نظام قدرت انسان کے بنائے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کو نہیں مانتا اور نہ ہی دنیا میں آنے والی موسمی تبدیلیاں، قدرتی آفات اور وبائیں کسی سرمایہ دارانہ طاقت کے طابع ہوتی ہیں۔ ایک وائرس نے پوری دنیا کے سرمایہ دارانہ نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس وقت پاکستان کے پالیسی سازوں کی ساری توجہ کووڈ 19 پر ہے جو ایک بڑے مسئلے کا چھوٹا سا حصہ ہے۔ اس وقت دنیا میں عالمی درجۂ حرارت میں اضافے کا شور ہے، بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی اور فضا میں کاربن ڈائی آکسائڈ اور دیگر گرین ہائوس گیسوں کے اخراج سے عالمی درجۂ حرارت میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ تک اضافے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ درجۂ حرارت میں اضافے کی وجہ سے قطبین کے گلیشیئرز پگھل رہے ہیں، سطح سمندر میں اضافے سے بہت سے ساحلی علاقے سمندر برد ہو جائیں گے۔ ایک طرف موسمیاتی تبدیلیاں روکنے کے لیے بین الاقوامی معاہدے ہو رہے ہیں تو دوسری طرف امریکہ کا خلائی تحقیقات کا ادارہ ناسا اور خلائی موسموں پر نظر رکھنے والے سائنسداں کہہ رہے ہیں کہ سورج مدہم ہو رہا ہے۔ امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کے ڈیٹا گراف سے ظاہر ہوتا ہے کہ زمین کے درجۂ حرارت میں اضافے کے ساتھ ساتھ زمین پر پڑنے والی فی اسکوائر میٹرشمسی توانائی کی شرح میں کمی آ رہی ہے۔چار پانچ سال قبل جب نارتھمبریا یونیورسٹی کی پروفیسر ویلنٹینا زاہراکووا (Valentina Zharkova) نے سب سے پہلے اس بارے میں بات کی تھی تو لوگوں نے اس پر زیادہ یقین نہیں کیا تھا لیکن اب امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کی ویب سائٹ پر Solar minimum کی آمد کے بارے میں آرٹیکل پڑھے جا سکتے ہیں۔ پروفیسر ویلنٹینا نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ سولر منیمم کا گیارہ سالہ سائیکل 2019-20ء میں شروع ہو چکا ہے اور ’’چھوٹا برفانی دور‘‘ ختم ہونے میں 33 سال لگیں گے۔ جس کے نتیجے میں شمالی کرّہ ارض کا اوسط درجہ حرارت کم ہو جائے گا۔ 1645-1715ء کے برفانی دور میں انگلستان کا درجۂ حرارت 0.8 ڈگری سینٹی گریڈ کم ہو گیا تھا، اس دور میں یورپ کے دریا جم جایا کرتے تھے۔ تاہم اس وقت سے اب تک دنیا کے درجۂ حرارت میں ایک ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہو چکا ہے اس لیے درجۂ حرارت اتنا کم نہیں ہوگا۔ سورج کے سائیکل 1843ء میں دریافت کیئے تھے۔ سورج کے سائیکل 25 اور 27 کا درمیانی عرصہ کافی ٹھنڈا ہوگا۔ سورج کا ایک سائیکل 11 کا ہوتا ہے اور ہر گیارہ سال بعد یہ اپنے قطبین تبدیل کر لیتا ہے یعنی سورج کے قطبین کو اپنی پرانی پوزیشن پر آنے میں 22 سال لگتے ہیں۔ سورج کے مدھم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ زمین پر پڑنے والی فی اسکوائر میٹر شمسی توانائی کی مقدار میں کمی ہو رہی ہے۔ اس دور میں سورج ٹھنڈا نہیں ہوتا بلکہ اس کی مقناطیسی فیلڈز بند ہو جاتی ہیں اور سورج کے بہت بڑے علاقوں میں coronal holes. بن جاتے ہیں جہاں سے اٹھنے والے مقناطیسی طوفانوں کے ساتھ سورج کے ذرات بھی نکل جاتے ہیں۔ ان مقناطیسی طوفانوں کے دنیا پر بھی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔اس وقت سورج کی سرگرمی میں کمی کے اثرات موسموں پر نظر آنا شروع ہو چکے ہیں۔ان حالات میں قیاس کیا جا رہا ہے کہ زمین کا اوسط درجۂ حرارت 1790-1830ء کے سرد زمانے جتنا ہو جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ اگر سورج اپنے خاموش دور میں داخل ہو گیا ہے تو پھر عالمی درجۂ حرارت میں اضافے، قطبی گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے اور سطح سمندر بلند ہو جانے پر اتنا شور ہنگامہ کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب سائنسدانوں نے یہ دیا ہے کہ گہرے سمندروں کی تہہ میں ہزاروں آتش فشاں اور گہرے سمندر میں موجود دراڑوں سے دنیا کا سالانہ 75 فیصد لاوانکلتا ہے۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ گرم سمندر، ٹھنڈا آسمان اور قطب شمالی کے مقناطیسی مرکز کی پوزیشن میں تبدیلی برفانی دور کے آغاز کی واضح نشانیاں ہیں۔ برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کے مطابق قطب شمالی کے مقناطیسی مرکز کے مقام میں 1990ء سے ہر سال بڑی تبدیلی دیکھی جا رہی ہے اور یہ جغرافیائی قطب شمالی سے 390 کلومیٹر سائبیریا کی طرف ہٹ چکا ہے۔ مقناطیسی مرکز کے ہٹ جانے سے قطب نما میں 3 ڈگری کا فرق آ گیا ہے جو نیوی گیٹرز کے لیے خاصی پریشانی کا باعث ہے۔ ممکن ہے آئندہ برسوں میں یہ مقناطیسی مرکز اپنے محور سے مزید ہٹ جائے۔ اس تبدیلی کا مطلب یہ ہے زمین کے ترچھے زاویے میں تبدیلی سے بھی سردی کی شدت میں اضافہ ہو جائے گا۔ اگر گزشتہ برسوں کے دوران دنیا بھر میں بے موسم برفباری کے واقعات، خوفناک طوفانوں اور طویل موسم سرما پر نظر ڈال لی جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ قدرت ہمیں ایک بار پھرعالمی ٹھنڈ کی جانب دھکیل رہی ہے۔ دنیا کے گرم اور سرد زمانوں میں انسانی تہذیبیں بنتی اور مٹتی رہی ہیں۔ گرم ادوار میں تہذیبوں نے عروج پایا اور سرد زمانے میں اپنے دور کی ترقی یافتہ سمجھی جانے والی تہذیبیں قحط، وبائوں، آبادیوں کی منتقلی سے مٹ گئیں۔ رومن ایمپائر بھی موسموں کی تبدیلی کے باعث خوراک کی قلت، وبائوں، جنگوں اور آبادی کی منتقلی سے تباہ ہوئی تھی ۔ 1645-1715ء کے سرد زمانے میں جب یورپی لوگ بھوکے مرنا شروع ہوئے تو انہوں نے پہلے سے زیادہ بڑی زمین پر کاشت شروع کرنا شروع کی تھی، فن تعمیر اور انجینئرنگ میں برتری حاصل کی اور موسمی سختیوں سے نمٹنے اور طویل سفر کرنے کے قابل بحری جہاز بنائے تھے جو انہیں ایشیا، افریقہ اور امریکہ کے ساحلوں تک لے گئے تھے۔ یورپی لٹیروں نے محض اپنے برتر ہتھیاروں کے بل بوتے پر امریکہ کے مقامی لوگوں کا قتل عام کرکے زمینوں پر قبضہ کیا اورانہیں غلام بنایا تھا۔ جب کرسٹوفر کولمبس 1492ء میں امریکہ پہنچا تو وہاں کی مقامی آبادی 10 کروڑ سے زیادہ تھی لیکن طویل جنگوں اور امریکہ پہنچنے والے لاکھوں یورپی باشندی اپنے ساتھ انفلوئنزا، نمونیا، طاعون، خسرہ، ہیضہ، ملیریا اور چیچک جیسے وبائی امراض بھی لے کر گئے تھے، امریکی انڈینز کا مدافعتی نظام ان نئی بیماریوں سے نمٹنے کے لیے تیار نہ تھا لہٰذا یورپی اقوام سے طویل جنگوں، ان کی لائی ہوئی وبائوں اور موسمیاتی تبدیلیوں نے امریکی انڈینز کا وجود ہی تقریباً فنا کر دیا۔ فریبی یورپین جان بوجھ کر ہسپتالوں کے استعمال شدہ کمبل امریکی انڈینز کو دیا کرتے تھے تاکہ انہیں استعمال کرکے چیچک جیسی وبائوں میں مبتلا ہو کر مر جائیں۔ جنوبی امریکہ میں ایزٹیک، انکا اور مایا تہذیبوں کے کھنڈر ہی باقی بچے ہیں، جنوبی امریکہ کی یہ ریاستیں ہسپانوی حملہ آوروں کے ہاتھوں تباہ ہوئی تھیں۔ اس دور کے مغل ہندوستان کا دنیا کی معیشت میں 24 فیصد حصہ تھا۔ برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں اپنا قبضہ مضبوط بنانے کی کوشش کی تھی جس کے نتیجے میں 1686-1690ء تک کے عرصے میں اورنگ زیب عالمگیر اور برطانوی فوج کے درمیان پہلی اینگلو مغل جنگیں ہوئی تھیں جس کے دوران مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے حکم پر نہ صرف کمپنی کی تمام املاک ضبط کی گئیں بلکہ شکست کے بعد کمپنی کو ڈیڑھ لاکھ روپے جرمانہ بھی ادا کرنا پڑا تھا اور نئے معاہدے کے بعد کمپنی کو تجارت کا فرمان جاری کیا گیا تھا۔ مغلوں نے کبھی سمندری قوت بڑھانے اور ہندوستان سے باہر پائوں جمانے کی کوشش نہیں کی ورنہ مغلوں کے پاس اتنی دولت اور وسائل تھے کہ وہ یورپ کی تجارت اور زمین پر قبضہ کر سکتے تھے۔ 2014-2008ء تک کا دور ماڈرن میکسیمم کہلاتا ہے جس میں سورج اپنی پوری آب و تاب سے چمکتارہا ہے، اسی دور میں انسان نے ترقی اور تباہیوں کے نئے ریکارڈ قائم کیئے ہیں۔ ایشیا میں طویل جنگیں لڑ کر سفید فام اقوام کو یہ معلوم ہو گیا ہے کہ ہتھیاروں کی برتری سے کمزور ترین ملکوں کوکالونی بنایا گھاٹے کا سودا ہے۔ سمجھدار مغربی سرمایہ کاروں کودنیا کا معاشی مستقبل پہلے ہی ایشیا میں نظر آنے لگا تھا۔ جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ چین کا عالمی معیشت میں حصہ 15.5 فیصد اور امریکہ کا حصہ 23.6 فیصد تھا لیکن کووڈ 19 کے بعد 2020ء کی معاشی نمو کے سارے اندازے غلط ہو گئے ہیں۔ وبائی مرض اور موسم کے بگڑتے تیوروں سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ترقی یافتہ مغربی ممالک ایک بڑی مشکل میں پھنسنے جا رہے ہیں۔ اس وقت جس طرح امریکہ کورونا وائرس پھیلانے اور جنوبی بحیرہ چین کی ملکیت کے مسئلے پر جس طرح چین کے خلاف اتحاد بنانے جا رہا ہے اس سے لگتا ہے کہ سفید فام سرمایہ دار عالمی معیشت میں اپنی بالادست حیثیت کھونے پر آمادہ نہیں ہیں۔ پاکستان عالمی ٹھنڈ کے اثرات سے محفوظ نہیں رہے گا جس کے نتیجے میں پاکستانیوں کو طویل موسم سرما، خشک موسم گرما اور بے وقت بارشوں کا سامنا کرنا پڑے گا، جس کی وجہ سے فصلیں خراب ہوں گی۔ اس وقت بھی کئی علاقوں سے گندم کی فصل خراب ہونے کی اطلاعات آ رہی ہیں لہٰذا ہمیں نہ صرف فصلوں کی بوائی کے وقت پر نظر ثانی کرنا پڑے گی بلکہ جدید گرین ہائوس بنانے کی طرف بھی توجہ دینا ہوگی۔ ڈینگی مچھر طویل گرم اور مرطوب موسم کے ساتھ آیا تھا لہٰذا مستقبل میں موسمی بیماریوں کے انداز بھی بدل جائیں گے۔ موسم بدلنے سے توانائی کی ضروریات کے رجحانات بھی بدل جائیں گے۔ اکیسویں صدی کے آغاز پر یہ بتا دیا گیا تھا کہ آئندہ برسوں میں کم بجلی خرچ کرنے والی ٹیکنالوجیز عام ہو جائیں گی۔ پاور پلانٹس کی بجلی صرف صنعتی اور تجارتی مقاصد کے لیے استعمال ہو گی اور تمام رہائشی یونٹس اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے خود کفیل ہوں گے۔ جرمنی میں مکانوں کو تیزی سے سولر پاور پر منتقل کیا جا رہا ہے لیکن پاکستان میں اب تک ایسی کوئی پالیسی متعارف نہیں کروائی گئی ہے جس سے لوگوں کو گھروں پر سولر پینلز لگانے اور ضرورت سے زیادہ بجلی گرڈ کو فروخت کرنے کی حوصلہ افزائی ہو۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کراچی میں گھریلو صارفین سے 5k میٹر لوڈ کی بنیاد پر انڈسٹریل ریٹس کے برابربجلی کے نرخ وصول کیئے جا رہے ہیں۔
سورج ہوا مدہم
May 04, 2020