اسلام آباد (خصوصی نمائندہ) قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا ہے افسوس پارلیمنٹ میں وزیراعظم ہیں ان کے وزراءنہیں، صرف 2 وزرا کے علاوہ کوئی نہیں، 70 سال کی تاریخ میں پارلیمنٹ کا ایسا حال نہیں دیکھا، وزیر خزانہ کی تقریر سے غریب کا پیٹ بھر گیا، حکومت نے غریب عوام پر ٹیکس کی بھرمار کر دی ہے، بجٹ کے بعد اب غریب آدمی کو کھانا کھانے کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے حکومت کو ملکی معاشی پالیسی بنانے کے لئے مل بیٹھنے کی پیشکش کرتے ہوئے کہا اپوزیشن یہ پیشکش دے رہی ہے ملک کی معیشت کے لئے ہمیں بیٹھنا چاہئے‘ سیاستدان گندے نہیں وہ لوگ گندے ہیں جو سیاست کو گندا کرتے ہیں‘ ٹیکس پر چھوٹ 184 بلین کی دی گئی ہے اور 400 بلین کا نیا ٹیکس لگا دیا گیا ہے‘ ملک میں صرف 7 لاکھ ٹیکس گزار ہیں‘ چیئرمین ایف بی آر کی تعیناتی پارلیمنٹ کے ذریعے ہونی چاہئے‘ اپنا بندہ لگاتے لگاتے پاکستان 24 ٹریلین کا مقروض ہوگیا ہے‘ 2015 میں سگریٹ پر 115 ارب ٹیکس وصول کیا گیا جو 2017 میں 80 ارب ہوگیا‘ 30ارب کا ڈاﺅن فال کیوں ہوا‘ ایف بی آر سے کوئی پوچھے گا یہ کیوں کیا؟ سستی روٹی دینے کی پالیسی بہترین تھی وہ ابھی کیوں نہیں دے رہے‘ سستی روٹی پر تو نیب بھی نہیں آئے گا۔ انہوں نے ایوان میں بجٹ پر بحث کے دوران کہا بجٹ سارے ملک کا ہوتا ہے پارلیمنٹیرینز پر بھی ذمہ داری ہونی چاہئے افسوس ہورہا ہے تیس سالہ سیاست میں ایسا حال نہیں دیکھا وزیراعظم موجود ہوں مگر ان کے وزراءموجود نہ ہوں۔ کل وزیراعظم نے کہہ دیا پارلیمنٹری پارٹی کو آنا چاہئے ان کی بات بھی نہیں مانتے۔ ایک لیوی لگایا گیا تھا، پٹرول پر اس وقت کی اپوزیشن کا دباﺅ ہوتا تھا یہ جگا ٹیکس ختم کرو ہم نے کم بھی کیا تھا وہ ٹیکس آج اعلان ہوا ٹیکس فری بجٹ دیا ہے تین سو بلین کا لیوی ٹیکس لگایا گیا ہے ایڈوائز کی تقریر سے سارے غریب لوگوں کا پیٹ بھر گیا جب آپ خود کہتے تھے آج آپ نے تیس روپے اس پر ٹیکس لگا دیا تین فیصد لوگوں پر اس کا اثر نہیں ہوگا، ستانوے فیصد لوگوں پر یہ عذاب ڈال دیا آپ نے لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔ ہائی سپیڈ ڈیزل پر تیس روپے لیوی ٹیلس ڈال دیا ہے۔ لائٹ ڈیزل پر نو سو فیصد ٹیکس لگایا گیا سات لاکھ ٹیکس دینے والے ٹوٹل میں آبادی اکیس کروڑ ہے ہم نے اپنے زمانے میں کوشش کی اپوزیشن کو اس پر اعتماد میں لیں اس حکومت نے ایمنسٹی سکیم دی اس کا بھی کوئی پتہ نہیں آپ بڑے لوگوں پر ٹیکس لگانے کے لئے تیار نہیں غریب آدمی سے تیس سولینے کا کہتے ہیں ۔ بھارت میں چھ کروڑ چھبیس لاکھ ٹیکس دینے والے ہیں ان کی آبادی 1.25 بلین ہے پانچ فیصد یہاں کا ریشو بنا دیں ٹیکس میں اعشاریہ تین فیصد ہیں۔ بنگلہ دیش تو ہمارا حصہ تھا بنگلہ دیش کے بھی ستائیس لاکھ ٹیکس دینے والے ہیں ان کی سترہ کروڑ آبادی ہے ہم 9لاکھ لاکھ دے رہے ہیں اس بات پر کسی کو جوں تک نہیں رینگتی پاکستان نیوکلیئر پاور ہے ہمارا ٹیکس دینے والا اعشاریہ تین ہے کبھی احسن اقبال نے اس پر لیکچر دیا ہے پارلیمنٹ میں بات ہوتی ہے ہمیں دنیاکے ساتھ دوڑنا پڑے گا ساری چیزیں مل کر بیٹھ کر حل کرنے والی ہیں۔ ہم ہنستے ہاتھ ملاتے ہیں تو میڈیا کہتا ہے فرینڈلی اپوزیشن ہے اس دن یہاں لڑائیاں ہورہی تھیں۔ خورشید شاہ نے کہا الیکشن میں بھی جائیں تو ایسی ایسی سنائیں گے منشور پر نہیں بات کریں گے کبھی تو ہمیں سوچنا پڑے گا کیا قصور ہے غریبوں نے ان کو روٹی نہیں ملتی‘ آپ سستی روٹی دیں آشیانہ سکیم میں پچاس لاکھ گھر کہاں گئے‘ سستی شہرت ہمیں مار رہی ہے‘ سستی روٹی پر نیب بھی نہیں آئے گا۔ انہوں نے کہا ایک کیس پی اے سی میں آیا ہے 2015 میں سگریٹ پر ایک سو پندرہ ارب روپے ٹیکس وصول ہوا اب وہ اسی بلین ہوگیا ہے کہا جارہا ہے 93 بلین پر لے جائیں گے تیس ارب کا ایک دم ڈاﺅن فال کیوں ہوا اپنے خزانے کو تیس ارب کا انجکشن لگا دیا ایف بی آر سے کوئی پوچھے گا یہ کیوں کیا کون ذمہ دار ہے اس کا میں یہ فیصلہ پارلیمنٹ میں لے کر آیا ہوں۔ پارلیمنٹ اس کی انکوائری کرے تو ان کو ڈر تو ہوگا۔ 64 فیصد اس ملک میں نوجوان ہیں دس لاکھ ہر سال بے روزگار کی لائن میں آتے ہیں ان کے لئے کوئی بجٹ رکھا گیا ہے؟ ہم نے صوبوں کو این ایف سی دیا آج آپ این ایف سی دینے کو تیار نہیں 2012 میں ایکسپورٹ کا جی ڈی پی کا ریشو ایک فیصد تھا پانی خطرناک حد تک کم ہورہا ہے اسلام آباد میں بھی چار گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے ہم نے بجلی چوری پر سروے کرایا لاہور کی چوری حیسکو اور پیسکو سے زیادہ ہے لاہور میں 85 فیصد کمرشل کنکشن ہیں ہماری ہاں 85 فیصد ڈومیسٹک کنکشن ہیں اس لئے تینوں چھوٹے صوبوں کو چور کہا جاتا ہے کون سی لوڈشیڈنگ ختم کی ہے حلف پر کہہ دیں۔ بلوچستان میں چالیس فیصد علاقے میں تو بجلی ہے ہی نہیں پانی ملک میں نہیں، منشور میں سرکاری اداروں کی بات کی گئی تھی اور وعدہ کیا قومی خزانے کو چار سو ارب کا نقصان ہے۔ آج سترہ بلین کے ذخائر ہیں 2010-11 میں یہ اٹھارہ بلین تھے دو ارب ڈالر باہر چلے گئے پالیسی تبدیل ہوتی رہی پی ایس ڈی پی میں انرجی فار آل میں ایک سو بارہ ارب پچاس کروڑ تھا اس سال زیرو ہے صاف پانی کے پروگرام میں بھی زیرو۔ تین وزراءاعلیٰ نے پی ایس ڈی پی پر واک آﺅٹ کیا۔ زرعی سبسڈی آٹھ ارب تھی اس کو پانچ ارب کردیا گیا گندم کی خریداری دو ارب سے ختم کرکے 1.5 کیا ہے جو غیر آئینی بجٹ پیش کیا ہم نے فرض سمجھا اپنا نقطہ نظر دیں اس پر یہ ملک ہمارا ہے ادارے ایک دوسرے کا احترام کریں، پارلیمنٹ فیڈریشن کو بچا سکتی ہے اور مضبوط کرسکتی ہے، فیڈریشن کمزور ہوگی تو وفاق کمزور ہو گا۔ قومی اسمبلی میںکیپٹن ریٹائرڈ صفدر نے قائدِ اعظم یونیورسٹی میں شعبہ فزکس کے نام کی تبدیلی کی متفقہ قرارداد پیش کردی جسے منظور کر لیا گیا۔ شعبہ فزکس سے ڈاکٹر عبدالسلام کا نام تبدیل کردیا۔ قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ فزکس کو اسلامی سائنسدان البیرونی کے شاگرد کے نام سے منسوب کر دیا گیا۔ شعبہ فزکس کا نام مسلمان سائنسدان ابو فتح عبدالرحمان العظمی کے نام سے منسوب کردیا گیا۔ قرارداد قومی اسمبلی میں متفقہ طور پر منظور کرلی گئی۔ وفاقی وزیر ہاﺅسنگ و تعمیرات اکرم خان درانی نے کہا ہے ہم نے میرٹ سے ہٹ کر کوئی نوکری نہیں دی‘ باقاعدہ این ٹی ایس ٹیسٹ کے ذریعے نوکریاں دی ہیں۔ قومی اسمبلی میں ذاتی نکتہ وضاحت پر وفاقی وزیر اکرم خان درانی نے کہا ملازمت ٹیسٹنگ سروسز کے ذریعے دی جارہی ہیں میرا ملازمت دینے سے کوئی تعلق نہیں۔ وفاقی وزیر کیڈ ڈاکٹر طارق فضل چودھری نے نکتہ وضاحت پر کہا اس وقت سی ڈی اے کسی جگہ پر زبردستی قبضہ نہیں لے رہا۔ مشاورت سے مارکیٹ ریٹ پر قبضہ لیا جاتا ہے۔ چار کنال زمین ڈویلپ کرکے ایک کنال مالک کو دینے کا کامیاب ماڈل اپنایا گیا ہے۔ ملازمتوں میں 20 فیصد کوٹہ اسلام آباد کےلئے ہے۔ سکیل ایک سے 15 تک ملازمین اسلام آباد کے ڈومیسائل والوں کے لئے ہے۔ مختلف محکموں میں اس کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ محکمہ تعلیم میں کوئی ٹیچر یا نان ٹیچنگ سٹاف‘ پمز ‘ پولی کلینک‘ پولیس‘ آئی سی ٹی کے محکمہ سے کسی ملازم کا تبادلہ دوسرے صوبے میں نہیں ہو سکتا۔ گریڈ 16 اور 17 فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ہوتا ہے۔ بعدازاں قومی اسمبلی کا اجلاس (آج) جمعہ کی صبح ساڑھے دس بجے تک ملتوی کردیا گیا۔ قومی اسمبلی میں بجٹ پربحث کا آغاز ہوگیا حکومتی ارکان نے بجٹ کو بہترین قرار دیا جبکہ اپوزیشن نے اسے غریب کش بجٹ کہتے ہوئے اس پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی قیصر احمد شیخ نے تجاویز دیں زرعی شعبے کے قرضوں پر ٹیکس کی شرح میں کمی کی جائے‘ تاجروں پر 6 فیصد ٹیکس فکس کردیا جائے اور ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اپنے حلقوں میں تعلیمی اداروں کے قیام پر توجہ دینی چاہیے جس سے ملک میں حقیقی ترقی آئے گی۔ پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی اسد عمر نے کہاکہ مسلم لیگ ن کے بجٹ کے بعد وہیں کھڑے ہوگئے ہیں جہاں سے چلے تھے ووٹ کو تقدس کی بات کرنے والوں نے رانا افضال کی بجائے مفتاح اسماعیل سے بجٹ پیش کرا کر خود ہی دھجیاں بکھیر دیئے 480 ارب روپے کے گردشی قرضے ختم کرنے والوں کے دور میں 500 ارب سے بڑھ گئے ہیں بتایا جائے یہ قرضے ختم کرنے کے لئے بجٹ میں کہاں رقم رکھی گئی۔ ایک حکومتی رکن کو فایدہ پہنچانے کے لئے کھانے کے تیل پر ٹیکس لگایا گیا یہ آج کے اخبار میں آیا جس کا جواب حکومت کو دینا ہوگا۔ جے یو آئی (ف)نعیمہ کشورخان نے کہا تاریخ میں پہلی بار ایک حکومت چھٹا بجٹ دے رہی ہے، مشترکہ مفادات کونسل میں سند ھ اور بلوچستان اچھا کھیلے اور مگر خیبر پی کے مفت میں واک آﺅٹ کر گیا، عمران خان کے پی کے کابینہ کو بنی گالہ سے آزادی دے دیتے تو وہ تھوڑا کام کر لیتے، کے پی کے حکومت نے 300 ارب کے قرضے لئے، بجٹ میں کچھ چیزیں بہت بہتر ہیں، ہمارا ملک زرعی ہے، ضروری ہے زراعت کو زیادہ ترقی دیں، سود سے پاک معیشت پر کام کیا جاتا، سودی نظام کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے خواجہ سہیل منصور نے کہا بجٹ میں 2100 ارب کا خسارہ ہے،میں ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے خلاف نہیں، پیسہ فزیکل آنا چاہیے تھا۔ جے یو آئی (ف) کی رکن اسمبلی آسیہ ناصر نے کہا چھٹا بجٹ پیش کرنے پر حکومت کو مبارکباد پیش کرتی ہوں، موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے ہماری حکومتیں کچھ نہیں کررہی، فوڈ سیکیورٹی سب سے بڑا چیلنج بننے جا رہا ہے، تنخواہوں میں کم از کم 20 فیصد اضافہ ہونا چاہیے۔ تحریک انصاف کے رکن ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کراچی میں ان کے حلقے میں مطلوبہ مقدار میں پانی دستیاب نہیں‘ امن و امان کی صورتحال بھی تسلی بخش نہیں۔ تحریک انصاف کے انجینئر حامدالحق نے کہا اس حکومت نے تحریک انصاف کے حق پر ڈاکہ مارا ہے اگلی حکومت تحریک انصاف کی ہے، اسد عمر وزیر خزانہ ہونگے یہ بجٹ اسد عمر نے پیش کرنا تھا آپکو غیب کا علم ہوگا، سپیکرز کو غیب کا کوئی علم نہیں، ڈپٹی سپیکر وفاقی حکومت نے گیس کے شعبے میں پشاور اور خیبر پی کے کو نظرانداز کیا۔ مفت کے وزیر مفتاح اسماعیل نے ہائیر ایجوکیشن میں ہمارے صوبے کو کچھ نہیں دیا۔ آن لائن کے مطابق قومی اسمبلی میں بحٹ پر بحث کے دوران اپوزیشن، حکومتی اور اسکی حلیف جماعتوں نے زرعی شعبے کو حالیہ بجٹ میں نظرانداز کرنے پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا، اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اور تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی اسد عمر نے ملک پر بیرونی قرضوں کے بوجھ میں اضافے، درآمدات میں کمی اور تجارتی شعبے کو نظرانداز کرنے پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا قرضوں کی ادائیگی اور خسارے میں کمی کیلئے حکومت نے کسی قسم کی منصوبہ بندی نہیں کی، اپوزیشن ارکان نے حکومت کی جانب سے ٹیکس ایمنسٹی سکیم کو منی لانڈرنگ، ٹیکس چوروں اور ملک کا پیسہ لوٹ کی بیرونی دنیا میں محلات بنانے والوں کیلئے رعایت قرار دیا ہے۔
قومی اسمبلی/ خورشید شاہ
قومی اسمبلی : قائداعظم یونیورسٹی کے ڈاکٹر عبدالسلام سے منسوب شعبہ فزکس کا نام بدلنے کی متفقہ قرارداد
May 04, 2018