یہ ایک تاریخ ساز اور تحیر خیز معاہدہ ہے جو عوامی جمہوریہ چین کی وساطت سے طے پایا ہے ۔ اس معاہدے کے ذریعے ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہوگئے ہیں اور ایرانی مسلمان بھی اب عمرہ اور حج کی سعادت حاصل کرسکیں گے۔ ایران اور سعودی عرب کے مابین اختلافات کی وجہ علاقائی حالات بنے ہوئے تھے۔ ان حالات کے پیچھے امریکہ اور مغربی ممالک کی سازش کارفرما تھی۔ امریکی افواج نے کئی عرب ممالک کو تہس نہس کیا، جن میں لیبیا ،سوڈان، یمن، عراق اور شام شامل ہیں۔ ان میں سے کئی ممالک کی آبادی کا ایک بڑا طبقہ شیعہ فرقے سے تعلق رکھتا ہے ۔ امریکہ نے خاص طور پر عرب ممالک میں موجود شیعہ آبادی کو نشانہ بنایا ۔سعودی عرب چونکہ امریکہ کا حلیف ملک ہے،اس لئے لامحالہ اسے بھی اہل تشیع کا مخالف ظاہر کیا گیا۔ شام میں بشار الاسد کی حکومت ہے ۔ امریکہ نے اس کا تختہ الٹنے کی ہرممکن کوشش کردیکھی۔ شام پر کئی ممالک حملہ آور ہوئے، ان میں ترکی،سعودی عرب،روس اور چین شامل تھے۔ اسی طرح عراق میں صدام حسین کا دھڑن تختہ کرنے کیلئے امریکی افواج حرکت میں آئیں تو وہاں بھی سعودیہ کو امریکہ کا حلیف تصور کیا گیا۔ علاقے میں صورتحال اس وقت حد سے زیادہ خراب ہوگئی ،جب یمن میں خانہ جنگی برپا ہوئی ۔ یمن اور سعودیہ ایک دوسرے کے ہمسائے ممالک ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے یمن کی خانہ جنگی میں سعودیہ بھی ملوث ہوگیا۔ اس کے ردعمل میں یمن سے سعودی سرحدوں کے اندر حملے ہونے لگے۔
دوسری طرف، عالمی میڈیا کی خبروں کے مطابق ایران ان یمنی عناصر کے پیچھے کھڑا تھا جو سعودیہ سے برسر پیکار تھے۔ یمن کی جنگ تو ایک لحاظ سے ایران اور سعودیہ کے درمیان پراکسی وار تھی، جس میں دونوں ممالک براہ راست ایک دوسرے سے نہیں ٹکرائے، تاہم اپنے حامیوں اور مخالفین کے ذریعے علاقے میں دہشت اور کشیدگی کا سماں پیدا کردیا گیا۔ یمن اور سعودی عرب کی باہمی جھڑپوں کے دوران پاکستان میں بھی ایک طبقہ متحرک ہوا اور اس نے تحفظ حرمین شریفین کی تحریک چلائی۔ بہرحال یہ سب کچھ مسلم امہ کے نقطہ نظر سے انتہائی نقصان دہ تھا۔ کیونکہ مسلم ممالک ایک دوسرے سے ہی نبردآزما تھے، جس کی وجہ سے مسلم امہ میں فالٹ لائنیں آگئیں اور اتفاق و اتحاد کی فضا ناپید ہوگئی۔ ایران اور سعودی عرب کے مابین جاری اس کھچائو اورتنائوکی وجہ سے علاقے میں اسٹریٹجک سطح پر بھی زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے گئے۔ اس دوران چین کو محسوس ہوا کہ جنگ کی تپش اسے بھی متاثر کررہی ہے اور علاقائی سطح پر طاقت کا توازن بگڑ رہا ہے ۔ چین نے بجا طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ امریکہ کو عالم ِ عرب میں دخل در معقولات کا موقع مل گیا۔جس کے اثرات چین کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ چین نے بڑی خاموشی اور رازداری سے عالم ِ عرب سے امریکہ کے اثرات کو کم کرنے کیلئے سفارتی کوششیں شروع کردیں اور بیک چینل ڈپلومیسی کے ذریعے ایران اور سعودی عرب کے اختلافات طے کرانے کیلئے اپنی کوششیں تیزکردیں۔ چین کو یہ منظور نہ تھا کہ اس کے دروازے پرامریکی اثرات کا دائرہ وسیع ہوجائے۔ چین خود کو ایک عالمی سپرپاور منوانے پر تلا ہوا ہے ۔ ایران او ر سعودیہ کے مابین مفاہمت کرواکر اس نے علاقے میں اپنی بالادستی اور برتری کا لوہا منوالیا ہے ۔
ایران اور سعودی عرب دونوں مسلمان ممالک ہیں۔ ان کے مابین لڑائی جھگڑا مسلم امہ کو کمزور کرنے کا باعث بن رہا تھا۔ جبکہ اسلام تو اتحاد بین المسلمین کا درس دیتا ہے ۔ لیکن ان دونوں ممالک کے باہمی اختلافات نے مسلم امہ کے اتحاد کے خواب کو پریشان کرکے رکھ دیا تھا ۔ اگرچہ مسلمانوں کے مابین اتحاد و اتفاق کی فضا پیدا کرنے کے لئے اسلامی کانفرنس کی تنظیم موجود تھی، تاہم یہ تنظیم بھی ایران سعودیہ کے مناقشے کی وجہ سے بے اثر ثابت ہورہی تھی۔ مسلمانوں کو پوری دنیا میں امریکی اور مغربی اقوام نے نشانہ ستم بنارکھا تھا۔ ہرمسلم ملک امریکی بالادستی اور طاقت کے سامنے بے بس دکھائی دیتا تھا۔ اب سعودیہ اور ایران کے درمیان مفاہمت کے بعد یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ مسلم امہ کسی حد تک امریکی شکنجے سے نکلنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ ایران او ر سعودی عرب کے درمیان جھگڑے کو عرب و عجم کی کشمکش کے پس منظر میں دیکھا جارہا تھا۔ تاریخی طور پر عرب و عجم کے درمیان دوریاں ایک فطری امر تھیں۔لیکن اسلام کے رشتے نے ان دوریوں کو ایک عرصے تک کیلئے ملیامیٹ کردیا۔بہرحال سعودی عرب او ر ایران اپنے اپنے طور پر احساسِ تفاخر میں مبتلا تھے،عجم کو اپنے تاریخی ورثے پر ناز تھا، عربوں کو زبان و بیان پر قدرت حاصل تھی ۔ اسلام نے بہرطور اس کشمکش کو ختم کرنے کیلئے یہ نظریہ دیا کہ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں، اللہ کے نزدیک بزرگی و برتری کے لائق وہ لوگ ہیں جو زیادہ متقی اور زیادہ پرہیزگار ہیں ، بے شک اللہ کریم ایسے ہی لوگوں کو بر گزیدہ قرار دیتے ہیں۔ اصولی طور پر عرب و عجم کو اسلامی احکامات کے سامنے سرجھکانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
پاکستان بھی ایک مسلم ملک ہے ۔ اس ناطے اسے ایران اور سعودی عرب دونوں عزیز ہونے چاہئیں۔ مگر عرب و عجم کی اس کشمکش نے پاکستان کو ایک آزمائش سے دوچار کردیا۔وہ ایران کا ہمسایہ ملک ہے۔1965ء کی جنگ میں ایران نے پاکستان کو اپنے فضائی اڈے پیش کردیئے تھے،دوسری طرف سعودی عر ب کی اہمیت حرمین شریفین کی بدولت بہت بڑھ جاتی ہے ۔ جسے پاکستان کسی صورت نظر اندازنہیں کرسکتا۔ بہرحال یہ چین کا احسان ہے کہ اس نے ایران او ر سعودی عرب کو ایک دوسرے سے قریب کردیا ہے ۔ اس طرح پاکستان نے بھی اطمینان کا سانس لیا ہے ۔ کہ اب اسے دونوں ممالک سے یکساں تعلقات برقرار رکھنے کے لئے کافی آسانیاں میسر آئیں گی۔
پاکستان ان دونوں برادر اورہمسایہ ممالک کے مابین اس دوطرفہ عالمی دوستانہ معاہدے کو خوش آمدید کہتا ہے اور اسے خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے کی ضمانت قرار دیتا ہے ۔ چین کے ساتھ پہلے ہی پاکستان کے قربت کے تعلقات ہیں۔ اس لئے وہ چین کا شکرگذار ہے کہ اس نے علاقائی کشیدگی کا خاتمہ کردیا ہے جس سے امن و اتحاد کے افق پر روشنیاں بکھیرنے والا ایک نیا سورج طلوع ہوا ہے۔
٭…٭…٭