جیالئے پٹواری اور کھلاڑی

May 04, 2023

عارفہ صبح خان

ڈاکٹرعارفہ صبح خان 
تجا ہلِ عا رفانہ 
ُُُپہلے اس بات کا صدمہ تھا کہ سب مسلمان ایک کیوں نہیں ہیں۔ شعیہ سُنی ہیں۔ دیوبندی، بریلوی، اہلدیث حنبلی، شا فعی ہیں۔ یہ سب ایک قرآن پاک، ایک کتاب، ایک نبیﷺ کے ہوتے ہوئے کیوں اتنے منقسم ہیں۔ پھر ذاتوں اور قبیلوں کا رواج شروع ہو گیا۔ پھر قوموں اور ملکوں میں مسلمانوں کی شناخت ہو نے لگی۔ سعودی یا قطری یا مصری ہے تو زیادہ اہم ہے۔ عرب امارات کا شیخ ہے تو نہایت توقیر کا مالک ہے اور اگر شامی، یمنی، صومالی، افغانی ، بنگلہ دیشی یا پاکستانی ہے تو اس کی کوئی عزت نہیں ہے۔ ان عصبیتوں کے علاوہ پھر ایک ہی ملک میں علاقائی لسانی تعصب در آیا۔ کو ئی خود کو پنجاب کا کہتا ہے تو نہایت قا بل فخر اور طا قت کا سمِبل ہے۔ لاہوری یا اسلام آبادی ہے تو انتہائی سپرئیر ہے۔ اگر سندھی ہے تو بھی اُس کی بڑی قدر و منزلت ہے۔ دوسری طرف خیبر پختونخواہ سے تعلق ہے اور پٹھان ہے تو اُسکا غرور اور فخر دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔وہ خود کو پاکستان کا ہی نہیں، دنیا کا سب سے اچھا اور اعلیٰ انسان سمجھتے ہیں۔ ویسے حقیقت میں اُن کے ہاں برا ئیاں اور کرپشن کم ہے۔ اسی جگہ گلگت بلتستان اور بلوچستان نہایت پسماندہ علاقے ہیں۔ یہاں کے لوگوں کا معیارِ زندگی بہت معمولی درجے کا ہے۔ تعلیم اور بہت سے شعبُہ جات میں یہ لو گ پسماندہ ہیں۔ ان کا پنجاب اور سندھ سے موازنہ ممکن ہی ہیں۔ ابھی اور بھی بہت سے تفرقات ہیں۔ مثلاً پاکستان اِس وقت پانچ طبقوں میں تقسیم کر دیا گیاہے یعنی امیر ترین طبقہ، امیر لوگ، خو شحال لوگ، متوسط طبقہ، سفید پوش طبقہ، غریب لوگ۔ ان پانچوں طبقات کے رویے الگ الگ ہیں۔ بد قسمتی سے اب پاکستانی سیاسی طور پر بھی تقسیم ہو گئے ہیں۔ جن میں سات بڑی سیاسی طا قتوں نے اپنے کارکنوں اور ووٹروں کو پاکستانی کے بجائے جیالے، پٹواری، یو تھیئے، ُسرخے، مہاجر، اسلام پسند، جما عتیے، وغیرہ وغیرہ میں بانٹ دیا ہے۔ اس کے علاوہ دو درجن سیاسی پارٹیاں ہیں جن کے کارکن اور ووٹر صرف اُسی عینک اور عدسے سے دیکھتے ہیں جو اُن کے لیڈر نے انھیں دیکھنے کے لیے دیا ہو تا ہے۔ ان کے دل، دماغ، سوچ، زبان، عمل سب کچھ اپنی پارٹی سے مطابقت رکھتا ہے۔ یُوں لگتا ہے کہ ان کے دماغ مینڈکوں جیسے ہیں اور زبانیں بھی مینڈکوں جیسی ہیں۔ یہ اپنے دل دماغ سے نہیں سوچتے۔ انکی اپنی کو ئی رائے نہیں ہوتی۔ ان کا اپنا کوئی فیصلہ نہیں ہوتا۔ یہ ایک محدود دائرے میں سوچتے ہیں۔ تعصب، حسد اور بدزبانی ان کی پہچان ہے۔ سب سے زیادہ اَت پانچ پارٹیوں نے مچا ئی ہے۔ جن میں جیالے، پٹواری، یو تھئیے، ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی یا جے یو آئی کے کارکنان، سپورٹرز اور ووٹرز سرِفہرست ہیں۔ ان میں مزید چھانٹی کی جائے تو جیالے، پٹواری اور یو تھئیے ہیں۔ پیپلز پارٹی میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور مہذب یا جمہوریت پسند افراد ہیں لہٰذا وہاں شدت پسندی، تعصب اور زبان درازی یا گا لی گلوچ کا عنصر کم ہے۔ دوسرے نمبر پر ن لیگ والے ہیں کیونکہ اس پارٹی میں کچھ خاندانی، وضع داری اور روایتی لوگ ہیں لہذا یہاں بہیودہ گو ئی کی شرح درمیانے درجے کی ہے لیکن بد تمیزی، بد تہذیبی، بد زبانی گا لی گلوچ بلکہ بازاری اور لچر زبان استعمال کر نے میں یو تھیوں کو ید ِطولیٰ حا صل ہے۔ اگر کو ئی ان کے لیڈر کے متعلق سچ بُول دے تو یہ اُس کی ایسی تیسی کر دیتے ہیں۔ کیونکہ ایک سو چھبیس دن کے دھرنے میں جو پاکستانی معاشرے کو تباہ برباد کیا ، شاید اس کی صفائی میں کئی سال لگ جائیں۔ پاکستانی معاشرے میں جو شرم لحاظ، اخلاقیات، تہذیب و تمدن اور روایات کا عنصر تھا اُسکو حا لیہ سالوں میں تباہ و برباد کر دیا گیا۔ ایک وزیر اعظم کے تمام الفاظ مہذبانہ، اخلاقی اور پارلیمانی ہو تے ہیں، مگر وہ ڈا ئس پر کھڑے ہو کر تقریر کرتے ہوئے عزت، وقار اور تہذیب کادامن چھوڑ دے اور نواز شریف کی نقلیں اتا رے اور عجیب و غریب شکلیں بنائے، تو اُس ملک کے عمومی اخلاقیات کا تو اللہ ہی حافظ ہے اور اس طرح کے واقعات رونما ہو ئے کہ ریاست مدینہ کا والی ایسی ایسی داستانیں سناتا رہا کہ بیوی کے کہنے پر میں وزیر اعظم بن جائوں گا۔ اور جب وزیر اعظم بن گیا تو سب کچھ ٹھیک اور جب اپنی نا اہلیوں کی وجہ سے مسندِ اقتدار سے ہٹا دیا گیا  تواب ہر الزام باجوہ کے سر تھوپ دیتا ہے۔ دوسری طرف بھٹو ابھی تک زند ہ ہے اور نواز شریف کی پلیٹلیس بھی ٹھیک ہیں۔ شہباز شریف نے 1857ء سے بڑا مہنگائی کا غدر مچا کر قہر خداوندی کو دعوت دے رکھی ہے مگر آفرین ہے ان کے سپورٹرز اور ووٹرز پر جو ان کے لیے لڑتے مرتے ہیں کیونکہ یہ پاکستانی نہیں بلکہ جیالے، پٹواری اور یو تھئیے ہیں۔ 

مزیدخبریں