آئین کے 50سال اورجاگیردارانہ نظام کیپارلیمنٹیرینز کا کردار!

کنکریاں۔ کاشف مرزا 
پاکستان 75 سالوں میں تقریباً 37سال بے آئین رہا ہے، جبکہ  1973ء کے آئین کی گولڈن جوبلی کے پچاس سال میں سے بھی20سال آئین معطل رہاہے۔ بدنصیبی کہ 1956، 1962ء اور 1973ء کے آئین کے ابتدائیہ میں قائداعظم محمد علی جناح کی 11اگست 1947ء کی آئین ساز اسمبلی کی تقریر جس میں انہوں نے تصور پاکستان بیان کیا، کوکبھی کوئی مقام نہ ملا۔جس ملک کا وجود ہی 1946ء کے آئین کے تحت ہواہو وہاں 1973ء کے آئین بنانے تک دوآئین اوردو مارشل لاء  آچکے تھے جبکہ آدھا ملک سلور جوبلی سے قبل 1971ء  میں الگ وطن بن چکا تھا۔ جمہوریت کا پہلا دور 1947ء تا1958ء تک 11سال پر محیط تھاجسے میجر جنرل اسکندر مرزا اورجنرل ایوب خان نے ختم کیا،دوسرا جمہوری دور ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں 5 سال چلا جسے سیاستدانوں کی آپسی لڑائی اور اقتدار کی ہوس کے سبب جنرل ضیاء الحق نے مزید 11سال معطل کیا اورپھر  1988ء سے 1999ء تک11سال غیر مستحکم جمہوریت رہی بعدازاں جنرل مشرف نے 1999ء سے 2008ء تک براجمان رہے۔ تمام فوجی حکمرانوں نے کوشش کی کہ صدارتی ویٹو کا استعمال اپنے پاس رکھیں اوروزیراعظم کے ساتھ پارلیمان کوجب چاہیں فارغ کردیں، اور کینگز پارٹی میں شامل روایتی اور ماروثی سیاستدانوں نے ہمیشہ انکا ساتھ دیا۔ وہ چاہیے 1956ء یا 1962ء کیصدارتی آئین میں تمام اختیارات جنرل ایوب خان کو دینا ہو، یاجنرل یحییٰ خان کا قانونی ڈھانچے کا حکم نامہ (LFO) یاجنرل ضیاء الحق کی آٹھویں اور جنرل مشرف کی سترویں ترمیم کامسلط کیا جاناتھا۔آج 1973 کے  آئین کی اصل شکل بگڑچکی ہے، تاحال اس میں 26ترامیم ہوچکی ہیں۔بدقسمتی اس آئین کی پہلی خلاف ورزی بھی اسکے خالق خود بھٹو صاحب نے کی ،جب24گھنٹے کے اندرملک میں ایمرجنسی  لگا کر بنیادی حقوق سلب کردیئے گئے، پھراسی دور میں 7 دیگر ترامیم بھی ہوئیں جو بھٹو کی غلطی اور اقتدار کی ہوس تھی، کیونکہ اس میں سے ایک ترمیم جسکا تعلق عدلیہ سے تھا وہ خود انکے خلاف ثابت ہوئی۔ اس طرح اگر 1973ء سے 1999ء تک آئین کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کْل13 ترامیم منظور اور3ترامیم منظور نہ ہوسکیں۔بے نظیر بھٹو اپنی دونوں حکومتوں میں کوئی آئینی ترمیم منظور نہ کرواسکیں، جبکہ نوازشریف نے اپنے 2 ادوار میں 12ویں، 13ویں، 14ویں  اور 16ویں ترمیم منظور کرائیں۔ جنرل ضیائ￿  الحق دورمیں کی گئی آئین کی 8ویں ترمیم سب سے خطرناک ثابت ہوئی جس نے جمہوریت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایاجبکہ آئین کے آرٹیکل 17 میں جو اہم تبدیلیاں کی گئی تھیں انکے ذریعے اجتماع کی آزادی کو محدود کر دیا گیا۔ نئی پابندیاں عائد کردی گئیں۔ اسی آئینی ترمیم کی بنیاد پر پولٹیکل پارٹیز ایکٹ مجریہ 1962ء پر بھی نظر ثانی کی گئی۔ وفاقی حکومت کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت بارے میں اعلان کر سکتی ہے کہ وہ پاکستان کی خود مختاری اور سالمیت کیخلاف کام کررہی ہے، یوں یہ جماعت تحلیل ہو جائے گی اور وفاقی حکومت اس سیاسی جماعت کی تمام جائیداد اور فنڈ کو ضبط کرے گی۔ سپریم کورٹ کیپاس بہرحال حکومت کے اعلان نامے کو مسترد کرنے کا اختیار ضرور حاصل تھا۔ لیکن ایسا کبھی ممکن نہیں ہو سکا۔ان ترامیم کے بعدکسی بھی ہائیکورٹ کے پاس سیاسی ظلم و جبر کے شکار افراد کی دادرسی اور انہیں دوران حراست ضمانت دینے کا اختیار باقی نہیں رہا۔آئین میں4 اور5ترمیم کے تحت آئین کے 16 آرٹیکل اور آئین کے فرسٹ شیڈول میں ترامیم کی گئیں۔ اس ترمیم کے ذریعے اعلیٰ عدالتوں ہائیکورٹس کے اختیار مزید آرٹیکل 199 کے تحت محدود کر دیے گئے۔ساتویں ترمیم ریفرنڈم کرانے کی گنجائش کیلیے کی گئی لیکن بھٹوریفرنڈم اوردوبارہ عام انتخابات نہ کراسکے اور جنرل ضیا الحق نے 5 جولائی کو فوجی انقلاب کے ذریعے انکی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔حقیقت یہ ہے کہ بھٹو نے خود اپنے بنائے ہوئے آئین کو جس حد تک ممکن تھامسخ کیا اور آئین میں جن ابتدائی ترامیم کا ذکر کیا جا چکا ہے ان میں سے کوئی ایک ترمیم بھی ایسی نہیں جسکے ذریعے عوام کے جمہوری حقوق کو یقینی بنایا گیا ہو۔ ان ترامیم کا مقصد عدالتی اختیارات کو کم یا محدود کرنا اور وفاقی حکومت کے خلاف کسی بھی امکانی مخالفت کو تباہ کرنا تھا۔جنرل ضیاء  الحق نے 1981ء میں پہلا عبوری آئینی حکم یا پروویژنل ( PCO ) جاری کیا۔اس حکم کے تحت سپریم کورٹ ججزکے لیے لازمی قرار دے دیا کہ وہ نیا حلف اْٹھائیں۔دسمبر 1981ء میں ایک صدارتی حکم کے تحت مجلس شوریٰ تشکیل دی گئی۔ابھی آئین معطل ہی تھا کہ دسمبر1984ء میں ریفرنڈم کرایا گیا جس میں تب کے سیاستدانوں نے بھرپور ساتھ دیا،اورجنرل ضیاء  الحق کو اگلے 5برس کیلیے صدر منتخب کرلیا گیا۔فروری 1985 میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے گئے،MRD نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا لیکن بعدازاں محترمہ بے نظیر بھٹو کی ایک غلطی ثابت ہوا۔ مارچ 1985 میں جنرل ضیاء  الحق نے ایک صدارتی حکم کے زریعے آئین کی بحالیRCO کے تحت آئین میں بڑے پیمانے پر ترامیم کی گئیں۔ان ہی ترامیم کی بنیاد پر سیاستدانوں کے زریعے آٹھویں ترمیم منظور کروائی گئی جو درجنوں ترامیم کا مجموعہ تھی، جسکے سنگین نتائج برآمد ہوئے۔1997 میں نواز شریف انتخابات جیت کر دوبارہ وزیراعظم بنے تو اْنکے پاس دوتہائی اکثریت تھی جسکی مدد سے اپریل 1997ء میں13ویں ترمیم کومنظور کرلیا گیا۔ اس ترمیم نے صدر کے اختیارات بہت کم کردیے اوراب صدر اپنی مرضی سے وزیراعظم کو 58-2B کے تحت برطرف نہیں کرسکتاتھا۔ لیکن تیرہویں ترمیم نے آٹھویں ترمیم کا مکمل خاتمہ نہ کیا،اس نے صرف صدرِ پاکستان کے اختیارات چھین کر وزیر اعظم کو منتقل کیے،اب صدر اسمبلیاں تحلیل نہیں کرسکتے تھے تاوقت کہ وزیراعظم اس کا مشورہ نہ دیں۔ اب وزیراعظم ہی افواجِ پاکستان کے سربراہ کا تقرر کرسکتے تھے جنکے مشورے پر ہی صدرِ کو تعیناتی کا اعلان کرنا تھا۔ اس طرح چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف اور گورنروں کے تقرر میں بھی وزیر اعظم کو ہی فیصلے کا اختیار دیا گیا۔مگر پھر وزیراعظم نواز شریف اپنی دوتہائی اکثریت کے نشے میں سرشار ہوگئے اور آمرانہ طرز اپنا لیا۔ 
چند ماہ بعد ہی آئین میں چودھویں ترمیم کے ذریعے ارکانِ پارلیمان کو سخت ضابطے کا پابند کرکے پارٹی سربراہوں کو غیر معمولی اختیارات دے دیے گئے اورپھر پندرھویں ترمیم پیش کی جو اسمبلی سے منظور ہونے کے بعد سینیٹ سے منظور نہ ہوسکی۔ مجوزہ پندرھویں آئینی ترمیم کے تحت ملک میں شریعت کا نفاذ ہونا تھا اور وفاقی حکومت کو پابند کیا جانا تھا کہ وہ شریعت کے نفاذ کیلیے اقدام اْٹھائے اور اگر کوئی سرکاری اہل کار شریعت کی خلاف ورزی کرے تو اس کے خلاف تادیبی کارروائی لازمی ہونا تھی۔ لیکن کوئی بھی ترمیم وزیراعظم نواز شریف کو نہ بچا سکی، یوں طاقت و اقتدار کے نشے اور مشیران کے غلط مشوروں پردوسرے فوجی سربراہ کو برطرف کرنے کے چکر میں جنرل مشرف نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔دسمبر 2003ء میں پارلیمان نے 17ویں ترمیم منظور کی ،جو دراصل جنرل ضیاء  الحق کے دور کی 8ویں ترمیم کا ایکشن ری پلے تھا، اس ترمیم کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے پہلے ہونے والی کم ازکم3 ترامیم کو ذہن میں رکھنا ہوگا جو آٹھویں، تیرھویں اور سترویں ترامیم تھیں۔ان کے علاوہ 2006ء میں ہونے والے میثاق جمہوریت کو بھی یاد رکھنا ہوگا ،جس نے 18ویں ترمیم کے مسودے کی تیاری میں اہم کردار ادا کیا۔نواز شریف کی دوسری حکومت نے تیرھویں ترمیم کے ذریعے آٹھویں ترمیم کی بہت سی دفعات بدل دی تھیں اورصدر کے اختیارات بڑی حدتک وزیراعظم کو منتقل کردیے تھے لیکن صرف دوسال کے بعد ہی جنرل مشرف نے 13ویں ترمیم کے ساتھ خود آئین کو بھی لپیٹ دیا۔2008ء میں بے نظیر بھٹو کے قتل اور نئے انتخابات کے بعدجنرل مشرف کوبھی استعفا دینا پڑا تھا۔آصف علی زرداری نے صدر بننے کے بعد2010ء میں پارلیمان میں18ویں ترمیم منظور کراکے صدر کے یکطرفہ اختیارات ختم کر دئیے اوراب پارلیمان کوصدرِپاکستان یا کوئی اوراپنی صوابدید سے برخواست نہیں کرسکتا۔یوں ملک صدارتی نظام سے ایک بار پھر پارلیمانی جمہوریت کے راستے پر چل پڑا۔ 18ویں ترمیم کے ذریعے ہی شمال مغربی سرحدی صوبے کو خیبرپختون خواہ کا نام دیاگیااورتمام صوبے پہلے سے زیادہ مالیاتی اورقانونی اختیارات کے حامل ہوگئے۔ وہ اختیارات جو پہلے جنرل ضیائ￿  الحق اور پھر جنرل مشرف نے اپنے ہاتھوں میں لیے تھے وہ صدر آصف علی زرداری نے بخوشی وزیراعظم کو منتقل کردیے۔ اس ترمیم نے ملک میں سیاسی عدم استحکام کم کرنے کی کوشش کی اور اس کی بدولت جمہوری طور پر منتخب پارلیمان اپنی 5سالہ مدّت مکمل کرسکیں۔18ویں ترمیم کیساتھ آئین کو معطل یا ختم کرناغداری قرار دیا گیااورصوبوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے مشترکہ مفادات کونسل (CCI) بنائی گئی اور اس ترمیم نے قومی مالیاتی کمیشن کی بھی تشکیل نوکردی ساتھ ہی ایک آزاد جوڈیشل کمیشن اب اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے تقرر کا مشورہ دے گا جس پر حتمی فیصلہ ایک پارلیمانی کمیشن کو کرنا تھا۔ اسی طرح الیکشن کمیشن کے سربراہ کا انتخاب اب صدر کے بجائے حزبِ اقتداراورحزبِ اختلاف مشاورت سے کریں گے۔18ویں ترمیم کے تحت اسلام آباد ہائیکورٹ، جبکہ تربت اورمینگورہ میں ہائیکورٹ کی بینچیں بنائی گئیں۔ پہلی مرتبہ آئین میں بچوں کی تعلیم پر حق کو تسلیم کیا گیا اور دفعہ 25A کے تحت ریاست کو ذمہ دار قرار دیا گیا کہ وہ سولہ سال کی عمر تک کے تمام بچوں کو لازمی اور مفت تعلیم دے۔اٹھارویں ترمیم نے ایک درجن سے زیادہ وزارتوں کو صوبوں کے حوالے کردیا، جن میں تعلیم، صحت، ثقافت، لیبر، افرادی قوت، مقامی حکومتیں، دیہی ترقی، اقلیتی امور، آبادی اور سماجی بہبود، کھیل، سیاحت، ترقی نسواں، حقوقِ نوجوانان اور زکوۃ و عشر وغیرہ کی وزارتیں شامل تھیں۔18ویں ترمیم نے آئین کے تقریباً ایک تہائی حصّے کوتبدیل کیا جس کے دوررس قانونی اور علامتی اثرات ہوئے۔اس ترمیم کی تیاری میں آئین کی 102 دفعات میں ردوبدل کیا۔ یہ ترمیم آئین کی 50سالہ تاریخ میں سب سے مثبت ترمیم ہے جسے تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے تعاون سے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔اس ترمیم نے عوام کے بنیادی حقوق میں اضافے کیے، جیسے دفعہ 10A کے تحت شفاف مقدمے کا حق، دفعہ 19A کے تحت معلومات تک رسائی کا حق، دفعہ 25A کے تحت تعلیم کا حق آئینی طور پر دیا گیا۔مرکز اور صوبوں کے تعلقات بھی بہتر بنائے گئے اور ریاست کے ساتھ وفاقی اکائیوں کے اختیارات میں توازن پیدا کیا گیا۔ لیکن افسوس صوبوں نے ضلعوں کی سطح پر اختیارات کی منتقلی پرعمل نہیں کیا۔ دفعہ 140Aکے تحت مقامی حکومتوں کے قیام کی کوشش نہیں کی بل کہ اس کے راستے میں رکاوٹیں ڈالیں۔انیس تا چھبیس ترامیم کے ذریعے اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار پر نظر ثانی،فاٹا یعنی وفاق کے زیرِ انتظام علاقوں میں اضافہ، انتخابات کے لیے نگران حکومت کے قیام کا طریق کار، سرسری سماعت کی فوجی عدالتیں کاقیام، الیکشن کمیشن میں ججزکے علاوہ افسر شاہی کے ارکان کورکن بنانا،مردم شماری کے مطابق قومی اسمبلی کی نشستوں میں ردوبدل، فاٹا کو خیبرپختونخواہ میں ضم کرنے کااعلان اور قبائلی علاقوں کی نشستیں قومی وصوبائی اسمبلی میں بڑھانا شامل ہیں۔
پاکستان میں آئینی بحرانوں کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو بنیادی طور پر4قسم کے آئینی بحران ہمارے سامنے آتے ہیں۔ پہلا وہ بحران ہیں جو مستقل آئین کی عدم موجودگی ، یا کسی آئین کے معطل کیے جانے کے بعد ، متعارف کیے جانے والے عبوری نظاموں کا نتیجہ تھے۔دوسرا وہ بحران ہیں جو ملک میں4 مرتبہ فوج کی جانب سے آئینی نظام کو ختم کرکے اقتدار میں آنے کے نتیجے میں پیدا ہوئے۔1958ء ، 1969ء  اور 1977ئ￿  فوجی انقلاب اورمارشل لاء  کے نام سے آئے جبکہ 1999ء  میں مارشل لائ￿  کا لفظ استعمال نہیں کیا۔اس طرح ابتدائی 2مارشل لاء آئین کے خاتمے کے بعد نافذ ہوئے جبکہ 1977ء اور 1999ء  کے فوجی اقتدار نے آئین کو ختم کرنے کے بجائے اس کے معطل کیے جانے کا اعلان کیا۔تیسرا، وہ آئینی بحران جو آئین بننے کے باوجود اس پر عملدرآمد کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کا نتیجہ تھے۔خاص طور سے 1973ء  کے دستور کے متعارف کیے جانے کے بعد ابھرنے والے ان بحرانوں کو زیر بحث لایا جاسکتا ہے جو ہمارے آئین کے بنیادی فلسفے سے انحراف، تضادات اور متضاد شقیں ہیں۔ جہاں تک آئین کے بنیادی فلسفے پر عملدرآمد کے نہ کیے جانے کا تعلق ہے ،اس کی بھی بہت سی مثالیں ہمیں اپنی تاریخ میں مل جاتی ہیں۔ ہمارا آئین بنیادی طور تین رخی طاقت (Trichotomy of powers) کے فلسفے پر استوار ہوا ہے جس سے مرادہے کہ مقننہ، انتظامیہ اورعدلیہ اپنا علیحدہ وجود رکھتی ہیں اورانکے دائرہ ہائے کاردستور میں واضح کردیے گئے ہیں۔چونکہ ملک نے پارلیمانی طرز حکومت کو اختیار کیا ہے لہٰذا مقننہ اورانتظامیہ کے درمیان ایک تعلق اوررشتہ موجود رہتا ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ ایک دوسرے کے دائرہ کار میں غیر ضروری طور پر مداخلت بھی کرتے رہیں۔چوتھا، ملک کی تاریخ میں ایسے بھی بہت سے بحران آتے رہے ہیں جو براہ راست طور پر آئین یا آئین شکنی سے تو متعلق نہیں تھے لیکن جن کا تعلق عدلیہ سے ضرور تھا جو آئین کی پاسدار ہونے کے ناطے ایک بہت اہم کردارکی حامل ہے۔سوال یہ ہے کہ مولوی تمیزالدین خان کیس کے بعد 28مئی 1955ء کو آئین ساز اسمبلی وجود میں آئی وہ بھی گورنر جنرل کے آڈر نمبر 1955, 12کے تحت وجود میں آئی۔اسی طرح 1973 کے آئین کی ابھی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ ملک میں ایمرجنسی لگا دی گئی اور نظریہ ضرورت کی آڑ میں جن کو آئین کے آرٹیکل 6کے تحت سزا دینی چاہئے تھی ان کو آئین میں ترامیم کا اختیار دے دیا۔ آرٹیکل 6صرف آئین کو توڑنے یا معطل کرنے والوں پر لاگونہیں ہوتابلکہ اس عمل میں اعانت کرنے والوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔اگر 18ویں ترمیم کے وقت اس کا بھی اضافہ کردیا جاتا کہ آئین کو معطل یا توڑنے کے عمل کو درست قرار دینے والے سیاستدان، سیاسی پارٹیز اورججز بھی اس زمرے میں آئیں گے تو شاید ہم اس مرمت شدہ آئین کو کچھ تحفظ دے پائیں۔حقیقت یہ ہے کہ اپنے بنائے ہوئے آئین کو سب سے زیادہ مسخ جاگیردارانہ نظام کے خود روایتی اور ماروثی سیاستدانوں نے کیا، کبھی اپنے اقتدار اور نسلوں کو مضبوط کرنے کے لیے آئین میں ذاتی مقاصد کی ترامیم کراکر اورکبھی آمروں کا ساتھ دے کرکیا۔آئین میں جن ابتدائی ترامیم کا ذکر کیا گیاہے ان میں سیکوئی ایک ترمیم بھی ایسی نہیں جس کے ذریعے عوام کے جمہوری حقوق کو یقینی بنایا گیا ہو۔ ان ترامیم کا مقصد عدالتی اختیارات کو کم یا محدود کرنا اور وفاقی حکومت کے خلاف کسی بھی امکانی مخالفت کو تباہ کرنا تھا۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان 75سالوں میں تقریباً 37 سال بے آئین رہا ہے، جبکہ1973ء کے آئین کی گولڈن جوبلی کے 50سال میں سے بھی20سال آئین معطل رہا ہے۔جب تک جاگیردارانہ نظام کے روایتی اور ماروثی سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں میں خود جمہوریت نہ آئے گی تب تک یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہیگا!

ای پیپر دی نیشن