پاکستان میں اس وقت پانچ موبائل نیٹ ورکس معہ انٹرنیٹ سروسز کے استعمال ہورہے ہیں اور Nipolian Cat کے مطابق 164,0 ملین پاکستانی موبائل سمز استعمال کررہے ہیں ۔ 43310000 پاکستانی Facebook استعمال کرتے ہیں جن میں 21۰8 خواتین 78۰2 فیصد مرد شامل ہیں۔18سے 25 سال تک Facebook استعمال کرنے والوں کی تعداد 16500000 ہے۔25 سے 34 سال کے درمیان استعمال کرنے والوں کی تعداد 9500000 ہے۔76۰38 ملین پاکستانی انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔ Dataportal کے مطابق جنوری 2020 تک 37 ملین لوگ سوشل میڈیا کا استعمال کررہے ہیں۔اتنا سب کچھ ہم پر کوئی ایک صدی میں نہیں صرف چند سال قبل نازل ہوا اس ٹیکنالوجی نے سب سے زیادہ نوجوان نسل کو متاثر کیا نوجوان نسل نصاب سے باغی ہوتی گئی اور اس کی جگہ پوری دنیا کی غیر نصابی ذرائع معلومات نے لے لی ریاست جب نصاب ترتیب دیتی ہے تو اس نصاب میں اپنی تاریخی جغرافیائی مذہبی کلچر کو مدنظر رکھتی ہے مگر آج اگر ہم دیکھیں تو ہمارے بچے اس ٹیکنالوجی پر ٹائپنگ تیز ترین اور بہترین کر لیتے ہیں مگر جب ریاست کے دیئے ہوئے نصاب پر لکھنا پڑے تو بالکل ہی مختلف لکھ رہے ہوتے ہیں یہ ہے ایک سنگین صورتحال ہم اپنی نسلوں کو وہ کچھ نہیں سکھا پارہے جو ہمیں سکھانا چاہیے۔
ایک گھر میں اگر پانچ افراد رہائش پذیر ہیں تو وہاں کم از کم دس سمز چھ موبائل فون موجود ہوں گے ماں باپ کو پتہ نہیں اولاد کیا دیکھ رہی ہے اور کیا کر رہی ہے اولاد کو پتہ نہیں ماں باپ کیا کر رہے ہیں آج جتنے بے بس ماں باپ ہیں شائد ہی پہلے ایسا ہوا ہوگا ماں باپ کی نصیحتوں یا ہلکی پھلکی ڈانٹ ڈپٹ کو موجودہ نسل کسی کھاتے میں ہی نہیں لاتی اگر تھوڑی سی اور سختی کریں تو نشہ آور چیز یا زہر کھا لیتے ہیں یا تو دنیا سے چلے جاتے ہیں اگر بچ گئے تو ماں باپ کے خوف کا اندازہ لگا لیں۔
آخر ماں باپ کب تک چشم پوشی صرف نظر کریں ایک مصیبت ہے ایک امتحان ہے جو ان پر ہر روز مسلط ہوتا ہے نیا ماڈل موبائل نیا ماڈل موٹرسائیکل بڑی بڑی زلفیں بدمعاشی کی طرز پر بڑی ہوئی شیو اور مونچھوں کو تاؤ اور ذرا اس سے آگے کمر کیساتھ لگا ہوا پسٹل چرس سے بھرا ہوا سگریٹ یہ بلکل امریکی گینگسٹرز والا حلیہ ہے وہ بھی عجیب نقش و نگار والی شرٹس سکن ٹائٹ جینز اور جسم پر مختلف زہریلے جانوروں کے نقش و نگار بنائے ہوئے ہوتے ہیں۔ مگر ان کی صحت قابل رشک ہوتی ہے اور ہمارے نوجوان ہر روز ہڈیوں کا ڈھانچہ ہی بنتے جا رہے ہیں ظاہر ہے جب نشہ اور آوارہ گردی حد سے تجاوز کر جائے تو خوراک کیا اثر کرے گی یا کچھ کھانے کو دل کیسے کرے گا آج کے نوجوان میں جذباتی اور تخریبی عنصر غالب آ چکا ہے اگر آپ ماں باپ سے بات کریں تو وہ آگے سے جواب دیں گے روزی روٹی کے لئے محنت کریں یا صرف انہی پر توجہ دیں ابھی چند سال قبل ماں باپ کے علاوہ باقی رشتہ دار حتیٰ کہ محلے والے بھی خبر گیری کرتے تھے اور اپنا مثبت کردار ادا کرتے تھے مگر آج شاید ہر کسی کو اپنی پڑی ہوئی ہے اور ہر کوئی اپنی عزت کے لیے خاموش ہے کہ یہ نوجوان ماں باپ کا لحاظ نہیں کرتے تو کسی دوسرے کا کیسے کریں گے۔شائد اسی لیے وزیراعظم صاحب فرما رہے تھے کہ میٹرک کے بعد بچے کو کوئی ہنر سکھا دیں تاکہ وہ روزگار پر لگ سکے مطلب ماں باپ نے جتنے ڈاکٹر انجینئر کے خواب دیکھنے تھے دیکھ لیے یا حکومت خود بھی ان نوجوانوں کے لچھنوں سے تنگ آچکی ہے۔