اسلام آباد(نیوزرپورٹر) پاکستان میں ہمیشہ صحافت کی آواز کودبانے کی کوشش کی گئی،تین مئی صحافیوں کے دکھ سکھ کا دن ہے۔گزشتہ پانچ سالوں میں 26صحافی فرائض کے دوران شہید ہوئے ایک بھی مقتول صحافی کے قاتل کو سزا نہیں ہوئی کیسز لواحقین کی طرف سے درج کئے گئے،کسی بھی مالک کی طرف سے مقدمہ درج نہیں کرایا گیا۔میڈیا کو لاپتہ افراد بالخصوص لاپتہ کرنے والوں کے بار ے میں بات کرنے کی اجازت نہیں۔مزاحمتی صحافت دم توڑ رہی ہے۔ مجموعی ماحول مایوسی کا ہے لیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ ہم اپنی جدوجہد کے مقصد کو فراموش کردیں۔ ان خیالات کا اظہار سابق چئیرمین سینٹ میاں رضا ربانی ، سینٹ میں پیپلز پارٹی کی پارلیمانی لیڈر شیریں رحمان اور دیگر نے نیشنل پریس کلب کے زیر اہتمام عالمی یوم آزادی صحافت کے حوالے سے منعقدہ "آزادی سیمینار" سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سینٹرر شیری رحمن نے کہا کہ پیپلزپارٹی اور میڈیا کا چولی دامن کا ساتھ ہے،میڈیا کے ساتھ فٹ پاتھ پر بیٹھنے کو بھی تیارہیں، بینظیر بھٹو نے تنقید کو برداشت سے بڑھ کر سننے کا درس دیا ہے،آمریت کا جس انداز سے ڈٹ کر برداشت کیا ہے اس حد تک کسی نے برداشت نہیں کیا،صحافیوں نے اپنے حقوق کیلیے جدوجہد نہیں کی بلکہ اظہار رائے کی آزادی کیلئے جدوجہد کی،یہ حقوق کسی نے پلیٹ میں رکھ کر نہیں دیئے ۔ہم نے خون دے کر حاصل کیا۔انہوں نے کہا کہ میڈیا پر جتنا مشکل وقت آنا تھا آ چکا ہے،تبدیلی سرکار نے میڈیا پر غیر اعلانیہ سنسرشپ نافذ کر رکھی ہے ۔حکومت صحافیوں کے سیفٹی اینڈ سکیورٹی کا بل نہیں لانا چاہ رہی۔سابق چئیرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ میڈیا کے مالکان نئے چینلز خرید رہے ہیں مگر ورکرز کو تنخواہیں نہیں دی جا رہیں،پورا ملک کارپوریٹ کلچر میں دھنس چکا ہے،سیاسی جماعتیں بھی بھی اس کارپوریٹ کلچر کا حصہ بن چکی ہیں۔آج نا معلوم خبر یںبھی سامنے آ رہی ہے،ایک وسیع تر اتحاد نہ بنایا تو یہ روش بڑھتی جائے گی،صحافیوں کے تحفظ کا قانون بننے سے کچھ نہیں ہو گا،یہاں قانون کو پوچھتا کون ہے؟آئین کا آرٹیکل19اظہار رائے کی آزادی کی ضمانت ہے،پانچ ویج بورڈ کھا لئے گئے مگر ڈکار بھی نہیں مارا،جب لوگ آئین کی پرواہ نہیں کرتے تو ایکٹ آف پارلیمنٹ کو کون پوچھے گا،جب آئین کے مطابق این ایف سی ایوارڈ نہیں آیا توویج بورڈ ایوارڈ کو کون پوچھے گا۔ اس ماحول میں کسی کو بھی ڈپریشن ہو سکتی ہے لیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ ہم اپنی جدوجہد کا مقصد فراموش کردیں۔ریاست کے پاس وقت ہے،ہم تصادم نہیں چاہتے۔ فرحت اللہ بابرنے کہا کہ تین مئی صحافیوں کے دکھ سکھ کا دن ہے،گزشتہ پانچ سالوں میں 26صحافی فرائض کے دوران شہید ہوئے جبکہ ایک بھی مقتول صحافی کے قاتل کو سزا نہیں ہوئی اورکیسز لواحقین کی طرف سے درج کئے گئے،کسی بھی مالک کی طرف سے مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ ففتھ جنریشن کے نام پر ریگولیشن کا ایک نیا ڈھانچہ بن رہا ہے،میڈیا کو لاپتہ افراد بالخصوص لاپتہ کرنے والوں کے بار ے میں بات کرنے کی اجازت نہیں ہو گی،قبائلی علاقہ جات اور فاٹا میں بنے عقوبت خانوں کے بار ے میں بات نہیں کر سکیں گے،اوراگر اس میکنزم کیخلاف ورزی ہوگی تو آپ لاپتہ ہوں گے۔فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اگر آپ ایسا کرو گے تو سوشل میڈیا پر کمپین چلیں گی،انہوں نے کہا کہ سیفٹی اینڈ سکیورٹی کا بل پارلیمنٹ میں ٹیبل ہونے تک صحافیوں کو پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دینا چائیے۔انہوں نے کہا کہ صحافیوں کی تنظیمیں ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہیں،اب گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔اس موقع پر رہنما جماعت اسلامی میاں محمد اسلم نے کہا کہ جمہوریت اور صحافت معاشرے کی خدمت کے ادارے ہیں ،فرد ظلم برداشت کرے تو معاشرہ مردہ ہوجاتاہے۔پاکستان میں ہمیشہ صحافت کی آواز کودبانے کی کوشش کی گئی ،جبکہ جماعت اسلامی نے ہر مرحلے پر میڈیا کا ساتھ دیا ہے۔