سیاست میں بھولا پن

گزشتہ روز ساہیوال میں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے میاں محمد نواز شریف نے ایک دلچسپ انداز میں سیاست کے اندر بھولا پن کا عنصر داخل کر دیا ہے۔ فرمایا کہ زرداری کس کی زبان بول رہے ہیں اتنے بھولے تھے جو بہکاوے میں آ گئے۔ مشرف سے اختلاف کا مطلب یہ نہیں کہ اداروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے اس بیان پر اسی شام ناپسندیدگی کا پیغام بھیجا تھا اور دوسرے روز زرداری سے ملاقات منسوخ کر دی تھی۔ وہ کل اگر میرے اشاروں پر چل رہے تھے تو بتادیں آج کس کی کٹھ پتلی ہیں۔ عمران پیٹھو بن گیا‘ زرداری پہلے ہی تھا۔ میرا مقابلہ ان قوتوں سے ہے جو بظاہر نظر نہیں آتیں۔ میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ وہ پھر کہتے ہیں مجھے کیوں نکالا۔ اس موقع پر مریم نواز شریف نے کہا کہ نواز شریف مرد آہن ہیں۔ انتخابات میں مخالفین کی دوڑیں لگ جائیں گی۔ اپنے خطاب میں مسلم لیگ کے صدر نے کہا کہ انہوں نے حلف اٹھانے کیلئے ڈکٹیٹر کے مواخذے ججز کی بحالی اور 17 ویں ترمیم کی شرائط رکھی تھیں۔ نواز شریف نے پوچھا کہ کس نے دھوکہ دیا اور وعدہ خلافی کی انہوں نے کہا کہ سابق صدر ایک بڑے سیاستدان کے ساتھ رائیونڈ آئے اورمشرف کے اقدامات کی پارلیمانی توسیع کی درخواست کی جس کو میں نے رد کر دیا۔ نواز شریف نے کہا کہ زرداری صاحب بتائیں وہ آج کس کی زبان بول رہے ہیں۔ قبل ازیں زرداری صاحب نے کیوں نہیں بتایا کہ انہیں یہ سبق کس نے پڑھائے تھے۔ آج تین سال بعد زرداری صاحب کو سچ بولنے کا خیال کہاں سے آ گیا۔ گزشتہ روز لاہور سے جاری کردہ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ وہ اس طرح کی سیاسی بیان بازی کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ وہ ایک بڑے اصولی اور نظریاتی مشن کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ ان کی جدوجہد کا مقصد پاکستان کے عوام کی حق حکمرانی کی بحالی ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ زرداری اپنا وزن عوام کی بجائے کسی اور کے پلڑے میں ڈالنا چاہتے ہیں تو شوق سے ڈالیں۔ آصف زرداری کیا اتنے بھولے اور معصوم تھے کہ نواز شریف کے ورغلانے میں آ گئے۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ زرداری صاحب خوب جانتے ہیں کہ سندھ میں ڈاکٹر عاصم یا دوسروں کے خلاف نیب کی کارروائیاں کس کے کہنے پر ہوئیں۔ اس سے وزیراعظم یا وفاقی حکومت کا کوئی تعلق نہ تھا۔ قوم کو یہ بھی بتائیں کہ وہ آج کس کے اشاروں پر چل رہے ہیں۔ بہتر ہو گا کہ زرداری صاحب ذاتی الزام تراشیوں کا دفتر نہ کھولیں۔ نواز شریف نے دعویٰ کیا کہ آج پیپلز پارٹی سندھ تک محدود ہو چکی ہے اس لئے وہ نوشتہ دیوار پڑھنے کی کوشش کریں۔
میاں صاحب نے آنے والے انتخابات کے بارے میں پاکستان تحریک انصاف کے اس بیان پر کہ آنے والے انتخابات میں اصل مقابلہ کیا مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کے درمیان ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض لوگ سچائی پر پردہ ڈالنے کیلئے ایسی من گھڑت کہانیاں میڈیا میں پھیلاتے رہتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عوام آج تک ہونے والے تمام ضمنی انتخابات میں اپنا فیصلہ مسلم لیگ نون کے حق میں واضح اکثریت سے دے چکے ہیں اور آنے والے دنوں میں چاروں صوبوں کے عوام نون لیگ کی کارکردگی ترقیاتی کاموں اور عوام کی خدمت کے دیگر کئی اہم بڑے پراجیکٹس کامیابی سے مکمل کرنے پر اللہ کے فضل و کرم سے ووٹ ڈالیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پانچ نظر نہ آنے والی قوتیں جو مسلم لیگ نون کی کامیابی سے خائف ہیں اور ترقی کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنا چاہتی ہیں۔ مسلم لیگ نون ایسی نادیدہ قوتوں کے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کرے گی اور انشاءاللہ آئندہ انتخابات میں نتائج ماضی کے مطابق ہی ہونگے۔
گزشتہ روز احتساب عدالت کے باہر گفتگو کرتے ہوئے نوازشریف نے ایک بار پھرکہا کہ صحافت کے ساتھ ساتھ ہمارا گلا بھی دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے، ہمارا مقابلہ پیپلز پارٹی یا پی ٹی آئی سے نہیں بلکہ خلائی مخلوق سے ہے، خلائی مخلوق اپنی مرضی کی پارلیمنٹ لانے میں مصروف ہے یہاں مغل بادشاہی کا دور نہیں ہے کہ ہر چیز ایک ہاتھ میں ہو ریاست کے تین ستون ہوتے ہیں جس پر ایک ستون نے قبضہ کر لیا ہے۔زرداری صاحب کا بیان مختلف چینلز اور اخبارات پر بریکنگ نیوز کے طور پر آیا اگر زرداری صاحب نے بیان نہیں دیا تو بریکنگ نیوز کس کے کہنے پر چلائی۔ آج میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ پارلیمنٹ اور گورنمنٹ کی رٹ کہاں ہے، جب مجھے پارٹی صدارت سے نکالا گیا تو وہ کس طرح سے قانونی تھا۔
گردوپیش کے حالات پر نظر ڈالتے ہوئے یہ کہنا ضروری ہے کہ پاکستان اس وقت انتہائی نازک اور سنگین اندرونی و بیرونی چیلنجز سے دوچار ہے اس موقع پر پاکستان کی حکومت اور تمام سیاسی پارٹیوں کو یک جاں ہو کر سنجیدگی کے ساتھ یہ سوچنا چاہئے کہ ایسا لگتا ہے کہ ہم یہ بھول چکے ہیں کہ ہم کئی سالوں سے حالت جنگ میں ہیں۔ اس لئے ہم اس نوعیت کی غفلت اور بھولے پن کا شکار نہیں ہو سکتے اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کی قیادت پر یہ الزام لگانا سوچ سکتے ہیں کہ وہ بھولے پن میں کسی کے بہکاوے میں آ جائیں کیونکہ ایسا ہو جانا قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔
قومی بجٹ پیش ہو چکاہے اس وقت قومی قیادت کا اولین فریضہ بجٹ کو مقررہ وقت کے اندر پاس کر کے ملک کے اقتصادی اور معاشی حالات کو قرضوں کی لعنت سے بچا کر اپنی منزل کی طرف رواں دواں کرنا ہے۔ عنقریب موجودہ حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے والی ہے اور یقین کامل ہے کہ تمام قوتیں یک جاں ہو کر انتخابات کے راستے میں تمام رکاوٹیں دور کر کے ترجیح اول کے طور پر نگران حکومت کو کامیاب بناتے ہوئے مل کر تمام چھوٹے اور بڑے اندرونی و بیرونی چیلنجز کا کامیابی سے مقابلہ کریں گی انشاءاللہ۔ پاکستان زندہ باد

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...