حکمران اتحاد اور پاکستان تحریک انصاف کے مابین ایک ہی دن انتخابات اور انتخابات کی تاریخ کے تعین کیلئے جاری مذاکرات کے تیسرے رائونڈ میں اہم پیش رفت ایک ہی دن تمام اسمبلیوں کے انتخابات پر باہمی اتفاق کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ تاہم ابھی تک انتخابات کی تاریخ پر اتفاق نہیں ہو سکا جس کیلئے حکومتی مذاکراتی ٹیم کے رکن اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ دونوں فریقین خلوص سے چلیںگے تو مذاکرات کا اگلا مرحلہ بھی طے ہو جائے گا جو مذاکرات کی کامیابی کی نوید بن سکتا ہے۔ پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم کے رکن مخدوم شاہ محمود قریشی کے بقول پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ کی مثبت سوچ کو سامنے رکھتے ہوئے مذاکراتی ٹیم تشکیل دی اور مذاکرات کو آگے بڑھایا۔ انہوں نے مذاکرات کے تیسرے رائونڈ کے اختتام پر میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ مذاکراتی عمل کسی تاخیری حربے کے طورپر استعمال نہیں کیا جائے گا ۔ اگر مذاکرات کے مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہو سکے تو ہم سپریم کورٹ کو آگاہ کردیں گے کہ مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ ان کے بقول ہم نگران حکومتوں کے تحت ایک ہی دن انتخابات پر متفق ہیں جبکہ مذاکرات میں اسمبلیوں کی تحلیل پر ابھی تک اتفاق نہیں ہو سکا۔ حکومتی مذاکراتی ٹیم کے رکن سید یوسف رضا گیلانی کے بقول مذاکرات میں اس امر پر بھی اتفاق ہوا ہے کہ انتخابات میں جو بھی کامیاب ہو‘ انتخابات کے نتائج بہر صورت تسلیم اور قبول کئے جائیں گے۔
بے شک آئین میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی پانچ سال کی آئینی مدت متعین ہے جس کی تکمیل کے بعد نئے انتخابات کیلئے وفاقی اور صوبائی سطح پر نگران حکومتیں تشکیل پاتی ہیں جو آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف انتخابات کیلئے الیکشن کمشن کی معاونت کرتی اور اسے مطلوبہ سہولتیں فراہم کرتی ہیں۔ آئین کے تحت اسمبلیاں قبل از وقت بھی تحلیل کی جا سکتی ہیں جس کیلئے قومی اسمبلی کے معاملہ میں وزیراعظم صدرمملکت کو اور وزرائے علیٰ‘ گورنروں کو ایڈوائس بھجواتے ہیں۔ اگر صدر یا گورنر مقررہ آئینی میعاد کے اندر اسمبلی تحلیل نہ کریں تو یہ میعاد ختم ہونے کے بعد متعلقہ اسمبلی ازخود تحلیل ہو جاتی ہے جبکہ اسمبلی کی تحلیل سے متاثرہ کوئی فریق اس کے خلاف اعلیٰ عدلیہ سے بھی رجوع کر سکتا ہے۔ اس معاملہ میں بنیادی نکتہ تو یہی ہوتا ہے کہ آیا اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس نیک نیتی پر دی گئی یا اس کے پس پردہ سیاسی مقاصد تھے۔ چنانچہ متعلقہ عدالت ایڈوائس کیلئے نیک نیتی ثابت نہ ہونے کی صورت میں تحلیل شدہ اسمبلی بحال کر سکتی ہے جیسا کہ 1993ء کے نوازشریف کے کیس میں ہوا تھا۔
ملک میں جاری موجودہ سیاسی کشیدگی اور انتشار و خلفشار کا آغاز رواں سال کے آغاز میں اسی تناظر میں ہوا تھا کہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے قبل از وقت انتخابات کرانے کی اپنی سیاسی حکمت عملی کے تحت پنجاب اور خیبر پی کے اسمبلیاں ان کی آئینی میعاد پوری ہونے سے پہلے تحلیل کرا دیں۔ اس معاملہ میں بھی سیاسی درجہ حرارت اس بنیاد پر تیز ہوا کہ گورنر پنجاب نے اسمبلی کی تحلیل کیلئے وزیراعلیٰ پروزالٰہی کی بھجوائی ایڈوائس پر عملدرآمد سے معذرت کر لی۔ چنانچہ یہ اسمبلی از خود تحلیل ہوئی جبکہ خیبر پی کے کی اسمبلی کی تحلیل گورنر کی جانب سے وزیراعلیٰ کے پی کے کی ایڈوائس پر عمل کرنے کے باعث عمل میں آئی ۔ آئینی تقاضے کے تحت قبل از وقت تحلیل کی گئی اسمبلی کے انتخابات 90 روز کے اندر اندر عمل میں آتے ہیںاور یہ انتخاب نگران حکومت کے ماتحت ہوتا ہے۔
ان اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد ان کے 90 روز کے اندر انتخابات کا انعقاد لازمی تقاضہ تھا۔ جب وفاقی اور متعلقہ صوبائی حکومتوںکی جانب سے یہ لازمی تقاضہ پورا کرنے میں بادی النظرمیں گریز ہوتا نظر آیا تو چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے صوابدیدی اختیارکے تحت اس کا ازخود نوٹس لیا اور اس کی سماعت کیلئے اپنی سربراہی میں 9 رکنی بنچ تشکیل دے دیا۔ اس کیس کی سماعت کے آغاز ہی میں بنچ کے دو فاضل ارکان نے چیف جسٹس کے صوابدیدی اختیار اور اس کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت پر تحفظات کا اظہار کیا اور اپنے اختلافی نوٹس میں اس کیس کوناقابل سماعت قرار دیدیا۔ اس پر ملک میں جاری محاذآرائی اور منافرت کی سیاست سیاسی کشیدگی کی جانب بڑھنے لگی اور اس کے اثرات سپریم کورٹ پر بھی مرتب ہوتے نظر آئے۔ اسی کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ میں چار‘ تین اور تین‘ دو کے فیصلوں کا تنازع سپریم کورٹ کے اندر ہی پیدا ہو گیا جس سے فائدہ اٹھا کر حکمران اتحادیوں نے چیف جسٹس کے صوابدیدی اختیارات محدود کرنے کی حکمت عملی طے کی اور اس کیلئے قومی اسمبلی اور سینٹ سے بل بھی منظور کرا لیا۔ تاہم چیف جسٹس سپریم کورٹ نے ایک نیا آٹھ رکنی بنچ تشکیل دیکر متذکرہ بل پر عملدرآمد روک دیا۔ اس کے باوجود سپیکر قومی اسمبلی نے مذکورہ بل کے قانون کے قالب میں ڈھلنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ اس طرح دو ریاستی آئینی ادارے سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ عملاً ایک دوسرے کے مدمقابل آگئے۔ اس کا فوری اور لازمی نتیجہ ملک میں سیاسی عدم استحکام اور عملی خانہ جنگی کی صورتحال پیدا کرتا نظر آیا۔ چنانچہ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے معاملہ فہمی سے کام لیکر ایک ہی دن تمام انتخابات کیلئے ایک دوسرے کے مخالف سیاسی قائدین کو باہم متفق ہونے کا راستہ سمجھایا۔
اسی تناظر میں حکمران اتحادیوں اور پی ٹی آئی کے مابین مذاکرات کی میز پر سلسلہ ٔ جنباتی شروع ہوا ہے اور عدالت عظمیٰ کے متعلقہ تین رکنی بنچ نے بھی ان مذاکرات کی بیل منڈھے چڑھنے کے انتظار میں گزشتہ روز کیس کی سماعت 8 مئی تک ملتوی کردی۔ زمینی حقائق کی روشنی میں تو اب 14 مئی کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں جس سے الیکشن کمشن نے سپریم کورٹ کو دوبارہ آگاہ بھی کر دیا ہے۔ چنانچہ جب 90 دن کے اندر تحلیل شدہ اسمبلی کے انتخابات کا انعقاد عملاً ممکن نہیں تو ان حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے تمام متعلقہ فریقین کو اپنی اپنی انائوں کی قربانی دیکر ملک و قوم کے بہترین مفاد کی خاطر ایک ہی دن عام انتخابات کی کسی ایک تاریخ پر اتفاق رائے کر لینا چاہئے۔ اس حوالے سے نگران حکومتوں کی تشکیل کیلئے بھی سارے معاملات اتفاق رائے سے طے کر لئے جائیں تو ملک میں جاری سیاسی انتشار و خلفشار پر قابو پایا جا سکتا ہے اور جمہوریت کی گاڑی کو ٹریک پر رواں دواں رکھا جا سکتا ہے۔ یہ صورتحال ادارہ جاتی ہم آہنگی کی متقاضی ہے جس کیلئے فضا ایک دوسرے کے خلاف بلیم گیم کا سلسلہ ختم کرکے ہی ہموارکی جا سکتی ہے۔ قوم اپنی سیاسی قیادتوں کی جانب سے معاملہ فہمی کیلئے سجائی گئی مذاکرات کی میز پر اتفاق رائے اور سلجھائو کی روشنی دیکھنے کی منتظر ہے۔ اگر اس معاملہ میں قوم کو خدانخواستہ مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تو پھر یقینا کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا اور چیف جسٹس عمرعطا بندیال کے بقول معاملات ایسے ہی چلتے رہیں گے جوکسی مدبر قوم کا شیوہ ہرگز نہیں۔