قومی اقلیتی کمیشن ۔مولانا ستار نیازی اور شورش کاشمیری کی یادیں

سوشل میڈیا پر’’ فیس بک، وٹس ایپ اور یو ٹیوب‘‘ نے جہاں ہماری ثقافت اور روایات کو متاثر کیا ہے وہاں ہماری سماجی زندگی میں انقلاب برپا کر دیا ہے فیس بک کی ان اچھی باتوں میں ایک یہ بھی ہے فیس بک کے فرینڈز اپنے احباب کو نیکی کی ترغیب دے کر ان کو راہ راست پر چلنا سکھاتے ہیں فیس بک پر میرے دوست سید قیصر عباس جن کا شمار سینئر صحافیوںمیں ہوتا ہے میری توجہ مجاہد ختم نبوت مولانا عبد الستار خان نیازی ؒ کے یوم و صال کی طرف مبذول کرائی وہ 19سال قبل2001ء کو ہم سے جدا ہوئے. کالاباغ روڈ پر مولانا عبدالستار کو سپر خاک کیا گیا جہاں اب ان کی یاد ’’مجاہد ملت ‘کمپلیس تعمیر ہو گیا ہے جس کے کسٹوڈین حاجی محمد عطا اللہ خان اپنے چچا حاجی محمد اسلم خان روکڑی کی وفات کے بعد کسٹوڈین کے فرائض ادا کر رہے ہیں لوگ ان کے مزار حاضری دے کر اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہیںان کا مزار مرجع خلائق ہے میںنے سینٹر راجہ محمد ظفر الحق کے ہمراہ میانوالی میں ان کے مزار پر حاضری دی ہے جب وہ وفاقی وزیر مذہبی امور کے منصب پر فائز تھے ان سے مسلسل رابطہ رہتا تھا انہوں نے دینی جماعتوں کی مشاورت سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے قومی ضابطہ اخلاق تشکیل دیا تھا مرحوم نیازی ؒ نے فرقہ وارانہ دہشتگردی کو روکنے کے لئے ملی یک جہتی کونسل کے قیام میں اہم کردار ادا کیا کورونا وائرس کے باعث بڑے پیمانے پر تقریبات پر پابندی عائد ہے تاہم مجاہد ختم نبوت مولانا عبدالستار نیازی ؒ سے محبت کرنے سے والوں نے پورے ملک میں ان کے بلندی درجات کے لئے خصوصی دعا کا اہتمام کیا ہے ان سے محبت کرنے والوں میں ممتاز نعت خوان عبد الرزاق جامی بھی شامل ہیں جنہوں نے بحریہ ٹائون میں جامی ہائوس میں مولانا عبد الستار خان نیازی کے بلندی درجات کے لئے خصوصی دعا کا اہتمام کرایا ان کی وفات سے ایک ہفتہ قبل میانوالی میں ملاقات کی 1956ء میں مسجد وزیر خان میں ان کی ختم نبوت کے سلسلے میں پہلی تقریر سنی جس میں انہوں نے یہ شعر پڑھا
؎ شریعت کیا ہے اس دنیا میں اک اللہ سے ڈرنا
حضورخواجہ کونین کی عزت پر کٹ مرنا
کٹا کر گردنیں دکھلا گئے کربلا والے
کسی باطل کے آگے جھک نہیں سکتے خدا والے
نامور جرنیل حمید گل کی صاحبزادی عظمیٰ گل نے مجھے 1974ء کو قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کے بارے قومی اسمبلی کی کارروائی وٹس ایپ کی انہوں نے یہ کارروائی ایسے موقع پر بھجوائی ہے جب قومی اقلیتی کمیشن میں قادیانیوں کو شامل کرنے پر پورے ملک میں ایک ہنگامہ برپا ہے قادیانیوں کو قومی اقلیتی کمیشن میں شامل کرنے کی حکومتی کوشش پر سیاسی و دینی جماعتوں کی جانب شدید رد عمل کا اظہار فطری امر ہے تمام دینی مکاتب فکر نے جمعتہ المبارک کو ملک بھر یوم ختم نبوت منا کر حکومت کو یہ باور کرا دیا ہے عقیدہ ختم نبوت پر کوئی کمپرو مائز نہیں کیا جائے گا یہی وجہ ہے حکومت پسپائی پر مجبور ہو گئی ہے وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری خود میدان میں اتر آئے ہیں انہوں نے اس بات کی وضاحت بھی کر دی ہے کہ کسی قادیانی کو قومی اقلیتی کمیشن میں نمائندگی نہیں دی جا رہی اس کے ساتھ ہی انہوں نے کابینہ ڈویژن کو سمری بھجوائی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ’’ قادیانیوں کو قومی اقلیتی کمیشن میں شامل نہ کیا جائے‘‘ 17رکنی کمیشن میں 9اقلیتی ارکان کو شامل کیا جانا ہے جس کا رام کلوانی کو چیئرمین بنانے کی تجویز پیش کی گئی ہے قبل اس کے کہ ایک قادیانی کو اقلیتی کمیشن کا رکن بنانے کا نوٹیفیکیشن جار ی کر دیا جاتا دینی حلقوں کی جانب سے احتجاج پر حکومت نے قومی اقلیتی کمیشن سے قادیانی کا نام ہی ڈراپ کر دیا ہے وفاقی وزیر مذہبی امور پیرنور الحق قادری نے قومی اقلیتی کمیشن میں قادیانیوں کو نمائندگی دینے کی سختی سے تردید کی ہے اور کہا ہے کمیشن میں قادیانیوں کی شمولیت کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا قادیانی آئین اور دستور پاکستان کے مطابق غیر مسلم ہیں لہذا ان کو کسی بھی کمیشن یا کمیٹی میں بطور مسلم یا غیر مسلم نمائندہ شامل نہیں کیا جا سکتا،حکومت پاکستان کا موقف واضح ہے کہ’’ کسی بھی گروہ یا جماعت کو اسی صورت آئینی اور دستوری اداروں میں شامل کیا جا سکتا ہے جب وہ آئین اور دستور کو تسلیم کریں، قادیانی جماعت آئین اور دستور کو تسلیم کر کے ہی پاکستان کی کسی کمیٹی یا کمیشن میں شامل ہو سکتی ہے پاکستان کا آئین اور دستور سپریم ہے‘‘
۔ پاکستان میں جب بھی فتنہ قادیانیت سر اٹھتا ہے تو تحریک ختم نبوت میں صف اول میں حصہ لینے والے رہنمائوں سید ابواعلیٰ مودودیؒ، مولانا عبدالستا ر خان نیازی ؒ، مفتی محمود ؒ، مولانا شاہ احمد نورانی ، آغا شورش کاشمیریؒ،مولانا تاج محمود ؒ کی بہت یاد آتی ہے ان جید شخصیات نے اپنے اپنے ادوار میں قادیانیوں کو اقلیت قرار دلوانے میں اہم کر دار ادا کیا اور پھر سب سے زیادہ کریڈٹ اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو جاتا ہے جنہوں کسی دبائو کی پروا کئے بغیر قادیانیوں کو اقلیت قرار دے کر اس فیصلہ کو آئینی تحفظ دے دیا پچھلے 46سال سے قادیانی اس قانون کو تبدیل کرنے کی سازشیں کرتے رہتے ہیں لیکن پاکستان کے دینی طبقہ کے بیدار ہونے کی وجہ سے وہ آج تک اپنے عزائم میں کی تکمیل میں کا میاب نہیں ہوئے سید ابو اعلیٰ مودودی ؒ اور مولاناعبد الستار خان نیازی ؒ کو قادیانیوں کو اقلیت قرار دلوانے کی 1953ء کی تحریک میں سزائے موت سنائی گئی لیکن انہوں نے فوجی عدالت سے رحم کی اپیل کرنے سے انکا رکر دیا مولانا عبدالستار خان نیازی پر جیل میںمظالم ڈھائے گئے ان پر سانپ چھوڑے گئے اور تشدد کیا گیا لیکن انہوں نے قادیانیوں کو اقلیت قرار دلانے کی تحریک سے اپنے آپ کو الگ نہیں کیا وہ عمر بھر مولانا شاہ احمد نورانی کے رفیق رہے جنہوں نے1974 ء میں پارلیمان سے قادیانیوں کو اقلیت
قرار دلوانے میں اہم کردار ادا کیا مولانا عبدالستار خان نیازی عمر بھر اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے کوشاں رہے وقار انبالوی ؒ نے روزنامہ نوائے وقت میں مولانا عبدالستار خان نیازی کو درج ذیل منظوم خراج عقیدت پیش کیا تھا
ؔ ؔؔ ؎وہی سوز ساز رومی وہی پیچ و تاب رازی
کبھی چین سے نہ بیٹھا تو اے مولوی نیازی
نہ وہ بزم میں بلائیں نہ تو ان کی بات مانے
وہی ان کی بے رخی ہے وہی تیری بے نیازی
اللہ کی شان کہ1974ء میں قومی اسمبلی میں فتنہ قادیانیت پر مفتی محمود ؒ کو ایوان کی ترجمانی کا شرف ملا اور مفتی محمودؒنے راتوں کو جاگ جاگ کر مرزا غلام قادیانی کی کتابوں کا مطالعہ کیا۔13 ایام کے سوال و جواب کے بعد جب فیصلہ کی گھڑی آئی تو 22 اگست1974 کو اپوزیشن کی طرف سے 6 افراد پرمشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی۔جس میں مفتی محمود، مولانا شاہ احمدنورانی،پروفیسر غفور احمد ،چودہری ظہور الہی ‘ غلام فاروق ، مولا بخش سومرو اور وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ کو شامل کیا گیا ۔22 اگست سے 5 ستمبر 1974 ء کی شام تک اس کمیٹی کے متعدد اجلاس منعقد ہوئے۔مگر متفقہ حل کی صورت نہ نکلی 6 ستمبر1974ء کو وزیراعظم ذوالفقار بھٹو نے مفتی محمود سمیت پوری کمیٹی کے ارکان کو پرائم منسٹر ہائوس بلایا۔لیکن یہاں بھی بحث و مباحثہ کا نتیجہ صفر نکلا۔حکومت کی کوشش رہی کہ دفعہ 106 میں ترمیم کا م مسئلہ رہنے دیا جائے۔جب کہ مفتی محمود صاحب اور دیگر کمیٹی کے ارکان دفعہ 106میں قادیانیوں کو شامل کروانا چاہتے تھے اس طرح پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں قادیانیوں کو اقلیت کی حیثیت سے رکنیت دینے کا ذکر کر دیا گیا 7 ستمبر 1974 پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا وہ یادگار دن تھاا جب 1953 اور1974ء کے شہیدانِ ختم نبوت کا خون رنگ لایا قومی اسمبلی نے عقیدہ ختم نبوت کو آئینی تحفظ دے کر قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا۔دستور کی دفعہ 260 میں اس تاریخی شق کا اضافہ یوں ہوا ہے۔
’’جو شخص خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی ختم نبوت پر مکمل اور غیرمشروط ایمان نہ رکھتا ہو۔اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کسی بھی معنی و مطلب یا کسی بھی تشریح کے لحاظ سے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کرنے والے کو پیغمبر یا مذہبی مصلح مانتا ہو۔وہ آئین یا قانون کے مقاصد کے ضمن میں مسلمان نہیں۔اگرچہ پاکستان کی پارلیمنٹ نے1974 میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا تھا جب کہ مجاہد اول سردار محمد عبد القیوم خان کے دور صدارت میں یہی فیصلہ 1973میں کیا تھا قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کی قرار داد میجر(ر) محمد ایوب خان نے پیش کی تھی گذشتہ اسمبلی میں پیرمحمد عتیق الرحمنٰ فیض پوری نے قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کے لئے قرار داد منظور کرائی تھی جب کہ موجودہ اسمبلی میں اس تحریک کے محرک پیر سید محمد علی رضا بخاری اور راجہ محمد صدیق خان(اٹک) تھے وزیر اعظم آزاد جموںو کشمیر راجہ فاروق حیدر کو اس بات کا اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے اس فیصلہ کو قانونی شکل دی میرا آغا شورش کا شمیری ؒ سے عمر بھر قریبی تعلق قائم رہا جب وہ شمالی پنجاب اور خیبر پختونخوا کے سفر کا ارادہ کرتے تو مجھے اور سینئر قانون دان اصغر حسین سبزواری کو بلا لیتے مجھے آغا شورش کا شمیری ؒ کے ہمراہ ولی باغ چارسدہ میں باچہ خان سے ملاقات کا موقع ملا ہے اسی دور میں آغا شورش کاشمیری کی وساطت سے نوابزادہ نصر اللہ سے بھی تعلق قائم ہوا برصغیر پاک ہند آغا شورش کا شمیری کو’’ مجاہد ختم نبوت ‘‘ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے انہوں نے اپنی تحریرو تقریر کے ذریعے’’ فتنہ قادیانیت‘‘ کا تعاقب کیا مجھے ممتاز لیاقت کے ہمراہ 1974ء میں آغا شورش کا شمیری کا ’’فتنہ قادیانیت ‘‘ پر ’’عجمی اسرائیل ‘‘ کے نام سے انگریزی ، عربی اور فرانسیسی زبان لکھی ’’کتاب ‘‘ وفاقی دار الحکومت اسلام آباد میں غیر ملکی سفارت خانوں میں تقسیم کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے ہمیں ’جب کبھی کہیں سے ’’ عقیدہ ختم نبوت ‘‘ پر کوئی حملہ ہوتا ہے تو آغا شورش کاشمیری کی بہت یاد آتی ہے آج بھی پارلیمنٹ کا ایوان ہو یا لیاقت باغ ، موچی گیٹ ’’ زندہ ہے شورش زندہ‘‘ کے نعروں کی گونج سنائی دیتی ہے . مجید نظامیؒ اور آغا شورش کاشمیریؒ کی مثالی دوستی تھی انہوں نے لاہور میں اسلام ، پاکستان اور جمہوریت کا مضبوط مورچہ لگایا اور قادیانیوں کا تعاقب کیا آغا صاحب مولاناظفر علی خان ؒاور سید عطااللہ بخاریؒ کی تحریروں کے محافظ تھے لیکن خود مولانا ظفر علی خان انہیں وقت کا رستم قرار دیتے تھے۔اصل نام عبدالکریم تھا الفت تخلص تھا لیکن طبعیت کی شورش نے انھیں شورش کاشمیریؒ بنا دیا۔ انھوں نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرارد ینے میںاہم کردار اد کیااور ذوالفقار علی بھٹو کو قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کا مشورہ دیا اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے ہفت روزہ چٹان کی بندش پر بھاری معاوضہ کی پیشکش کی گئی تو انہوں نے ختم نبوت کے لئے دی گئی قربانیوں کا سودا کرنے انکار کر دیا ۔آئین پاکستان میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دئیے جانے پر اپنا حق ادا کیا ۔ امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ایک لابی قادیانیوں کو چور دروازے سے حکومت میں داخل کرنے کی کوشش کر رہی ہے، مدینہ کی ریاست گفتار سے نہیں کردار سے ہونی چاہیے، جمعیت علما ء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے نے بھی کہا ہے کہ قادیانیوں نے 40سال گذرنے کے باوجود اقلیت قرار دینے کے فیصلے کو تسلیم نہیں کیا اب کس طرح انہیں سرکاری ادارہ میں اتنا اہم کردار دیا جا سکتا ہے یہ اقدام حکومت کی قادیانیت نوازی پر مبنی پالیسی کا نتیجہ ہے ْ سابق وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین نے زور دار انداز میں قادیانیوں کو قومی اقلیتی کمیشن میں شامل کرنے کی مخالفت کرکے حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور کر دیا ۔

ای پیپر دی نیشن