بگ بورڈ اسیکنڈل کے متاثرین کو رقوم کی واپسی یقینی بنائی جائے

آج سے تقریباً چودہ سال پہلے کراچی کے کچھ رسوائے زمانہ مالی دہشت گردوں نے گلگت بلتستان کے سادہ لوح عوام کو ایک جعلی مالی ادارے بگ بورڈ(BIG BORD) کے نام سے اپنے جال میںپھنسایا اورزیادہ مالی منافع کا لالچ دے کر اپنی جمع پونجی اس ادارے میں جمع کرائی ۔ اس مالیاتی ادارے کے جال میں کم آمدنی والے افراد خصوصاً پنشن حاصل کرنے والے اور سابقہ فوجی پھنس گئے۔ کچھ لوگوں نے تو شیڈول بنکوں کے اپنے اکاﺅنٹس سے رقوم نکال کراس جعلی ادارے میں اکاﺅنٹ کھولے اوررقوم منتقل کیں تاکہ ماہوار خاطر خواہ ریگولر منافع حاصل کیا جاسکے۔ کچھ عرصے تک ساکھ بنانے کےلئے اکاﺅنٹ ہولڈروں کو ماہوارمنافع بھی دیا گیا ۔اس ادارے میںملازمت اختیارکرنے والوںنے اپنے دوستوں‘ عزیزوں اوررشتہ داروں کو بھی منافع کا لالچ دے کر اس مالیاتی ادارے کے جال میں پھنسایا‘ اسکا دائرہ تقریباً ڈھائی ہزار اکاﺅنٹ ہولڈروں تک بڑھایا اور کم و بیش بائیس کروڑ روپے اس جعلی مالیاتی ادارے بگ بورڈ میں جمع کروائے۔ بگ بورڈ کے اصل ملزمان کا تعلق کراچی سے تھا‘ جب بائیس کروڑ روپے کی خطیررقم لے کر یہ ملزمان بھاگ گئے اور گلگت اور اسکردو میں قائم دفاتر کوتالے لگ گئے اور اس جال میں پھنسنے والے ملازمین بھی ادھر ادھر ہوگئے اوراپنے کلائنٹس کے سامنے منہ دکھانے کے قابل نہیںرہے اور آج کل چھپتے پھرتے ہیں۔ جب لوگوں کو ان کے بھاگنے کا پتہ چلاتو حکومت کے نوٹس میں اخبارات کے ذریعے لایا گیا‘ نیب سے باقاعدہ رابطہ قائم کیا گیا لیکن نیب نے کارروائی کرنے کے بجائے اس کو طوالت دی اور یہ معاملہ کھوکھاتے کی نذرہوگیا۔ اسی غم میں سیکڑوں افراد کو ہارٹ اٹیک ہوا‘ کچھ کوفالج ہوا اور کچھ اس وقت بھی اذیت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں‘ کچھ ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں اور کچھ فاقہ کشی پرمجبور ہیں۔ کیونکہ زندگی بھر کی جمع پونجی اس جعلی ادارے کی نذرہوگئی تھی‘ کچھ عرصے کے لئے چند ملزمان اڈیالہ جیل میں بھی رہے لیکن عوام کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ گلگت بلتستان کی سابقہ حکومت سے بھی اس سلسلے میںاپیلیں کی گئیں لیکن کانوں پرجوں تک نہیں رینگی۔ البتہ ایک چیف سیکرٹری نے متاثرہ لوگوں کی فہرستیں تیار کروائیں ابھی حال ہی میں معلوم ہوا ہے کہ بگ بورڈ اسیکنڈل کے ایک مالک کو گرفتار کرکے گلگت لایا گیا ہے اور نیب کارروائی کررہا ہے جو قابل تعریف کام ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ گرفتارشدہ ملزم کے ذریعے دوسرے ملزمان تک رسائی حاصل کی جائے اور گرفتارکرکے ان تمام کے جائیدادیں ضبط اور قرق کرکے نیلام کی جائیں اور غریب و سادہ متاثرین کو ان کے رقوم کی واپسی کا انتظام کیا جائے‘ اس معاملے میں کچھ وقت درکار ہوگا۔ ایسے میں گلگت بلتستان کی حکومت کو چاہئے کہ سانحہ گلگت بلتستان 2005ءکے متاثرین کوجس طرح وفاقی حکومت سے گرانٹ لےکر معاوضے ادا کئے گئے اورپنجاب کوآپریٹو سیکنڈل کے متاثرین کو نیب کے ذریعے رقوم کی ادائیگی کی گئی اسی طرح وفاقی حکومت 22 کروڑ روپے اس غریب اور پسماندہ علاقے کے سادہ لوح متاثرین کوگرانٹ کی صورت میں ادا کرے اوربعد میں ملزمان کی جائیدان نیلام کرکے یہ رقم خود حاصل کرے۔ پی پی پی کی سابقہ حکومت نے 1996ء سے 1998ءتک کے برطرف شدہ ملازمین کوبحال کرکے ان کے تمام بقایا جات اداکئے تھے کیونکہ وفاقی حکومت کے لئے بائیس کروڑ روپے کوئی بڑی رقم نہیں۔ دوسری جانب گلگت بلتستان اسمبلی کے ارکان اپنے اپنے حصے کے ترقیاتی فنڈ سے عوام کادکھ محسوس کرتے ہوئے یہ بائیس کروڑ روپے عارضی طورپر متاثرین کو اداکرسکتے ہیں کیونکہ وہ انہی عوام سے ووٹ لے کرآئے ہیں۔یاد رہے کہ گلگت بلتستان خصوصاً بلتستان میں سادہ لوح لوگوں نے اس جعلی مالیاتی ادارے بگ بورڈ کو پذیرائی دی کیونکہ بگ بورڈ کاافتتاح مقتدر مذہبی رہنماﺅں نے کیاتھا۔ بلتستان وہ علاقہ ہے جہاں مذہبی رہنماﺅں پر مکمل اعتماد اورا عتبار کیا جاتا ہے اور ان کی بات کو حرف آخر سمجھتے ہیں۔ مذہبی رہنما بھی انتہائی عوام دوست اورسیدھے سادھے ہوتے ہیں اور ان کے وہم وگمان بھی یہ بات نہیں ہوگی کہ یہ مالیاتی ادارہ اس طرح عوام کو دھوکہ دے گا اور لوگوں کاپیسہ لے کر بھاگ جائے گا۔ امید کی جاتی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت گلگت بلتستان کے اس اہم معاملے پر فوری کارروائی کرے گی اورلوگوں کو فاقہ کشی‘ ذہنی اذیت و پریشانی اور ڈوبی ہوئی رقوم کی بازیابی اور ادائیگی کے لئے موثر اقدامات کرے گی۔

ای پیپر دی نیشن