جان لیوا وائرس ’’کرونا‘‘ احتیاط اور علاج

کرونا وائرس سے پھیلنے والی بیماری کو COVID-19 کانام دیاگیا ہے۔ اس وائرس کی مختلف Strains انسان کے علاوہ مختلف جانوروں میں بھی پائی جاتی ہیں جن میںبلی ، کتا ، چمگادڑ، اونٹ اور سانپ وغیرہ شامل ہیں۔ یہ وائرس جس کو (SARS-CoV-2) (Severe Acute Respiratory Syndrome Corona Virus 2) بھی کہا جاتا ہے۔ یہ وائرس 30 ہزار نیوکلیوٹائڈز (Neucleotides) پر مشتمل ہے۔ اس میں ستائیس مختلف پروٹینز ہیں اور یہ وائرس اپنی Spike پروٹین کے ذریعے انسانی خلیہ (Cell) کے اوپر موجود اے سی ای ٹوریسیپٹر(ACE2 Receptor) کے ساتھ منسلک ہوتا ہے اور پھر انسانی خلیہ کے اندر داخل ہو کر اس بیماری کی وجہ بنتا ہے۔
COVID-19 بیماری کی ابتدا دسمبر 2019ء میں ووہان چین سے ہوئی اور کرونا وائرس کے انفیکشن سے مرنے والے پہلے مریض کی تصدیق چین کی حکومت نے11 جنوری 2020ء میں کی اور اُس کے بعد یہ بیماری انتہائی تیزی کے ساتھ پھیلی اور پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا سوائے انٹارکٹکا (Antarctic) کے۔
اُس کے بعد فروری 2020ء میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) نے اس کو عالمی وبا کا درجہ دے دیا۔ یہ وبا اب تک دنیا میں 22 لاکھ 70 ہزار انسانوں کو متاثر کر چکی ہے اور اس کی وجہ سے ایک لاکھ 55 ہزار اموات ہو چکی ہیں جبکہ 5 لاکھ 82 ہزار لوگ اس سے صحت یاب ہو چکے ہیں۔ پاکستان میںاب تک اس وبا کی وجہ سے 7638 لوگ متاثر ہو چکے ہیں جبکہ اب تک 143 اموات واقع ہو چکی ہیں اور 1832 مریض صحت یاب ہو چکے ہیں۔
کرونا وائرس انسانی جسم میں داخل ہونے کے بعد ’’فلو‘‘ (Flu) بیماری سے مشابہ علامتیں ظاہر کرتا ہے لیکن عام فلو سے یہ علامتیںمختلف ہیں ، اس میںشدید بخار ، مسلسل خشک کھانسی اور پورے جسم میں درد شامل ہے۔ اس وائرس سے پیدا شدہ بیماری کی علامتیں ظاہر ہونے کا وقت ایک سے چودہ دن کا ہے لیکن اس کی خاص بات یہ ہے کہ انفیکشن کے ابتدائی 4 یا 5 دن میں کوئی علامت ظاہر ہی نہیں ہوتی اور انسان اس عرصے میں Carrier کے طور پر اس کو اپنے حلقۂ احباب میں مختلف طریقوں سے پھیلا چکا ہے۔ مثلاً (1) ہاتھ ملانا ، (2 ) بولنے کے دوران ہوا میں تھوک کے ذرات کا پھیلنا، (3) آنکھ کے اندر ہوا کے ذریعے وائرس کا چلے جانا شامل ہے۔ جب کرونا وائرس بیماری کا مریض بولتا ہے تو اُس کے بولنے کے دوران (Saliva Airosole) یعنی اُس کی تھوک کے قطرے بنتے ہیں جو کچھ دیر ہوا میں رہنے کے بعد کسی بھی چیز یا مختلف چیزوں پر گر پڑتے ہیں جس کی وجہ سے جو بھی دوسرا صحت مند شخص اُن چیزوں کو پکڑتا ہے یا چھوتا ہے وہ وائرس اُس کے ہاتھ پر لگ جاتا ہے اور جب ہم اُن ہاتھوں کو منہ پر لگاتے ہیں یا کسی سے ہاتھ ملاتے ہیں تو وہ وائرس ہمارے منہ اور ناک کے راستے ہمارے جسم کے اندر داخل ہو جاتا ہے۔ اس بیماری کا علاج ابھی تک دریافت نہیں ہوا لہٰذا اس کا بہترین حل صرف اور صرف احتیاط ہی ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ اس بیماری کی ابھی تک کوئی Vaccination میسر نہیں ہے جبکہ کچھ دوائیوں کے کلینیکل ٹرائل جاری ہیں اور اُمید کی جا سکتی ہے کہ آنے والے چند ماہ میں کوئی نتیجہ سامنے آ جائے۔ ان دوائیوں کے علاوہ ایک دوسری پرکشش طریقۂ علاج جس کی (FDA) Food Drug Administration نے منظوری دے دی ہے وہ Convalescent Plasma Therapy یا آسان الفاظ میںپلازمہ تھراپی ہے۔ اس طریقۂ علاج میں بلڈ پلازمہ کو اُن انسانوں سے حاصل کیا جاتا ہے جو اس بیماری سے صحت یاب ہو چکے ہیں۔ اس پلازمہ کو مریض کے جسم میں مختلف خوراکوں (Doses) میں داخل کرنے کے بعد مریض کے Immune System اور اُس کی صحت کی حالت کے مطابق مریض ایک ہفتہ کے اندر صحت یاب ہو جاتا ہے۔ بشرطیکہ اُس میں کوئی پہلے سے موجود بیماری Serious حالت میں نہ ہو۔
پاکستان میںاس طریقۂ علاج پر جلداز جلدکام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے حکومتِ پاکستان کے اقدامات قابل تعریف ہیں جنہوں نے فوری طور پر اس طریقۂ علاج کی منظوری دے دی ہے۔
پلازمہ تھراپی کا طریقۂ علاج کوئی نیا نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے 2015ء میں Ebola Virus کے لیے WHO اس طریقۂ علاج کی منظوری دے چکی ہے۔ یہ طریقۂ علاج اس کے علاوہ دوسرے وائرسز کے علاج میں بھی موثر ہے۔
ضرورت اب اس امر کی ہے کہ اس طریقۂ علاج کو تمام ہسپتالوں میں جلدازجلد نافذ کیا جائے کیونکہ ہمارے پاس وینٹی لیٹرز اور دوسرے طبعی آلات کی بہت کمی ہے اور اس طریقۂ علاج میں مریض کم وقت میں شفایاب ہو جاتا ہے اور یوں وینٹی لیٹرز اور طبعی آلات کی قلت کی وجہ سے درپیش مسائل کو احسن طریقے سے حل کیا جا سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...