مذاکرات کا کھیل جاری، روزمرہ مسائل سے چشم پوشی

ندیم بسرا 
مذاکرات کی آڑ میں حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی مصروف ہیں یہ اتنا اہم سیاسی مسئلہ ہے کہ عوام کے تمام تر روزمرہ کے مسئلے پس پشت چلے گئے ہیں۔آٹا ،چینی ،گھی ،دالوں اور پٹرولیم کی قیمتیں آسمان سے باتیںکررہی ہیں اور ہمارے حکمران صرف ڈائیلاگ کی ٹیبل تک بمشکل پہنچ سکے ہیں۔اسلامی فلاحی اور جمہوری ریاست میں عوام کو اس کے حقوق ملنا تو درکنار اس کو دوقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔اب چونکہ تمام تر نظریں پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کے درمیان مذاکرات پر ہی ٹکی ہوئی ہیں دو مذاکرات تو نتیجے کے بغیر ہی ختم ہوئے۔اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومتی ٹیم کے اراکین اسحق ڈار،یوسف رضا گیلانی ،خواجہ سعد رفیق،نوید قمر ،فریال تالپور،اعظم نذیر تارڑمطارق بشیر چیمہ اور پی ٹی آئی کی طرف سے شاہ محمود قریشی ،فواد چودھری اور سینیٹر علی ظفر شریک ہیں۔دونوں ٹیمیں مذکرات تو کررہی ہیں اور ایک دوسرے کے تحفظات سن بھی رہی ہیں مگر ٹیم کے ان اراکین کے پاس ایسا کوئی مینڈیٹ نہیں ہے جس پر وہ فیصلہ کرکے اٹھیں ،یعنی جو بھی طے پائے گا وہ پہلے اپنے قائدین کو بتائیں گے پھر اس کے بعد ہی فیصلہ ہوگا اس کا مطلب ہے کہ یہ مذاکرات فی الحال وقت کا ضیاع ہی کہلائے گا۔کیونکہ حکومت عدالتوں کے سامنے سچا ہونیا چاہتی ہے اور اپوزیشن پی ٹی آئی وہ عوام اور عدالتوں کے سامنے سرخرو ہونا چاہتی ہے۔اس دوران کوئی بڑے بریک تھرو کی توقع نہیں کی جاسکتی ،حکومت ان مذاکرات کی آڑ میں پی ٹی آئی کا دباؤ کم کرنے اور انہیں جو عوام کی طرف سے پذیرائی مل رہی ہے اس کا ٹمپریچر کم کرنے کی کوشش کرے گی اگر تو معاملات حکومت کی توقع کے مطابق طے پاگئے تو ٹھیک ہے وگرنہ کوئی نیا محاذ کھول دیا جائے گا جس سے ساری توجہ اس طرف ہوجائے ،ئی بات تو طے ہوے کہ حکومت فی الحال اپنی مرضی کے مطابق ہی وقت گزارانا چاہ رہی ہے۔حکومت کی کیا ترجیحات ہیں اس کا بھی کچھ معلوم نہیںہے ،کچھ روز قبل ظہور الہی روڈ پر چودھری پرویز الہی ،چودھری شجاعت حسین کا گھر پولیس اور اینٹی کرپشن چھاپے کے بعد میدان جنگ بنا ہوا تھا ،پولیس بکتر بند گاڑیوں سے چودھریوں کے گھروں پر حملہ آور ہوئی اور بہت کچھ سامنے نظر آیا ،جس کے بعد پنجاب کی نگران اور وفاق کی حکومت نے اس آپریشن سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا کہ ہمیں تو پتا بھی نہیں کی کیا ہوا ،گزشتہ روز بدھ والے دن اسی آپریشن والی جگہ پرنگران وزیراعلیٰ پنجاب سید محسن رضا نقوی چلے گئے اور انہوں نے سینئر سیاستدان و مسلم لیگ قائداعظم کے سربراہ چودھری شجاعت حسین سے ان کی رہائشگاہ پر ملاقات کی۔ نگران وزیراعلیٰ پنجاب ظہور الہیٰ روڈ پر چودھری شجاعت حسین کی رہائشگاہ پر پہنچے اور زخمی ہونے والے سالک حسین کی خیریت دریافت کی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ چیف سیکرٹری، انسپکٹر جنرل پولیس اور سی سی پی او لاہور بھی نگران وزیراعلیٰ کے ہمراہ تھے۔اب کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ اتنا بڑا آپریشن بھی ہو اور ان اداروں کے سربراہان پھر چودھری شجاعت حسین کو ملنے چلے جائیں۔دوسری طرف پی ٹی آئی کے حلقے اس بات کی تصدیق کررہے ہیں کہ اگر حکومت کی طرف سے الیکشن کی کوئی تاریخ مقرر نہ ہوئی تو اس بار ملک گیر احتجاج اور لانگ مارچ کیا جائے گا اور اس کا آغاز پنجاب لاہور سے ہوگا۔جس کے لئے تمام پیپر ورک اور تیاریاں کی جا چکی ہیں بس ایک بار کال دی جائے گی، اس بات کو چئیرمین عمران خان اپنے خطاب میں بتاچکے ہیں۔
ویسے بھی عمران خان کا زمان پارک میں روزانہ کی بنیاد پر خطاب پی ٹی آئی کے کارکنوں اور ووٹرزمیں جوش بڑھا رہا ہے اس کوکاوئنٹر کرنے کے لئے مسلم لیگ ن کے پاس کوئی حکمت عملی نہیں ہے تاہم مسلم لیگ ن کے کارکن زیادہ تر نظریں چیف آرگنائزر مریم نوازکی طرف ہی لگائے بیٹھے ہیں کیونکہ مریم نواز ہی مسلم لیگ ن کے کارکنوں کوفی الحال اکھٹے کئے ہوئے ہیں ،باوثوق حلقے اس بات کی تصدیق کررہتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی طرف سے ن لیگ کے رہنماؤں کو پیغامات ملتے رہتے ہیں جس میں الیکشن کی تیاریاں رکھنے کے پیغامات بھی ہوتے ہیں مگر جب تک اس کا باقاعدہ اعلان نہیں ہوجاتا اس وقت تک مسلم لیگ ن کی قیادت خاموش ہی رہے گی۔ پنجاب کے سیاسی حلقوں میں تو ابھی تک خاموشی ہی ہے اور لاہور کی سیاسی فضائ￿ بھی صاف ہی ہے کہیں بھی مطلع ابر آلود نہیں ہے اور گزشتہ کئی ماہ سے اسلام آباد کی فضاء میں کالے بادل اور گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن