عافیہ فاروق کا تعلق انڈیا کے زیر انتظام کشمیر ہے جو پیشے سے فزیو تھیراپسٹ ہیں اور جنوبی شہر بنگلور میں کام کرتی ہیں۔ انھیں کشمیر سے باہر تعلیم حاصل کرنے کے دوران کشمیری ہونے کی وجہ سے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ عافیہ کشمیر سے باہر رہنے کے دوران اپنے تجربات بیان کر رہی ہیں جن کا کہنا ہے کہ کشمیریوں سے بات کرنی چاہیے۔
جب میں فزیوتھیریپی میں بیچلر کی ڈگری لے کر سری نگر واپس آئی تو میں نے نورا ہسپتال میں تقریباً آٹھ ماہ تک کام کیا۔زندگی ایسی تھی کہ گھر سے ہسپتال اور ہسپتال سے گھر، اورکمی تھی تو بس دہرادون یا بنگلور کی طرح امن و شانتی کی ۔ جہاں سے میں نے گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کیا تھا۔
میں آگے پڑھنا چاہتی تھی اور ریسرچ کرنا چاہتی تھی، لیکن اس کا کوئی موقع نہیں تھا۔میرے والد میری حوصلہ افزائی کرتے رہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کے بچے، یہاں تک کہ تمام بیٹیاں بھی، وہ کریں جو انھیں کرنا پسند ہو۔ اس طرح میں راجیو گاندھی یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے بنگلور آئی اور مجھے ایک طبی ریسرچ کمپنی میں نوکری مل گئی۔
عافیہ فاروق کا تعلق سرینگر سے جو بنگلور میں کام کرتی ہیں۔سرینگر سے اگر دہرادون اور بنگلور کا موازنہ کریں تو بہت فرق ہے۔
کشمیر میں اگلے دن کی منصوبہ بندی کرتے وقت بہت سے پہلوؤں کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔ جیسے کہ ہڑتال یا کرفیو۔ یہاں مسئلہ صرف کام اور پیسے کا نہیں، بلکہ زندگی کی حفاظت کے بارے میں ہمیشہ تشویش برقرار رہتی ہے۔ والدین بھی اپنے بچوں کے حوالے سے بہت کشیدگی کا شکار رہتے ہیں۔
دہرادون یا بینگلور میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ یہاں امن کا ماحول ہے اور تمام طرح کے مواقع موجود ہیں۔
جی ہاں، دہرادون اور بینگلور میں دوسرے مسائل ضرور تھے۔ دہرادون میں جب میں فرسٹ ایئر میں تھی تو وہاں رہنے کا بندوبست میرے والد نے کروایا تھا۔سیکنڈ ایئر میں اپنی ایک دوست کے ساتھ جب میں نے ایک فلیٹ میں شفٹ ہونے کی کوشش کی تب مجھے احساس ہوا کہ میرا کشمیری ہونا مسائل کھڑے کر سکتا ہے۔
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں کیونکہ بھارتی فورسز کے خلاف طالبات کی مارچ کرنے کی شہرت بھی ہے۔لوگ منہ پر ہی کہنے لگے تھے: ' چونکہ آپ کشمیری ہو، لہٰذا آپ کو گھر دینے میں ڈر لگتا ہے۔'
میری دوست مسلمان نہیں تھی اور دہلی سے تھی۔ جب ہمیں تین چار بار گھر دینے سے انکار کر دیا گیا تو میری دوست نے کہا کہ مجھے کشمیر کی بجائے جموں کا ذکر کرنا چاہیے۔ لیکن میں جھوٹ نہیں بولنا چاہتی تھی۔پھر میں نے ایک آنٹی سے کہا کہ 'میں ایک کشمیری ہوں اور اگر آپ کو اس پر کوئی اعتراض ہے تو آپ کہہ سکتی ہے۔' آنٹی نے کہا: 'اگر تم ویسی نہیں ہو تو تم رہ سکتی ہو۔ ہم وہاں چار سال تک رہے۔'
لیکن جب میں ماسٹرز کرنے بینگلور آئی تو وہاں مجھے دہرادون جیسے تجربے سے نہیں گزرنا پڑا۔
اگرچہ میرے کچھ دوستوں کا تجربہ مجھ سے مختلف تھا۔ ہاں یہ بھی سچ ہے کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین کو گھر دینے کو لے کر مالک مکان تھوڑے زیادہ آزاد خیال ہوتے ہیں۔
انٹرویو کے دوران میری جائے پیدائش کے تعلق سے مجھے کسی طرح کے امتیازی سوالات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ کام کرنے والے ساتھی بعد میں ضرور پوچھتے کہ اتنے خوبصورت کشمیر میں حالات اتنے برے کیوں ہیں؟میں ہمیشہ ان سے سرینگر آنے اور اپنے گھر میں ٹھہرنے کی دعوت دیتی تاکہ وہ دیکھ سکیں کہ یہاں امن کیوں نہیں ہے۔
آپ میڈیا میں جو دیکھتے ہیں وہ بالکل مختلف ہے۔ ہمارے اندر کسی کے خلاف کوئی نفرت نہیں ہے۔ ہم انتہائی کھلے مزاج والے اور پیار سے بھرے لوگ ہیں۔
آپ کو بتاؤں کہ جب میں سرینگر ایئرپورٹ سے گھر جاتی ہوں تو اپنے باپ سے کہتی ہوں کہ مجھے لگتا ہے کہ ہم کشمیری 50 برس پیچھے چلے گئے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ حالات روز بروز بگڑتے ہی جا رہے ہیں۔
کشمیر کے لوگوں میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے۔ لیکن پھر وہی بات کہوں گی کہ ٹیلنٹ ہونے کے باوجود یہاں مواقع نہیں ہیں۔
مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ کشمیر میں جو لوگ کر رہے ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟میں کہنا چاہتی ہوں کہ اگر کوئی میرے سامنے کھڑا ہو اور میں اسے ایک نہیں، دو نہیں، تین نہیں بلکہ چار بار ماروں تو فطرتاً وہ شخص جوابی کارروائی ضرور کرے گا۔
بینگلور میں میرے ساتھی اور دوست کہتے ہیں کہ 'تمام پتھربازوں کو پیسے دیے جاتے ہیں۔' میرا کہنا ہے کہ پوری وادی کشمیر کو پیسے نہیں دیے جا سکتے۔
یہ سمجھنے کی بات ہے کہ اگر اتنے بڑے پیمانے پر لوگ سڑکوں پر اترتے ہیں تو کہیں نہ کہیں کچھ غلط ضرور ہے۔ کچھ لوگوں کو آگے آکر ان سے پوچھنا چاہیئے کہ ایسا کیا ہے جو یہاں پر غلط ہو رہا ہے۔
ایک سال بنگلور میں کام کرنے کے بعد میں نے ایک وقفہ لیا ہے۔ میں گھر سے 15 دن کام کر سکتی تھی اور باقی کے 15 دن میں چھٹی پر تھی۔ میرے والدین بھی خوش تھے۔ لیکن انتخابات کے دوران کچھ گڑ بڑ کے پانچ دن بعد انٹرنیٹ بند ہو گیا۔
مجھے اپنے مینیجر کو فون کرنا تھا اور حالات کے بارے میں بتانا تھا۔ میرا کام ریسرچ کا ہے اور اس سے دیگر لوگ متاثر ہو سکتے تھے۔ مجھے میرے کام کو دوسرے ساتھیوں تک پہنچانا تھا۔
آخر کار مجھے اپنی ریٹرن ٹکٹ منسوخ کرانی پڑی، نئی ٹکٹ لینی پڑی اور جلد بازی میں واپس آنا پڑا۔ یہ سب بلاشبہ بہت بے چینی پیدا کرنے والا تھا۔میں آٹھ سال سے کشمیر سے باہر ہوں۔ میری زندگی کافی اچھی ہے۔ بہت سکون ہے زندگی میں اور وہی سب سے اہم چیز ہے۔ سوال زیادہ یا کم فائدے کا نہیں ہے۔ آخر کار یہ میری زندگی ہے۔میں اپنی بہنوں سے کہتی رہتی ہوں کہ تمہیں اپنا گھر ہمیشہ کے لیے نہیں چھوڑنا، کم از کم باہر نکلو، پڑھو اور کسی اور حصے میں جا کر کام کرو۔
(بی بی سی اردو)
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
’کشمیر کی طرح انسانیت کو بھی آزادی چاہیے'
انڈیا کے زیرِانتظام کشمیر کے کشیدہ ماحول میں پلنے بڑھنے والی لڑکیوں اور ملک کے باقی حصوں میں رہنے والی لڑکیوں کی زندگی کتنی یکساں اور کتنی مختلف ہو سکتی ہے؟
یہی سمجھنے کے لیے وادی کشمیر میں رہنے والی دعا اور دہلی میں مقیم سومیا نے ایک دوسرے کو خط لکھے۔ سومیا اور دعا کی ایک دوسرے سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی ہے۔ انھوں نے ایک دوسرے کی زندگی کو گذشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران خطوط کے ذریعے ہی جانا۔ یہ اس سیریز کا آخری خط ہے۔
پیاری دعا
تمہارا خط ملا اور مجھے اچھا لگا کہ آپ نے مجھے کشمیر آنے کی دعوت دی لیکن میں دو سال تک کہیں نکلنے کے بارے میں نہیں سوچ رہی کیونکہ یہ دو سال میرے کریئر کے لیے بہت اہم ہیں۔
ہمارے خط شائع ہونے سے میرے خاندان اور جاننے والوں نے مجھے بھی بہت مبارکباد دی۔
میرے دوستوں نے بھی انھیں پڑھا اور انھیں یہ سلسلہ بہت اچھا لگا۔
جنت ارضی سے دہلی کی لڑکی کے نام خط
'کیا واقعی کشمیر میں صرف مسلم رہتے ہیں؟'
'مذہب کوئی ہو، کشمیر میں بھائی چارہ ہے'
ویسے میں آزادی کے بارے میں تم سے نہیں پوچھنا چاہتی تھی لیکن میں اپنی بیچینی دبا نہیں پائی۔
مجھے آپ کا جواب بہت اچھا لگا۔ کشمیری جن چیزوں سے آزادی چاہتے ہیں ان سے پوری انسانیت کو آزادی چاہیے۔
سنگ بار لڑکیوں پر فوج نے فائرنگ کیوں کی؟
'کشمیری ہوں، انڈیا میں پڑھنے سے ڈرتی ہوں'
کشمیری کس سے آزادی چاہتے ہیں؟
کشمیریوں کے لیے آزادی کا مطلب کیا ہے؟
آئے دن ہمارا اخبار وحشیانہ اور نفرت کی مثالوں سے رنگا ہوتا ہے۔ کبھی باپ اپنے بیٹے کو نشے میں مار دیتا ہے تو کبھی بیٹے بوڑھے باپ کو۔
کہیں کوئی یکطرفہ محبت کرنے والا لڑکا، لڑکی پر تیزاب پھینک دیتا ہے، تو کبھی کوئی اپنی گرل فرینڈ کو گولیوں سے بھون دیتا ہے.
میں چاہتی ہوں کہ کشمیر کی آزادی کے سوال پر اور زیادہ جان سکوں لہذا مستقبل میں بھی ہم لوگ یہ خط و کتابت کرتے رہیں تو مجھے اچھا لگے گا۔
میں یہ مانتی ہوں کہ ہر انسان کی کچھ نہ کچھ خصوصیت ہوتی ہے، سب میں کسی نہ کسی طرح کی قابلیت ہوتی ہے اور سب کو ترقی کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔
یہ جان کر بھی مجھے اچھا لگا کہ کشمیر میں ہسپتال، سکول، کالج تمام 20 ویں صدی میں ہی بنے تھے۔
ان خطوں کے ذریعے مجھے احساس ہوا کہ ہماری جیسی لڑکیوں کی پسند ناپسند ملتی جلتی ہوتی ہے۔
اس پروجیکٹ سے مجھے کشمیر کے بارے میں اچھی معلومات ملی۔
مجھے جو امید تھی کشمیر ویسا ہی لگتا ہے لیکن وہاں بدامنی سے سیاحت متاثر ہوتی رہتی ہے۔
اس کا اثر عام زندگی پر پڑتا رہا ہے اور میں چاہوں گی کہ ان موضوعات پر ہم لوگ مزید بات کرتے رہیں۔
جہاں تک بدعنوان انتظامیہ کا سوال ہے تو انڈیا کی دوسری ریاستوں کی حالت کشمیر سے بہتر نہیں اور یہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ تو بنتی ہے۔
آخر میں میں نے بی بی سی کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں جس نے ہمیں ملنے کا موقع دیا۔
امید ہے خطوط کا یہ سلسلہ کبھی نہ تھمے۔
بہت سارا محبت
تمہاری دوست سومیا
(خطوط کی یہ سیریز بی بی سی ہندی کی نمائندہ دیویا آریہ نے تیار کی)
کشمیر کی مزاحمتی موسیقی
انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں مزاحمتی موسیقی کی ایک نئی لہر اٹھ رہی ہے۔ یہ وہ موسیقی ہے جو اس تنازعے کے درد کو بیان کرتی ہے۔
کشمیر میں پاکستانی بہوئیں: ’نہ سسرال اپناتا ہے نہ انڈین حکومت پاکستان جانے دیتی ہے‘
نسیم کا خاندان سیالکوٹ سے برسوں پہلے راولپنڈی منتقل ہوچکا تھا۔ امریکہ پر نو ستمبر کے حملے کے بعد جب کشمیرکی مسلح شورش کمزور پڑ گئی تو یہاں سے مبینہ طور پر مسلح تربیت کے لیے پاکستانی زیرانتظام کشمیر جانے والے سینکڑوں نوجوانوں نے تربیتی کیمپوں سے نکل کر سماجی زندگی اختیار کر لی اور بیشتر نے شادی کر کے گھر بھی بسا لیے۔
اسی طرح نسیم نے بھی جنوبی کشمیر کے اونتی پورہ قصبے کے رہنے والے اسحاق شیخ نامی کشمیری نوجوان کے ساتھ شادی کرلی۔ ان کے بچے ہوئے اور ان کے شوہر بھی کاروبار کرنے لگے۔
'ایک بیٹی انڈین ہے تو ایک پاکستانی، یہی ان کی تقدیر ہے'
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
'کیا واقعی کشمیر میں صرف مسلم رہتے ہیں؟'
’انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں شادی نہ کریں‘
سابق وزیراعلیٰ عمرعبداللہ کے دور میں جب پاکستان سے کشمیری لڑکوں کی وطن واپسی کی پالیسی کا اعلان ہوا تو دیگر جوڑوں کی طرح نسیم بھی شوہر اور بچوں سمیت وادی پہنچ گئیں۔پہلے پہلے ایسے سبھی جوڑوں کا خوب استقبال ہوا، لیکن بعد ازاں پاکستان کی یہ بیٹیاں در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوگئیں۔ نسیم ایسی ہی ستم زدہ خواتین میں سے ایک ہیں۔
وہ کہتی ہیں ’میرے شوہر کے بھائیوں کو لگا کہ اب وہ ان کی وراثت میں شریک ہے تو انھوں نے ہمیں ستانا شروع کیا۔ فاقہ کشی کی ہم نے، پڑوسن چوری چوری کھانا دیتی تھی اور آخر کار ہم سڑک پر آگئے۔
ہیلپ فاؤنڈیشن نامی ایک این جی او سے رابطہ ہوا تو میڈم نگہت شفیع اور ان کے خاوند شفیع پنڈت، جو سابق افسر ہیں، نے ہمیں اپنے گھر پر رکھا کہا یہیں گھریلو کام کرو، میرے بچوں کا داخلہ سکول میں کرایا۔‘
نسیم کی بینائی پہلے ہی کمزور تھی، لیکن اب وہ مکمل طور نابینا ہوگئی ہیں۔ رضاکار ادارے نے انھیں نابینا افراد کے لیے مخصوص لیپ ٹاپ دیا ہے، جس پر وہ معلومات حاصل کرسکتی ہیں۔
اسحاق کی عمر 45 سال ہے۔ اسحاق اور نسیم کی طرح کشمیر میں سینکڑوں جوڑے ہیں جو حکومت ہند کی ’سرینڈر پالیسی‘ کے تحت بغیر پاسپورٹ نیپال کے راستے انڈیا لائے گئے۔ لیکن کشمیر پہنچ کر ان کی زندگی اجیرن بن گئی۔
نسیم کہتی ہیں ’ہم تو جیسے اجنبی ہیں۔ کوئی کاغذ نہیں، کوئی کارڈ نہیں۔ میری زندگی جہنم بن گئی ہے۔ میں کب سے در در کی ٹھوکریں کھارہی ہوں کہ مجھے ایک بار واپس راولپنڈی جانے دو۔ وہاں میری ماں بیمار ہے، لیکن کوئی سنتا ہی نہیں۔‘
نسیم کو گلہ ہے کہ کشمیر لوٹنے والے ایسے سبھی نوجوانوں کے خاندان والوں نے جس بے رخی کا مظاہرہ کیا اس کی انھیں توقع نہیں تھی۔ ’لوگوں کی ذہنیت عجیب ہے، پیسہ سب کچھ نہیں ہوتا۔‘
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایسی لڑکیوں کی تعداد پانچ سو کے قریب ہے جو سابق شدت پسندوں کے ساتھ بیاہی گئیں اور ’سرینڈر پالیسی‘ کے تحت وادی پہنچیں۔ سب کی تقریباً ایک جیسی کہانی ہے۔ ان خواتین نے اکثر سرینگر میں مظاہرے بھی کیے اور ایک پاکستانی خاتون نے خودکشی کی کوشش بھی کی۔
ان کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں نہ سسرال والے اپنا رہے ہیں اور نہ حکومت واپس پاکستان جانے کی اجازت دے رہی ہے۔
(بی بی سی اردو)