انساں کی خبر لو کہ جو دم توڑ رہا ہے

مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی والی بات پوری ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ ایک دن میں 47 اموات کا ریکارڈ قائم ہوا ہے۔ دنیا میں 165000 لوگ جانوں سے گئے ہیں۔ کل مذاہب عالم کی عبادت گاہیں خالی خالی ہیں۔ مومنوں کو اجتماعی توبہ کا حکم ہے مگر اجتماعیت کہاں؟ شاید فاصلوں میںپنہاں قربتیں ہیں شایدپہلی عید آ رہی ہے جب معاتقے نہیں ہوں گے گلے نہیں ملیں گے جیسے عید کارڈ ناپید ہوئے اسی طرح گلے تو کیا ملنا ہے، ہاتھ ملانے سے بھی گئے ایسٹر پر چرچ خالی تھے تو یہودیوں کے ٹیمپل بھی خالی مندر اور سکھوں کی سمادھیاں بھی گوردوارے ویران مشرکین کافرین فاسقین منافقین کتنے خوش ہیں کہ کعبے میں بھی مواحدین دکھائی نہیں دیتے خدا پرستوں اور بت پرستوں میں خطِ امتیاز واضح دکھائی دینا چاہئے تھا احتیاط اپنی جگہ لیکن مسلمان موت سے نہیں ڈرتا ٹینکوں کے نیچے بم باندھ کر لیٹنے والے جام شہادت پینے والے صرف غلامانِ محمدؐ ہی ہو سکتے ہیں۔ کرونا کی آڑ میں بھارتی مسلمان نشانے پر ہیں موت کے بقایا اسباب تو جوں کے توں ہیں لوگ قتل نہیں ہو رہے۔ ڈاکے ناپیدتو نہیں ہوئے کونسا دن جاتا ہے جب گلے پر ڈور نہیں پھرتی بڑے سے بڑے جرائم کے شوقین کورونا کو اپنی جوتی کی نوک پر رکھتے ہیں۔ بدقسمتی سے تمام تر بدانتظامی اور ناکامی کا ملبہ مساجد پر ڈالا گیا مساجد کے حکمران بھی ایس ایچ اوز ہو گئے جنہوں نے نماز جمعہ بند کرانے کے لیے بحکم SHO کے حکم نامے کے ساتھ موٹے تالے لگوائے ۔ حکومتی کارکردگی صرف میڈیا پر ہے۔ لاک ڈائون کا تضاد دنیا دیکھ رہی ہے۔ ایک دکان بند تو تیسری دکان کھلی ہے۔ ناکے بھی ہیں ٹریفک بھی رواں دواں ہے۔ وزیر اعلیٰ خود گاڑی چلا کر کوتوالِ شہر کی طرح بچشم خود ٹریفک اور رش ملاحظہ کر چکے۔ پابندی کے باوجود پتنگ ساز، پتنگ باز اور پتنگ فروش باز کیوں نہ آئے؟ منشیات فروش گراں فروش ٹس سے مس نہ ہوئے۔ بازار حسن اور جوئے کے اڈوں پر کسی SHO کے حکم نامے اور موٹے موٹے تالے کیوں نہ نظر آئے؟ نماز جمعہ کے بھرپور اجتماعات ہوں گے تو منبر و محراب کا کردار سامنے آئے گا۔ اسلام مخالف اور سیکولر عناصر کی خوشی دوچندہو گی کہ حرمین شریفین میں تراویح نہ ہو عمرہ اور حج مفقود ہو جائے مساجد دکھائی دیں لیکن تالوںکے ساتھ تراویح اور نماز عید بھی گھر پر ہو جائے لائوڈ سپیکرز سے چند اچھی باتیں کانوں میں پڑنی بند ہو جائیں۔ سیاسی خوشامدی لائوڈ سپیکرز کھلے رہیں۔ اسلام کی شان شوکت مساجد مدارس اور باجماعت نماز سے ہے ۔ ابھی تو محرم الحرام بھی آئے گا۔ اس سے پہلے قربان گاہیں بھی آباد ہونی ہیں۔ کیا مجالس عزا بھی مؤخر ہوں گی اور سب سے بڑھ کر عزاداری بھی لاک ڈائون ہو گی ۔ کیا زندگی ایمان یقین توکل سب کورونا کے سامنے ہتھیار ڈال دیں گے۔ کیا اس بلا کی رخصتی کی تاریخ کوئی بتا سکتا ہے؟ کہاں گیا علمِ نجوم؟ ایٹمی قوتیںکورونا کے سر پر کوئی کیمیکل ہتھیار کوئی ڈرون حملہ کیوںنہیں کرتیں کیا۔ ایٹمی ہتھیار بھی اس بلائے ناگہانی کے سامنے بے بس ہیں؟ کیا سارے جنگی ہتھیار فلسطینیوں ، کشمیریوں ، عراقیوں، شامیوں ، افغانیوں کے لیے ہیں؟ نئے نیب ترمیمی آرڈیننس کی تیاری جاری ہے۔ دسمبر 2019ء میں جاری آرڈیننس کی میعاد مکمل ہو چکی ، نیب کو پھر وہی اختیارات حاصل ہو گئے، تاجروں ، بیورو کریسی کو خطرات کا سامنا ہے۔ گندم ، آٹا بحران میںمرکزی کردار کی تلاش جاری ہے۔ فلور ملز ایسوسی ایشن نے دگنے کوٹے کے باوجود اوپن مارکیٹ سے 20 لاکھ میٹرک ٹن گندم خریدی۔ پنجاب نے گندم حصول کا ہدف پورا کئے بغیر 8 لاکھ میٹرک ٹن گندم پولٹری ایسوسی ایشن کو جاری کی۔ اٹھارویں ترمیم اور NFC ایوارڈ تبدیل کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ صوبائی حکومتوں تک تو اختیارات پہنچ گئے لیکن مقامی حکومتوں کو نہیںملے۔ چینی سکینڈل کے پردے کھلتے جا رہے ہیں۔ 15 ماہ میں قرضوں میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ FRDLA کے تحت حکومت GDP کا 60 فیصدسے زیادہ قرضے نہیں لے سکتی۔ اس وقت مجموعی قرضے 84.8 فیصد جبکہ حکومتی قرضے 76.6 فیصد ہیں۔ 1960 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنا ہیں۔ بیرونی قرضے 105 ارب ڈالرہیں۔ امریکہ نے بھی ڈسکائونٹ ریٹ کم کرکے صفر کردیا ہے۔ جبکہ ہمارا 9 فیصد پالیسی ریٹ صنعتوں کو دیوالیہ کی طرف لے جارہا ہے ۔زرمبادلہ کے ذخائر 17.3 ارب ڈالر ہیں، جی ایس ٹی 17 فیصد سے 5 فیصد لانے کی ضرورت ہے، 20 کلو آٹا تھیلے کی قیمت میں 13 روپے اضافہ ہوا ہے، سو کلو بوری کی قیمت 35 سو سے بڑھ کر 38 سو روپے ہوگئی ہے۔ گندم کی قلت کیوں؟ کا جواب کون دے گا، کرونا سے 80 فیصد سے زائد انڈسٹری بند ہے۔ 60 سے 65 فیصد برآمدات کا حصہ دار ٹیکسٹائل سیکٹر مکمل طور پر بند ہوگیا ہے۔ پاکستان اقتصادیات کا ممکنہ حجم 13171 ارب حاصل نہیں کرسکے گا۔ شوگر انڈسٹری میں بدعنوانی اور ہیراپھیری اس سے کہیں زیادہ ہے جتنی بتائی جاتی ہے۔ 16 ماہ کے دوران چینی کی قیمتیں 23 سے 27 روپے فی کلو بڑھا کر صارفین سے 120 ارب ہتھیا لئے گئے۔ شوگر مل مالکان نے 5 سال میں براہ راست کوئی انکم ٹیکس نہیں دیا بعض نے تو خسارہ ظاہر کرکے 8 ارب کے ری فنڈ حاصل کئے۔ گداگروں کی طرح بغیر سرمایہ کاری کے منافع ہی منافع کمانا مڈل مین کا شغل ہے۔ کرونا کے پیچھے دوڑنے والے حریص پھل اور سبزی فروشوں کی ریڑھیاں کیوں نہیں الٹا دیتے۔ لاک ڈائون کریک ڈائون جیسے لفظوں سے چڑ ہونے لگی ہے کوئی بھی ایک قوالی اور گانا دن میں کئی بار سننے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔ تجارتی اخلاقیات سے تاجر نابلد ہیں لاک ڈائون وہ قمیص ہے جس کے آدھے بٹن کھلے اور آدھے بند ہیں۔ پاور سیکٹر سے لے کر آٹے چینی تک قدم قدم پر مافیاز ہیں گداگروں راشن لے کر بازار میں فروخت کرنے والے احساس پروگرام زکوٰۃ خیرات صدقات کے فیض یافتگان بھی مافیا ہیں۔
٭…٭…٭

پروفیسر خالد محمود ہاشمی

ای پیپر دی نیشن