ازخود نوٹس کا بیانیہ

گزشتہ کالم میں ازخود نوٹس کے مسئلہ پر گفتگو ہوئی تھی جن میں چند ایسے ازخود نوٹس بلکہ نوٹسز کا ذکر تھا جن کا ذکرنا ازحد ضروری تھا۔ دوستوں نے بذریعہ فون اور ای میلز بھی سراہا کہ سیکورٹی اور پروٹوکول میں فرق بہت ضروری تھا۔ اور یہ تاکید بھی ضروری تھی کہ جن کو سیکورٹی کی ضرورت ہے انہیں ضرور دی جائے اور جنہوں نے اپنے سیکورٹی والوں کو محض پروٹوکول کے لئے استعمال کرنا ہے ان سے سرکاری اہلکار فی الفور واپس لے لئے جائیں ۔
ایک دوست نے ایک اور ازخود نوٹس کا بھی ذکر کیا جس کی افادیت بہت مثبت رہی اور اس کا لیا جانا بھی ضروری تھا وہ سرکاری اشتہارات کے ساتھ سیاسی راہنماﺅں کی تصویریں شائع کرنے سے ممانعت کے حوالے سے اقدام تھا اس سے نہ صرف غیر ضروری تشہیر سے گریز کا رحجان فروغ پذیر ہو گا بلکہ یہ سوچ بھی سامنے آئے گی کہ سرکاری محکمے اپنا سرکاری کام کرنے کے پابند ہیں اور یہ کر کے وہ کسی کے سر احسان نہیں کر رہے تاہم ہمارے خیال میں اس قسم کے سرکاری اشتہارات کے ذریعے میڈیا کو کنٹرول کرنے کے رحجان میں بھی کمی ہو گی اور بچت بھی ہو گی جو کہ ہونی شروع ہو چکی ہے کہ محکمے کے سربراہان نے اپنی کارروائی ڈالنے کے لئے مہنگے اشتہارات سے گریز شروع کر دیا ہے۔ آج کل اخباروں میں ویسے اشتہارات کم شائع ہو رہے ہیں۔ اور سیاسی پارٹیاں اور ان کے لیڈر اپنے یا پارٹی کے خرچ پر اپنی کارکردگی متعارف کرا رہے ہیں۔ اس پر ظاہر ہے کہ کسی کو کوئی اعتراض نہیں اوراس کے حوالے سے عوام جانیں یا سیاسی زعما یاسیاسی پارٹی جانے!!
آئندہ الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے اگرچہ بعض سیاستدانوں نے خدشات کا اظہار شروع کردیا ہے مگر الیکشن کمیشن نے سابقہ حکومت کی جو مدت طے کی تھی وہ ختم ہو رہی ہے اور بظاہر تو انتخابات کی تیاری کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ وہ سیاستدان بھی جو اس حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں اپنی انتخابی مہم شروع کر چکے ہیں کہ اگر ان کے خدشات خدانخواستہ ”خدشات“ ہی رہے تو سیاسی محاذ پر موجودگی تو ضروری ہو گی، دوائیوں کے ”زائد المیعاد“ ہونے اور ہیلتھ کے حوالے سے بھی بعض از خود نوٹس موثر ثابت ہوئے ہیں۔
سیاسی مخاذ پرموجودگی سیاستدانوں کا ایک بڑا مسئلہ ہے جس کے تحت پرندے ایک جگہ سے اڑان لے کر دوسرے شجر تک آ رہے ہیں۔ اور یہ ”شجر“ کی توجہ ایسے پرندوں پر ہے جو اپنے اپنے شجر پر اپنا اپنا قبیلہ بھی رکھتے ہیں۔ اس قبائلی جنگ کا آغاز جنرل محمد ضیاءالحق کی غیر جماعتی الیکشن مہم سے ہوا تھا جس نے برادری اور قبیلے کی ختم ہوتی ہوئی روایت کو ایک بار پھر زندہ کردیا تھا اور اس وقت تک تاریخ کا دھارا آگے کی طرف سفر کر رہا تھا۔ لوگ سیاسی پارٹی اور اس کے پروگرام کو دیکھتے تھے مگر اس غیر جماعتی الیکشن نے جو بیج بویا وہ آج سب کاٹ رہے ہیں۔ اور اس وقت تک کاٹتے رہیں گے جب تک کہ تعلیم یا شعورکی حکمرانی نہیں ہوتی جس کا فی الحال تو دوردورتک امکان نہیں!
وفاقی بجٹ ایک اور ایسا موضوع تھاجس پر بہت لے دے ہوئی مگر حکومت وقت اسے پیش کرنے پر تُلی ہوئی تھی چنانچہ بجٹ سے چند گھنٹے پیشتر مشیر امور خزانہ کو وزیر امور خزانہ کا حلف دلایا گیا تاکہ پارلیمانی سقم دور کیا جا سکے۔ مگر بجٹ پہلے بھی وزارتِ خزانہ، ایف بی آر اور اصل حکومتی اداروں کی ”کاوشوں“ سے ہی تیار ہوتا تھا اور اس بار بھی ایسا ہی ہے۔ وہی سرکاری تنخواہوں میں دس (10 فیصد ) اضافہ اور وہی شرحِ نمو کے دعوے اور امیدیں۔ لہٰذا جن لوگوں کا خیال تھاکہ بجٹ شاید سیاسی صورت حال میں تبدیلیوں کو اپنے اندر سموئے گا اور کسی سیاسی گروپ کا فائدہ یانقصان کرے گا کافی مایوس ہوئے ہوں گے۔ اب یہ سوال کہ بجٹ ایک سال کے لئے نہیں چند ماہ کے لئے ہو غیر ضروری ہے کہ بجٹ نے بڑے بڑے اخراجات تو ویسے ہی طے کردئیے ہیں۔ ویسے بھی کسی زمانے میں بجٹ سالانہ تخمینہ ہواکرتا تھا اب تو پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بھی ماہانہ بنیادوں پر بڑھائی جاتی ہیں لہٰذا بجٹ اب سالانہ تخمینہ نہیں رہا۔ ایسے بجٹ کو کسی بھی وقت پیش کیا جا سکتا ہے اور کسی بھی مدت کے لئے باقی تو جو ہونا ہے ہو ہی رہا ہے۔ مسئلہ تو اداروں کے سالانہ اخراجات طے کرنے اوران کی منظوری کا ہوتا ہے۔
باقی عوام تو سال میں کئی بار بجٹ کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں رواں سال میں بھی یہی توقع ہے کہ یکم مئی سے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں ا ضافہ کی سمری ارسال کر دی گئی ہے جس کی منظوری کے بعد عام لوگ انشااللہ اگلے ماہ ہی بجٹ کے روبرو پیش ہو کر رونا دھونا ڈالیں گے اور پھر اگلی سمری تک پچھلے رونے دھونے کے اثرات کا انتظار کریں گے اور سرکاری ادارے گزشتہ سالوں کے تیار کردہ وضاحت ناموں میں معمولی رد و بدل کر کے جاری کریں گے کہ عالمی اقتصادی صورت حال، یا علاقائی موسموںیاجغرافیائی تبدیلیوںک تناظر میں قیمتوں میں ردبدل کو ناگزیرقرار دیا جائے گااور عوام کو ایک بار پھر قربانی دینے کے لئے تیار رہنے کا حکم جاری کیا جائے گا۔
سیاسی اور معاشی محاذ کے بعد ہمارا اگلا محاذ ادبی ہوتاہے۔ اس بار ادب کے محاذ پر زیادہ سرگرمی دیکھنے کو نہیں ملی۔ اورنہ ہی قومی سطح پرکسی بڑے مکالمے کی بِنا ڈالی گئی۔ حالانکہ اہم قومی ادبی ادارے کی ”سربراہی“ ایک بڑا موضوع ہے مگر ”سربراہی“ کے زوال کے بعد اب لگتا ہے ”سربراہی“ میں لوگوں کی دلچسپی کم ہو گئی ہے۔ یا پھر لوگ اب اپنے اپنے میرٹ کو چھپا کر رکھنے کے قائل ہوتے جا رہے ہیں۔ وفاقی سطح کے چند معروف ادیبوں سے ہماری گزارش ہے کہ وہ دل چھوٹا نہ کریں اور اپنی اپنی فائل کے ساتھ دوڑ کوتیز کریں کہ سبھی اپنا اپنا ”میرٹ“ رکھتے ہیں۔ ایک صاحب جو اس حوالے سے ہجرت کے میرٹ کو صف اول پر رکھنے کے قائل رہے ہیں۔ وہ بھی لگتا ہے چند ”کلیوں“ پر قناعت کر چکے ہیں۔ مگر یہ بھی قناعت سے کم یا زیادہ کا معاملہ ہے۔ وہ سنار کی سو لگانے سے زیادہ لوہار کی ایک لگانے کے منتظر ہیں۔ اور ان کے خیال میں اب وہ وقت زیادہ دورنہیں۔ اکادمی ادبیات ”آجکل“ شیروں کی کچھار“ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے کہ پاکستانی ادب یا ادیبوں سے زیادہ اہم دیگر معاملات بھی ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ ”سربراہی“ ہے جس پر سب کا انحصار ہے ورنہ اچھے شاعروں اورناول نگاروں کی کہاں کمی ہے؟ جسے کمی محسوس ہوتی ہے وہ اکرام الحق صاحب کا سالانہ خطبہ ایک بارپھر پڑھ لے۔

ای پیپر دی نیشن