکھوں کی تعداد میں بڑھتی جارہی ہے اور دیہات خالی ہورہے ہیں۔ دیہاتی نوجوان کلیانوں فصلیں اگانے کی بجائے شہروں میں جاکر دفتروں، ورکشاپوں، کاروں، بسوں، ہسپتالوں، ہوٹلوں میں نوکریاں کررہے ہیں۔ لاکھوں غیر ممالک چلے گئے۔ کھلیانوں میں کام کرنے کے لئے زرعی لیبر ملنا مشکل ہوگئی۔
کسان چونکہ اَن پڑھ اور بے سہارا ہوتا ہے، اس لئے پنجابی کسان کو بالخصوص اور دوسرے صوبوں کے دہقانوں کو بالعموم ابھی تک یہ معلوم نہ ہوسکا کہ وہ 23 اقسام کے لگان یا زرعی ٹیکسوں پر ششماہی ادا کررہے ہیں۔ اس لئے کہ 80% کا شتکار انگوٹھا لگاتے ہیں اور دستخط نہیں کرسکتے۔ اس ملک کا دہقان اس حقیقت سے بے علم اور بے نیاز ہے کہ وہ 65 سالوں سے آدھی قیمت پر صنعت کو خام مال اور عوام کو سستا غلہ فراہم کررہا ہے۔ کسان یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ ملک کا سب سے بڑا ٹیکس گزار ہے، اسے کیا خبر کہ 1996ءکی ٹیکس کمیشن رپورٹ میں دیہاتی لوگ ملک کے کل ٹیکس کا 65% ادا کرتے ہیں جبکہ شہری آبادی باقی 35% ادا کرتی ہے۔
نامور تجزیہ نگار قیوم نظامی صاحب لکھتے ہیں: ”ہاری ویلفیئر ایسوسی ایشن سندھ اور آئی ایل او کی مشترکہ رپورٹ کے مطابق دنیا کے غریب ترین افراد میں 70% کسان شامل ہیں۔ امیر اور غریب میں فرق تشویشناک حد تک بڑھتا جارہا ہے۔ شوگر ملز کے مالکان گٹھ جوڑ کرکے ریاستی سرپرستی میں چھوٹے کسانوں کا استحصال کرتے ہیں، انہیں گنے کی پوری قیمت نہیں دیتے، پارلیمنٹ اور عدلیہ میں شوگر ملز مالکان کے عزیز و اقارب براجمان ہیں“۔ حکومت گندم کی قیمت 1300/- فی من مقرر کرکے کسان کو 1100/- فی من ادا کررہی ہے۔
کسانوں کو تو اس کا بھی علم نہیں کہ 1993ءسے ہر سال 2000 کروڑ روپے زرعی شعبہ سے دوسرے شعبوں کو منتقل کردیئے جاتے ہیں۔ اگر یہ خطیر رقم دیہاتوں کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوتی تو دیہاتی نوجوان ہزاروں کی تعداد میں شہروں کی سمت نقل مکانی نہ کرتے بلکہ زرعی زمینوں پر دن رات کام کرکے اناج پیدا کرتے۔
پاکستان کے حکمرانوں نے ساڑھے بارہ ایکڑ اراضی کے مالک پر بھی دوبارہ زرعی ٹیکس نافذ کردیا ہے جسے سابق حکمرانوں نے معاف کردیا تھا۔ اس وقت دیہاتوں پر 23 اقسام کے لگان اور زرعی ٹیکس نافذ ہیں جن کا راقم کئی بار اپنی تحریروں میں ذکر کرچکا ہے۔
دیہاتی مخلوق یہ بھی نہیں جانتی کہ آبیانہ ٹیکس 1958ءسے آج تک 1200 گنا بڑھایا جاچکا ہے۔ آبیانہ ٹیکس کی وصولی صرف پنجاب کے کسانوں سے ہوتی ہے۔ سندھ، بلوچستان اور دوسرے صوبوں سے نہیں کی جاتی حالانکہ وہاں نہریں، ٹیوب ویل ہیں، آبپاشی کا نظام بھی ہے۔ میرے دیہات کا سکول 90 سال سے پانچویں تک ہے۔ طالب علموں کی حاضری بہت کم، استاد عموماً غیر حاضر، اعلیٰ افسروں سے بات کی وہ کہتے ہیں کہ دیہاتی اپنے بچوں کو پڑھنے کے لئے نہیں بھیجتے۔ بعض دیہاتی اتنے غریب ہیں کہ بچوں سے محنت مزدوری کراتے ہیں۔ وہ پینے کا پانی ریڑھی والوں سے خریدتے اوربھینسوں کا دودھ بیچ کر گزارہ کرتے ہیں۔ میرے گاﺅں کو شہر سے ملانے والی سڑک ٹوٹ گئی۔ ڈی سی او صاحب کے حکم پر اس کی مرمت کروائی۔ سنا ہے 30 لاکھ لاگت آئی۔ وہ سڑک دوسرے سال پھر ٹوٹ پھوٹ گئی۔ یہ تھی کرپشن کی کرشمہ سازی۔
میرے گاﺅں کے چار کونوں پر پانی کے جوہڑ تھے جہاں کسان مویشیوں کو پانی پلاتے اور نہلاتے۔ وہ جوہڑ عرصہ سے بیکار پڑے تھے جن میں دلدل اور مچھروں کی بہتات رہتی۔ بڑی کوشش کی وہاں حکومت دیہاتوں کی تفریح کے لئے پارکس بنوا دے لیکن سنائی نہ ہوئی۔ ایسے حالات تقریباً سب دیہاتوں میں ہیں۔ شہروں میں کلب، کارپٹ روڈز، پلازے، اورنج ٹرین، میٹرو بسیں چلائی جارہی ہیں اور دیہاتوں کی سڑکیں اتنی ٹوٹ پھوٹ گئیں سنا ہے کہ حاملہ عورتیں جب تانگوں اور رکشوں پر سفر کرتی ہیں، انہیں بہت تکلیف ہوتی ہے۔
امپورٹڈ وزیراعظموں کے حکم پر ہر سال آبیانہ ٹیکس میں 25% کا اضافہ ہوتا ہے۔ سب سے بڑی زیادتی تو یہ ہے کہ کسان ایک مربع نہری زرعی اراضی پر 23 اقسام کے زرعی ٹیکس یا لگان ادا کرنے کے علاوہ نہری پانیوں میں کمی کی وجہ سے ایک ڈیزل ٹیوب ویل پر ایک سال میں 3 یا 4 لاکھ کا خرچہ کرتا ہے۔ کرم کش دواﺅں اور انتہائی مہنگی کھادوں کا خرچہ علیحدہ ہے۔ کرم کش دواﺅں کے چھڑکانے سے 50% کسان ہیپاٹائٹس کے مریض بن چکے ہیں۔
وزیرخزانہ نے تو خود تسلیم کیا ہے کہ پاکستان کی 60 فیصد آبادی غربت کی لکیر پر زندگی بسر کررہی ہے۔ ان کی فوکس آمدنی تین ہزار روپے ماہوار ہے۔ سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا نے کہا: ”اس وقت پاکستان میں 80 لاکھ ایسے کسان ہیں جن کے پاس ساڑھے 12 ایکڑ سے کم قطعہ اراضی ہے“ (نعیم قاسم)۔ چودھری پرویز الٰہی سابق چیف منسٹر پنجاب نے بیان دیا تھا کہ ”پنجاب میں 90% کسان ایسے ہیں جن کے پاس 12½ ایکڑ سے کم قطعہ اراضی ہے“۔
جناب شہباز شریف ذرا سوچیں کہ ایسے فاقہ کش دہقانوں پر 23 اقسام کے لگان اور زرعی ٹیکس کا نفاذ ہوتے ہوئے انہیں ایک ڈیزل ٹیوب ویل کے نصاب میں بھی مدد نہ دینا کہاں کا شیوئہ حکمرانی ہے.... یہ بھی خبر ہے کہ وزیراعظم نے کسانوں کے 340 ارب روپوں کے پیکیج پر جو اعلان کیا، اس میں صرف 30 ارب کی امداد کسانوں کو دی گئی جو اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہے۔
ہمارے دریا سوکھ رہے ہیں، بھارت ہمارے دریاﺅں کا پانی ٹنلیں لگا کر ڈائیورٹ کررہا ہے یا ان پر ڈیم بنا رہا ہے۔ اگرہمارے حکمرانوں میں بھارتی عزائم روکنے کی جرا¿ت رندانہ نہیں ہے تو ملک کو ریگستان بننے سے پہلے کالاباغ ڈیم کی تعمیر ہی شروع کرادیں۔
آبی ماہر سلیمان خان لکھتے ہیں: ”کشن گنگا ڈیم اور پھر وولر ڈیم کے بعد پنجاب کی وادی کو بنجر بنانے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ اپنے دریاﺅں کے پانیوں کی حفاظت اور کالاباغ ڈیم کی تعمیر قومی سلامتی کے چندسلگتے ہوئے مسائل ہیں۔ وزیراعظم ان مسائل پر دلیری اور سنجیدگی سے غور و فکر کریں۔ ملک کی زرعی زمینوں کو بنجر ہونے سے، رعایا کو اندھیروں میں ڈوبنے اور غریب عوام کو قحط سالی سے بچائیں تاکہ آئندہ مورخ آپ کو عیاش، مفاد پرست اور لٹیرا لکھنے کی بجائے حب الوطنی اور بارکردار لیڈروں کی صف میں شمار کرسکیں“۔
یاد رہے فتح پور سیکری کا شہر شہنشاہ اکبر اعظم نے محنت اور اپنی نگرانی میں تعمیرکروایا۔ پانی ناپید ہونے سے وہ شہر خالی کرنا پڑا۔ آج وہاں اکبری اور نو رتنوں کے خالی محلات توموجود ہیں لیکن شہر ویران پڑا ہے۔ اگر ہم اپنے دریاﺅں کا پانی بھارتی جارحیت سے محفوظ نہ کرسکے اور کالاباغ ڈیم کو سیاست کی نذر کئے رکھا تو ہمارا انجام بھی صومالیہ، روانڈا اور ایتھوپیا جیسا ہوگا جہاں خانہ جنگی اور قحط سالی لاکھوں انسان نگل چکی ہے۔


a

ای پیپر دی نیشن