آج والی ریاست میسور ٹیپو سلطان کا 220 واں یوم وفات ہے جو مغل شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے 40 لاکھ مربع میل پر محیط ہندوستان میں صرف 152 کلومیڑ پر پھیلے میسور کا حکمران تھا۔ جو اپنے باپ حیدر علی کی وفات کے بعد 32 سال کی عمر میں 26 دسمبر 1787ء کو تخت نشین ہوا اور 12 سال بعد 48 سال کی عمر میں مقام شہادت پر فائز ہو گیا۔ ٹیپو سلطان جیسے انسان صدیوں میں کوئی ایک ہی پیدا ہوتے ہیں۔ٹیپو سلطان کی پوری زندگی اسلامی جہاد پر مشتمل ہے 17 سال کی عمر میں والد حیدر علی سلطان نے ٹیپو سلطان کو آزادانہ فوجی فیصلوں کا اختیار دے دیا تھا۔ ہندوستان کی واحد میسور ریاست ہی ایسی تھی جہاں انگریز اپنی تمام تر طاقتوں کے باوجود 50 سالوں تک قبضہ نہ کر سکے۔ میسور کی بادشاہی 1399ء میں وجود میں آئی جو 1956 ئ تک چھ صدیاں قائم رہی۔
ٹیپو سلطان ایک پکا اور سچا مسلمان تھا۔ جس نے ریاست میسور کو مملکت خْداداد کا نام دیا۔ وہ بیک وقت تلوار ، بندوق ، گْھڑ سواری ، کا طاق بہادر جنگجو ہی نہیں ، اعلٰی پائے کا سیاست دان ، معیشت دان ، سائنسدان ، اور مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ادب پر بھی مکمل دسترس رکھتا تھا۔ پورا مغرب آج بھی ٹیپو سلطان کو راکٹ ’’ میزائل ‘‘ کا بانی تصور کرتا ہے اور ہندوستان میں اردو اخبار کا بانی بھی اصل میں ٹیپو سلطان ہی ہے۔ جس نے اپنی وفات سے کْچھ عرصہ قبل 1799ء میں ہی ایک اردو ہفت روزہ اخبار جاری کیا جو اْس کی وفات کے پانچ سال بعد تک بھی نکلتا رہا۔ ٹیپو سلطان کو متعدد زبانوں پر عبور حاصل تھا جن میں اردو ، فارسی ، عربی ، فرانسیسی ، انگریزی ، بنگالی ، ملیالم اور کنٹر زبانیں شامل ہیں۔ اْس کے ذاتی کْتب خانے میں مختلف زبانوں کی دو ہزار نادر اور نایاب کتابیں اْس کے مطالعہ میں موجود تھیں۔ اْس نے میسور میں اعلی تعلیم کے لیے یونیورسٹی بنائی اور سائنسی تعلیم کے فروغ پر بھی کام کیا۔
ٹیپو سلطان نے انگریزوں سے مقابلے کے لیے نہ صرف اپنی فوج کو جدید فن ضرب کی مربوط اصطلاحات سے لیس کیا بلکہ ملکی ترقی کے لیے زراعت اور تجارت کو بھی جدید خطوط پر رواج دیتے ہوئے ریشم کی پیدوار اور ایکسپورٹ کے لیے ملک بھر میں شہتوت کے درخت لگوائے۔ معمولی جرائم پر انوکھی سزائوں کا آغاز ہی ٹیپو سلطان نے کیا تھا وہ مجرموں کو سزا کے طور پر سینکڑوں درخت لگانے کا حکم دیتا تھا۔ ٹیپو سلطان نے ہندوستان میں پہلی بار ریاست میسور کی مردم شماری کرائی۔ اپنی فوج کو انگریزوں سے لڑنے کے لیے فرانسیسی فوجیوں سے ٹریننگ دلوائی اْن کے لیے نئے فوجی ضابطے اور طریقے بنائے۔ جدید اور وافر اسلحہ کے لیے چار شہروں میں ’’ تارا منڈل ‘‘ کے نام سے اسلحہ ساز کارخانے لگائے جہاں تلواریں ، توپیں، بندوقیں بنتی تھیں اور پہلی بار ایسی ڈھالیں ایجاد کی گئیں جن پر بندوق کی گولی اثر نہیں کرتی تھی۔ برطانوی بحریہ کا مقابلہ کرنے کے لیے ٹیپو سلطان نے پہلی بار ایسے بحری جہاز بنوائے جن میں لوہے کی جگہ پیتل اور تانبے کا استعمال کیا گیا تاکہ وہ سمندری مقناطیسی چٹانوں سے بھی محفوظ رہیں ان کے بحری بیڑے میں بیس بڑے اور تیس چھوٹے جہاز موجود تھے جن پر 72 کے قریب توپیں نصب ہو جاتی تھیں اِن کے علاوہ 66 اور جہاز بھی ہر وقت الرٹ رہتے۔ یہ سب اْس نے اپنی تجارت اور معیشت کو مستحکم کرنے کے بعد ممکن کیا۔ اس کے ساتھ ہر ماہ اپنی فوج کو تنخواہوں کا اِجراء یقینی بنایا۔ بندرگاہیں بڑی کراہیں یہ تمام ملکی فوجی ،سیاسی،تعلیمی ،معاشی، اصطلاحات 12 سال کے قلیل عرصہ میں کیں اور اس دوران ایسٹ انڈیا کمپنی کی انگریز غاصب فوج سے مسلسل برسر پیکار بھی رہا۔ انگریزوں کے ساتھ اس کی کوئی ایک دن کی ایک جنگ نہیں تھی اْس نے چار جنگیں لڑہیں۔ اینگلو ،میسور کی پہلی جنگ 1767ء میں شروع ہو کر 1769ء تک تین سال جاری رہی جو اس نے اپنے باپ حیدر علی کی کمان میں لڑی تھی۔ دوسری اینگلو.میسور جنگ 1780ء سے لے کر 1784ء تک چار سال ہوتی رہی تیسری اینگلو ،میسور جنگ کی کمان اس نے خود کی جو 1789ء سے لیکر 1792ء تک چار سال مسلسل جاری رہی جس میں ایک بار ٹیپو سلطان کے بیٹے کو بھی انگریزوں نے دھوکے سے یرغمال بنا لیا۔ چوتھی اور آخری اینگلو، میسور جنگ سرنگا پٹنم پر ہوئی جو 1798 ء سے شروع ہو کر 1799ء میں ٹیپو سلطان کی شہادت تک جاری رہی۔ اس جنگ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی مدد دیگر چار اتحادی فوجوں نے کی جو 45 ہزار کا لشکر بن کر سرنگا پیٹم پر حملہ آور ہوئے ان میں ہندو مرہٹے ، مسلم نظام ، برطانوی اور تراونکور کی فوجیں شامل تھیں اور قلعے کے اندر سے میر صادق اور ہندو پونیا غداری کرتے ہوئے انگریزوں کے مخبر اور آلہ کار بن گئے۔ ٹیپو سلطان فرار ہونے کی بجائے آخری سانس تک خود قلعے کے اندر سے دشمن پر تلوار چلاتا انگریزوں کی گولیوں کا شکار ہو کر جام شہادت نوش کر گیا۔ انگریز ڈیوڈ آف ولنگٹن نے 4 مئی 1799ء کو ٹیپو سلطان کی لاش پر کھڑے ہو کر کہا کہ اب ہندوستان ہمارا ہے۔ اب کوئی طاقت ہماری راہ نہیں روک سکتی۔ 20 نومبر 1750 میں پیدا ہونے والے ٹیپو سلطان کو شہادت کے بعد لال باغ میں اپنے والد حیدر علی کے پہلو میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ اور ہم ٹیپو سلطان کے انگریزوں کے خلاف اْٹھائے گئے سیاسی ، معاشی اور فوجی اقدامات کو مشعل راہ بنانے کی بجائے میر صادق جیسے کیڑوں سے تاریخ کے صفحات کالے کرتے رہے جس سے صرف اتنی آگاہی ہو پائی کیلنڈر کی تاریخ گو روزانہ تبدیل ہو جاتی ہے لیکن انسانی خصلت کی تاریخ صدیوں تک وہی رہتی ہے۔