چیتے پالنے کا شوق

May 04, 2020

حال ہی میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کا مضمون نظر سے گزرا جس میں انہوں نے کہا کہ ان کے دور میں جس سب سے بڑی قدرتی آفت کا ان کی حکومت کو سامنا کرنا پڑا وہ ۲۰۰۵ کا زلزلہ تھا اور اس سے نمٹنے کے لئے انہوں نے ایک ایسا ادارہ تشکیل دیا جو مستقبل میں بھی کسی آنے والی آفت کا مقابلہ کرسکے۔منظم اور مہذب ملکوں میں ایسا ہی ہوتا ہے اور پھر اس قسم کے اداروں میں توسیع کی جاتی ہے اور ان کے پاس ضروری ساز و سامان کی دستیابی کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ شوکت عزیز کے دور میں بنے ادارے نے اس کے بعد پاکستان میں آنے والے ۲۰۰۹ اور ۲۰۱۰ کے سیلابوں میں بھی اپنا کردار ادا کیا اور ہونا تو یہی چاہیئے تھا کہ جب یہ نئی اور انتہائی خوفناک وبا یعنی کرونا کا حملہ ہوا تو فور طور پر اس ادارے کو سامنے لایا جاتا اور اسے تمام ضروری سامان سے لیس کرکے اس وبا سے مقابلے کے لئے تیار کیا جاتا اور پورے ملک میں ایک منصوبے اور ایک ادارے کے زیر سائے ہم کرونا کا مقابلہ کرتے۔جیسا ہم اور آپ جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوا اور پہلے دن سے ایک افراتفری کی صورت حال ہے جس میں خاص طور پر مرکز اور صوبہ سندھ نہ صرف ایک ورق پر نہیں بلکہ ایسا لگتا ہے کہ متصادم ہیں۔سندھ میں مرکز کے نمائندے یعنی گورنر سندھ نے بھی پہلے روز سے ایک تصادم کی فضا کی حوصلہ افزائی کی جس سے اندازہ ہوا کہ مرکز سندھ کے عوام کو کرونا سے بچانے کے بجائے اس موقع کا سیاسی فائدہ اٹھانے میںزیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔گورنر صاحب نے تو تمام حدود و قیود کو پھلانگ کر سندھ حکومت کیخلاف ایک قسم کا محاذ کھول دیا جس کا رخ آخر کار جھلا کرسندھ کے عوام کی جانب کردیا گیا اور گورنر صاحب نے اپنی کرونا کی بیماری کا ذمہ دار سندھ کے بقول ان کے جاہل عوام کو ٹھہرا دیا۔نہ جانے یہ اس قدر اونچے اور پر وقار عہدوں پر فائز حضرات اپنے منصب کے مطابق رویوں کا اہتمام کیوں نہیں کرتے اور کوئی بات کہنے سے پہلے اس کے مضمرات پر غور کیوں نہیں کرتے۔ظاہر ہے اس قسم کی جملہ بازی سے سندھ کی فضا مکدرہوگئی اور اور حکام بالا کرونا سے نپٹنے کے بجائے گورنر سندھ کے بیان سے پیدا ہونی والی بے چینی کے سد باب میں لگ گئے۔تاحال فضا کشیدہ ہے اور ایک ایسے وقت میں جب مرکز اور صوبوں کے درمیان بے مثال ہم آہنگی وقت کا تقاضہ ہے یہ ناخوشگوار صورت حال لوگوں کی جانوں کو خطرے میں ڈالنے کا باعث بن رہی ہے۔آپ سوچ رہے ہونگے کہ اس قسم کی صورت حال میں مرکزی حکومت اور خاص طور پر وزیر اعظم ان معاملات میں فوری مداخلت کرکے حالات کو سنبھالیں گے مگر یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ایک طریقہ حکومت ہوتا ہے جسے کہتے ہیں مشاورت کے ساتھ حکومت اور دوسرا طریقہ ہوتا ہے تصادم کے ساتھ حکومت۔ موجودہ حکومت نے تو اب تک یہی پیغام دیا ہے کہ وہ اوپر سے لے کر نیچے تک حکومت بطریقہ تصادم میں ہی یقین رکھتے ہیں اور اسے ہی مستقبل میں اپنی کامیابی کی ضمانت سمجھتے ہیں۔گورنر صاحب نے تو سندھ کے نامعلوم عوام پر پھبتیاں کسی تھیں مگر ان کی پارٹی کے سر براہ اور وزیر اعظم پاکستان نے تو گھر بلا کر اپنے معزز مہمانوں کے ساتھ جو سلوک کیا اس کی نظیر نہیں ملتے۔متعلقہ حضرات نے بعد میں اپنے رویئے کی معافی مانگ لی مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اسلام میں گھر آئے ہوئے مہمان کی بڑی اہمیت اور اس کی عزت کرنے کے واضح احکامات موجود ہیں جن کی اس تقریب کے دوران دھجیاں بکھیر دی گئیں۔ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ کرونا کی اس وبا کے دور میں بھی مرکزی حکومت نہ تو کسی صوبائی حکومت اور نہ ملک کے با اثر طبقوں کو ساتھ لے کر چلنے پر تیار ہے اور ایک ایسے موقعے پر جب قومی ہم آہنگی وقت کی اہم ضرورت ہے اس کا محور صرف اور صرف کسی طرح دوسروں کی بیساکھیوں پر کھڑی اپنی جماعت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنا ہے اور جیسے ہمارے وزیر اعظم پہلے ہی اپنی پارٹی کے کارکنوں کو بتا چکے ہیں کہ یہ سنہری موقع ہے اور ساری امدادی کارروائی آپ کے مبارک ہاتھوں سے کرائی جائے گی تو بس لگ جائیں اور اگلے انتخابات کے لئے اپنی بنیادیں ریاست کے فراہم کردہ فنڈ اور راشن تقسیم کرکے مضبوط کریں۔ پاکستان کی تاریخ میں شاید کسی بھی سیاسی سربراہ حکومت نے اس طرح کھلم کھلا انسانی خدمت کو سیاسی فائدے کے لئے استعمال کرنے کا مشورہ اپنی جماعت کے لوگوں کو نہیں دیا مگر اور کوئی تبدیلی آئی ہو یا نہ آئی ہو اس قسم کے بے لاگ اور بلا اصول مشوروں کی تبدیلی ضرور آچکی ہے اور اس پر عمل بھی ہورہا ہے۔ شوکت عزیز کے زمانے میں بننے والی سرکاری تنظیم جس کا کام ہی قدرتی آفات سے نمٹنا ہے اسے تو ایک طرف کردیا گیا اور اس کی جگہ حکمراں جماعت کے متوالوں پر مبنی ٹائیگر فورس بے چین ہے کہ حکومتی وسائل کا بے دریخ استعمال کرکے پچھلے ڈیڑھ سال میں جو ناکامی اور بدنامی کا سامنا کرنا پڑا ہے اس کا سد باب کیا جائے۔ابھی تک اس فورس کے بارے میں کوئی قانون سازی نہیں کی گئی۔ اس فورس کی سربراہی تو وزیر اعظم کے معاون خاص برائے نوجوان عثمان ڈار کے حصے میں آئی ہے مگر یہ نہیں معلوم کہ اس فورس کے اختیارات کیا ہونگے اور یہ کس قانون کے تحت کام کرے گی خاص طور پر جہاں کہا جارہا ہے کہ یہ مساجد میں نمازیوں کے درمیان فاصلے برقرار رکھنے کا بھی کام کرے گی۔ اس قسم کے کاموں میں جس میں عوام کے ساتھ رابطہ ہو کسی نہ کسی قانون کا سہارا لینا پڑتا ہے تاکہ عوام احکامات کو سن کر ان پر عمل کریں۔ اگر ایسا نہیںہوگا تو پھر روز مرہ کی مار دھاڑ تھانہ کچہری وغیرہ سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ اسی لئے لگتا ہے کہ سندھ حکومت نے تو ان چیتوں کو کھپانے سے معذرت کرلی ہے اور کہا ہے کہ سندھ میں کسی انتظامی امور میں کسی بھی قسم کی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی اور ساتھ ہی ساتھ وفاقی حکومت کے یہ بھی گوش گزار کر دیا گیا ہے کہ سندھ حکومت کے پاس پہلے ہی صوبائی محکمہ آفات کی نفری موجود ہے اور ساتھ ہی ساتھ نوجوانوں کی پارلیمنٹ کے ممبران بھی اس کے لئے کام کرتے ہیں اس لئے لگتا ہے چیتے سندھ میں ذرا کم سرگرم ہونگے۔ یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ پھر سندھ گورنر ہائوس ان چیتوں کا مسکن بن جائے اور ایک ایسے موقعے پر جب سندھ حکومت ساری توانائیاں کرونا کے خلاف استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اسے فضول محاذ آرائی میں الجھایا جائے۔ کسی بھی نظر سے دیکھیں یہ چیتے کسی بھی طرح سے ایک فائدہ مند سودا نہیں لگتا خاص طور پر جب یہ کسی بھی قانون سے مادر پدر آزاد اور صرف کچھ اخباری اور ٹی وی اعلانات سے ہی اپنی ذمہ داریاں اوراختیارات حاصل کرتے ہوں۔ ظاہر ہے جب یہ کپتان کا نام لے کر نکلیں گے تو سمجھیں گے کہ بس ان کے پاس اختیار کل ہے اور خاص طور پر جہاں کپتان کی حکومت ہے وہاں کس کی مجال ہوگی کہ انہیں روک ٹوک سکے۔ اب قیاس یہ کیا جارہا ہے کہ یہ دس لاکھ کی نئی نویلی رضاکاروں کی فوج ایمانداری کے ساتھ راشن بھی تقسیم کرے گی پیسے بھی بانٹے گی اور کرونا کے اصول بھی نافذ کرے گی۔ میرے خیال میں کپتان کو یاد نہیں رہا کہ ان کی ایک تقریب میں ہی کچھ روز پہلے ایک مشہور عالم دین نے پاکستانی قوم کے بارے میں کن خدشات کا اظہار کیا تھا۔اگر قابل احترام مولانا کی بات درست ہے تو پھر تو دس لاکھ کی ایسی فوج بنائی جارہی ہے جس سے کسی نیکی کی امید نہیں رکھنی چاہیئے اور جو بھی فنڈ اس کے ذریعے سے تقسیم کرائے جائیں گے یا اس کے ذریعے یوٹیلٹی اسٹورز میں جو چھان بین کی جائے گی اس سب میں بد عنوانی کا خدشہ ہے۔ایک اور خدشہ جس کے بارے میں کسی نے نہیں سوچا وہ ملک کے نوسر بازوں کا اس فورس کا نام استعمال کرنا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اس ملک میں نوسر باز جعلی پولیس والے یا دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا روپ دھار کر لوگوں کو لوٹتے ہیں۔ جب اس قسم کا دس لاکھ کا رضاکاروں کا جمعہ بازار سجے گا تو نوسر بازوں کی تو چاندی ہوجائے گی جو سب اپنے آپ کو چیتا فورس کا حصہ قرار دے کر لوگوں کو لوٹنے اور پریشان کرنے پر لگ جائیں گے۔چیتا فورس کے بارے میں جتنا بھی سوچا جائے نت نئے خدشات سامنے آتے ہیں۔ اصل بات تو یہ ہے کہ ملک میں موجودہ حالات کو سنبھالنے کے لئے پہلے سے ہی ایک منظم ادارہ موجود ہے جو اس سلسلے میں کام بھی کررہاہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس ادارے کو ہی مضبوط کیا جائے اور چیتے پالنے کا شوق کسی اور وقت کے لئے موئخر کردیا جائے۔

مزیدخبریں