اسلام آباد (نمائندہ خصوصی)پاکستان نے آئی ایم ایف کے قرضہ پروگرام پرعمل کو مشکل قرار دیتے ہوئے اس پر نظر ثانی کے لئے عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ مذاکرات شروع کردیئے ،اس بات کا انکشاف وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے قومی اسمبلی کی مجلس قائمہ برائے خزانہ کے اجلاس میں کیا، انہوں نے کہا کہ شرح سود کو 13.25فی صد پر رکھنا بھی علظی تھی،آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ نظر ثانی نہ ہوئی تو ہمیں اپنی تر جیحات کو تین سال تک ترک کرناپڑے گا، وزیر خزانہ نے اجلاس میں یہ انکشاف بھی کیا کہ ایف بی آر حکام ان کو دس سال تک تنگ کرتے رہے ،جب میں نے ثبوت دئے تو میری فائل گم کر دی،اکانومی کا پہیہ چل نہیں رہا‘ بجلی مہنگی کرنے سے کرپشن بڑھے گی‘ جی ڈی پی 5 فیصد تک نہ لائے تو 4‘5 سال میں ملک کا اللہ حافظ‘ نئے ٹیکس کی بجائے ٹیکس نیٹ بڑھانے کی ضرورت ہے۔ قومی اسمبلی کی مجلس قائمہ کے اجلاس میں بجٹ سٹریٹیجی پیپر بھی پیش کر دیا گیا، حکومت کی طرف سے تمام جماعتوں سے کیا گیا کہ اس پر اپنی تجاویز دیں۔ اجلاس میں وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ آئی ایم ایف نے ہمارے ساتھ بڑا ظلم، نا انصافی کی، ہم ان شرائط کے ساتھ آئندہ دو سال مذید دباو میں نہیں گزار سکتے، نئی اصلاحات کے لئے مختصر پلان، درمیانی پلان اور طویل مدت پلا ن کی سفارشات ایک ماہ میں تیار کی لی جائیں گی، جنہیں پارلیمنٹ، سیاسی جماعتوں اور صنعت و تجارت اور تمام فریقین کے ساتھ مشاورت کیلئے پیش کر دیا جائے گا ، وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ ہمیں تمام اختیارات پارلیمنٹ سے ملے ہیں اور ہم پارلیمنٹ کو اس کی پوری اہمیت دیں گے، ہمیں اپنے مستقبل کے اصلاحات کے پروگراموں پر عمل درآمد کیلئے پارلیمنٹ اور اس کے اندرموجود جماعتوں کے تجربہ کار راہنمائوں اور سابق وزراء سے رہنمائی لینی ہے ان کی رائے کو اہمت دی جائے گی، انہوں نے کمیٹی میں اس امر کا اعتراف کیا کہ سال2019میں آئی ایم سے جو قرض معاہدہ کیا گیا وہ کافی سخت ہے، انہوں نے بتایا کہا کہ ایف بی آر کے حکام نے مجھے مسلسل 10سال تک آڈٹ اور دیگر معاملات میں الجھانے اور تنگ کرنے کے بعد جب میں نے ثبوت پیش کئے تو میری فائل ہی گم کر دی اگر مجھ جیسے بندے کوہراساں کرنے سے گریزنہ کیا گیا تو عام ٹیکس گزاروں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہوگا، میں نے ایف بی آر اصلاحات میں ٹیکس گزاروں کو ہراساں کرنے کا عمل یکسر ختم کرنے کا عہد کر لیا ہے انہوں نے بتایا کہ بجلی کے نرخوں میں جس قدر اضافہ ہوگا اسی قدر بجلی کی چوری بڑھے گی، بجلی کے نرخ بڑھانے سے مسلہ حل نہیں ہوگا جو میٹر ریڈر کو کچھ فالتو دیکر اپنے مسائل حل کر لیں گے، ہمیں بجلی کے نرخ بڑھانے سے کوئی جائزہ نہیں ہوگا اور ملک میں فاضل بجلی دستیاب ہے اور معاشی سرگرمیاں ماند پڑی ہیں جس سے ہمیں فاضل کپیسیٹی پیمنٹس بھی کرنا پڑ رہی ہیں جن کا از سر نو جائزہ لیا جائے گا ،شوکت ترین نے آئندہ مالی سال میں معاشی ترقی کی شرح4فیصد رہنے کو بھی ناکافی قرار دیا اور بتایا کہ جب تک ملک میں معاشی ترقی کی شرح7فیصد اور 8فیصد تک نہیں پہنچ جاتی اس وقت پاکستان میں روزگار کے مواقع پیدا نہیں ہو سکیں گے، ملکی تاریخ کا ایک اہم این ایف سی ایوارڈ طے کروایا اور اب بھی یہی اقدامات مکمل کرنے کا ہدف ہے سرکلر ڈیٹ کیوں بڑھ رہا ہے اس کی حقیقی وجوہات جان کر ان وجوہات کو ختم کیا جائے گا ،انہوں نے بتایا کہ اگر سال2010میں ہر سال جی ڈی پی کے ایک فیصد اضافہ کیا جاتا تو آج پاکستان12000ارب روپے ٹیکس جمع کر رہا ہوتا اور ہم ابھی بھی5000ارب روپے کے ہدف عبور نہیں کر سکے۔ اجلاس کے دوران وزیر خزانہ شوکت ترین نے رکن قومی اسمبلی رمیش کمار کو سنا دیں،رمیش کمار نے کہا کہ شوکت عزیز سے اب تک جتنے وزیر خزانہ آئے معیشت کو استحکام نہ دلوا سکے، آپ کو معیشت کی بحالی کیلئے پلان بنانے ہوں گے، جس پر وزیر خزانہ نے کہا کہ آپ مجھے نہ بتائیں کہ کیا پلان بنانے ہیں، آپ نے تمام وزیر خزانہ کو لپیٹ دیا۔ وزیر خزانہ شوکت ترین کی سربراہی میں نیشنل پرائس مانیٹرنگ کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ وزیر خزانہ نے ہدایت کی کہ صوبائی حکومتیں رمضان بازاروں میں سستی اور معیاری اشیاء کی فراہمی کیلئے اقدامات کریں۔ رمضان میں اشیائے ضروریہ کی طے شدہ نرخوں پر وافر دستیابی یقینی بنائی جائے۔ عید کے موقع پر اشیائے ضروریہ کے ذخائر، مارکیٹ میں فراہمی اور صارفین کے مفادات کو یقینی بنایا جائے۔ کسی صورت ذخیرہ اندوزی اور بے جا منافع خوری کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ دریں اثنا وزیر خزانہ کی صدارت میں اقتصادی مشاورتی کونسل کی زراعت سب کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں فوڈ سپلائی کی پورے چین کا جائزہ لیا گیا، اجلاس میں کہا گیا کہ موثر ریگو لیٹری میکنزم ہونا چاہئے تاکہ کاشتکار کو اس کا حق ملے اور ناجائز منافع خوری کی روک تھام ہو۔ دریں اثناء بی او آئی کے سربراہ عاطف بخاری نے وزیر خزانہ سے ملاقات کی۔ عاطف بخاری نے اپنے ادارے کے کام کے بارے میں بتایا۔