فیلڈ میں تعیناتی کے دوران دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ تحصیل کی سطح پر مختلف نوع کے ٹینڈرکرانا بھی میرے فرضِ منصبی میں شامل تھا۔ ایک نیلامی کے دوران بولیاںلگ رہی تھیں کہ ایک بولی دینے والے نے پچھلے سال کی نسبت دو گنا بڑی بولی دے ڈالی۔ میں بہت خوش ہوا کہ ضلعی سرکار کو اس نیلامی سے اضافی مالیہ وصول ہوگا۔میرے ساتھ کمیٹی میں شامل ایک دیہی اَفسر مجھ سے کہنے لگے ، ’’ سَر، خوش ہونے والی کوئی بات نہیں۔ یہ ٹینڈر ہمیں دوبارہ اخبار میں دینا پڑے گا‘‘۔ میں نے پوچھا ’’،وہ کیوں؟ کہنے لگے،’’جس شخص نے یہ بولی دی ہے وہ پرانا ’’پاپی‘‘ ہے۔ اس نے یہ ٹینڈر لینا ہی نہیں ۔وہ اس ضمن میں جمع کرائی گئی اپنی سیکیورٹی دانستہ ضائع کر دے گا۔ میں نے وجہ دریافت کی تو دیہی افسرکہنے لگے،’’ اس سے پہلی بولی جس شخص نے دی ہے وہ پچھلے سال کی نسبت کافی زیادہ ہے۔ مگر بولی دینے والا شخص اس کاروبار میں نو وارد ہے۔پرانے لوگ اس کاروبار میں نوداردوں کو مقابلے سے باہر کرنے کے لئے اسی طرح کی غیر منطقی بولی دیتے ہیں تاکہ وہ ٹینڈر لے ہی نہ سکیں۔ پرانے لوگ اپنا’’ کارٹل‘‘ بنا لیتے ہیں اور نوواردوں کو روکنے کا ہرحربہ استعمال کرتے ہیں۔ بھلے اس کے لیے اُنہیں اپنی سیکیورٹی ہی کی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔
قیام پاکستان سے لے کرلمحہ موجود تک وطن عزیز کی سیاست چند خاندانوں کے گرد گھومتی آ رہی ہے ۔سیاسی ’’رہبروں‘‘ کی کثیر تعداد خاندانی اثرو رسوخ یا تسلط کی بدولت اپنے اپنے علاقے کی قومی اور صوبائی نشستوں پر’’حقِ جمہوریت‘‘ وصول کرتی آ رہی ہیں۔ علاوہ ازیں جملہ سیاسی جماعتوں کی سربراہی کو بھی خاندانی استحقاق کا درجہ حاصل ہے ، جیسے بھٹو خاندان یا بھٹو خاندان سے وابستہ افراد، چوہدری ظہور الہی، مولانا مفتی محمود، باچا خان خاندان وغیرہ۔ ’’ بڑے لوگوں‘‘ نے نوے کی دھائی میںــ’’ شریف خاندان ‘‘کے نام سے ایک نئے خاندان کو بھی میدانِ سیاست میںاتارا۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار غیر خاندانی سیاسی و کاروباری تعارف کا حامل شخص الگ منشور کے تحت اس میدان میں وارد ہوا جسے دنیا عمران خان کے نام سے جانتی ہے۔بطور کھلاڑی اس کی شہرت سے پاکستان کو شہرت ملی۔ تمام تر شخصی خامیوں کے باوجود اس نے پاکستان کو دنیا میں عزت دلائی اورپاکستان کو ’’ عمران خان کا پاکستان‘‘ کے نام سے پکارا جانے لگا۔جب بھی الیکشن کاوقت قریب آیا، جُملہ سیاسی جماعتوں نے ’’اتفاقِ رائے ‘‘سے اس کواقتدار تک رسائی سے دور رکھنے کی ’’بقدرجثّہ‘‘ کوشش کی ۔ پانچ سال تک خاموش بیٹھے رہنے والوں نے اس کی کردار کشی کی باقاعدہ مہم شروع کرد ی۔2018ء میں تحریکِ انصاف اقتدار میں آئی توشور بلند ہوا کہ اسے فوج اقتدار میں لائی ہے۔ مگر شور مچانے والے یہ بات یکسر بھول گئے کہ انہیں دہلیزاقتدار تک کون چھوڑ کر آتا رہا ۔چونکہ اس شخص کا ایجنڈادیگر سیاسی جماعتوں سے مختلف تھا۔وہ بد عنوانی کے تحت ملک سے باہرمنتقل کئے گئے سرمائے کو واپس لانے پربضد تھا۔ اپنے دورِ اقتدار میں اس نے پوری تندہی سے کوشش کی کہ بدعنوان عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لاکر ان سے لوٹی ہوئی دولت واپس کرائی جائے۔ تاہم لازمی ادارہ جاتی تعاون کی عدم دستیابی کی بنیاد پر وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا۔ اس کے تکمیل ِدورانیہِ اقتدار سے قبل ،تاریخ میں پہلی بار ملک کی تیرہ سیاسی جماعتوں نے اتفاق کیا کہ اس شخص کو اقتدار سے نکال باہر کیا جائے، اور وہ اس میں کامیاب ہو گئے۔مگر اس کامیابی کیلئے جس ’’منبعٔ اختیار ‘‘ کو مطعون کرتے رہے، اسی کے ’’دستِ وفا‘‘ سے بار آور ہوئے۔ ایوانِ اقتدار کی طرف دوڑتے وقت وہ نعرہ لگا رہے تھے کہ پٹرول کی قیمتیں آسماں سے باتیں کر رہی ہیں، روٹی دس روپے میں بک رہی ہے۔ دیگر اشیاء ضرورت کی قیمتیں روز بڑھ رہی ہیں۔ لہٰذا عوام کو حکومت وقت سے نجات دلانا بہت ضروری ہے۔ مگرایک سال کے عرصہ میںعوام کا جو حشر ان تیرہ جماعتوں کے ہاتھوں ہوا ہے اس کی مثال ڈھونڈ کے لانے سے تاریخ بھی معذرت خواہ ہے ۔
پی ڈی ایم میں شامل جملہ سیاسی جماعتیں اپنے ’’وقتِ پیدائش‘‘ کے بعد سے کبھی بھی ’’باہمی معانقہ‘‘ کی قائل نہیں رہیں ، بلکہ ایک دوسرے کو چور، ڈاکواورسیکیورٹی رسک جیسے ’’ پسندیدہ القابات‘‘ سے نوازتی رہی ہیں۔ تاہم میدانِ سیاست میں جونہی ’’نو وارد ‘‘نے اپنی موجودگی کا دبنگ احساس دلایا ہے تو ان سب کی گالیاں محبت میں ایسے بدلی ہیں جیسے ماہِ رمضان میں لوگ دعا کرتے ہیں’’ یا اللہ، ہمارے گناہوں کو نیکیوں میں بدل دے‘‘۔ انہیں یاد ہی نہیں پڑتا کہ انہوں نے ’’ ووٹ کو عزّت دو ‘‘ کا نعرہ بھی کبھی لگایا تھا۔
آئینی الیکشن سے ایسے ’’تراہتے‘‘ پھرتے ہیں جیسے سانپ سے ڈرا رسی کو دیکھ کر دور بھاگتا ہے۔فردِ واحد کو اقتدار میں لانے کے لیے آئین میں ترمیم کر کے اسے تیسری بار وزیرِ اعظم تو بنا لیا لیکن آج اسی آئین میں لکھے گئے ’’نوے دن‘‘ کے الفا ظ کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا دو بھر ہو رہا ہے۔اگرچہ ہر دور میں مخالفین کے خلاف غیر ضروری انتقامی کاروائیاںہوتی رہی ہیں، لیکن فاشزم کی جو تصویر کسی ’’ جمہوری‘‘ دور میں وطنِ عزیز میں اب بنی ہے ، پہلے کبھی نہ تھی۔ ادھرعام آدمی کی حالت آج ’’ ڈاہڈا مارے تے روون وی نہ دیوے‘‘ کے مصداق ہے۔ اسے چائے کا کپ ساٹھ روپے ، انڈا پچیس روپئے، روٹی بیس روپئے اور دال کی پلیٹ ایک سو پچاس روپئے میں ’’ انتہائی سستے داموں ‘‘دستیاب ہے۔ آپ ضرور سیاست کریں ’’ جو آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے‘‘ مگر جس کے غمِ روز گار کے نام پر آپ نے یکم مئی کو عام تعطیل کی تھی وہ بھی جینے کا حق مانگتا ہے۔