مذاکرات کا ڈرامہ ، دونوں جانب ڈنڈے کا خوف

  امیر محمد خان           
الحمداللہ بالاآخر چوروں اور لیٹروں کے ساتھ پی ٹی آئی نے مذاکرات کی دعوت قبول کرتے ہوئے  مذاکرات شرو ع کردئے ، میں نہ مانوںوالے ماحول میں دونوںہی جانب سے کوئی  سنجیدگی ہر گز نظر نہیں آرہی  ،اس لئے لگتا ہے کہ یہ  ’’کسی نہ کسی ‘‘ کے ڈنڈے نے دونوںنے ایک جگہ بٹھا کر مذاکرات کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی ہے  ، مگر  دونوںفریقوں نے اسے ’’مذاق رات  ‘‘ بنادیا ہے ہونا  کچھ نہیں یہ تو سب کو پتہ ہے ا یک فریق کہتاہے کہ  اگر میری بات نہ مانی  تو میں مذاکرات کے نتائج سے قبل ہی  سڑک پر آونگا  ، اور پھر سرحدی علاقوں سے آنے والوںکی غلیلیں ہونگیںاور قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اراکین کے سر پھٹ رہے ہونگے ، ہمارے ملک کا غیرسنجیدہ میڈیا  اپنی دکان چمکا رہا ہوگا اور انتظار میں ہوگا کہ کب یہ خوامخواہ کا مذاکراتی ڈھونگ  ختم ہوگا اور کب سٹرک پر دھینگا مشتی کی منظر کشی کرکے  ملک کی آنے والی نسل کو ملک کے مسقبل سے مایوس کرنے  اور  اسے پراگندہ کرنے کا موقع ملے گا ۔دوسر ا فریق  اکتوبر  ( وہ بھی شائد ) انتخاب کرانے پر بضد ہے  انکا بھی اپنا ایجنڈہ ہے ، پہلے پی ٹی آئی نے اپنے ایمپائر کے ذریعے کھیلا  اور انہیںبھی خواب دکھ رہا ہے کہ صدر کوئی اور چیف جسٹس کوئی اور ہوگا   اپنے ایمپائرز ہونگے ۔ مگر یہ خام خیالی ہے جب’’حکم ‘‘ہوتا ہے تو  پی پی پی کے بہت ہی قریبی صدر  لغاری مرحوم   اپنی حکومت کو وزارت اعظمی سمیت گھر بھیج دیتے ہیں۔ عدالتی نظام ہمیشہ ایسا نہیں رہے گا  جیسا اب ہے  شائد پی ٹی آئی کی حمائت  کرنے والی عدلیہ نہ ہو قانون پر عمل درآمد کرنے والی عدلیہ ہو  تولچھن تو اتحادیوں کے بھی ایسے نہیںکہ ملک کا آئین انہیں برداشت کرے ،اب اس عدلیہ کو کیا کہا جائے جسکی مثال یہ ہے کہ توشہ خانہ مقدمہ شروع ہونے سے قبل ہی جج صاحب نے ارشاد فرمایا یہ تو کوئی کیس ہی نہیں، نواز شریف کے خلاف مقدمے بھی ایساہے ہی ہوا کہ جج صاحب ملزم کی آمد سے قبل مقدمہ سننے سے قبل ہی انہیں’’مافیا  ‘‘قرار دے دیا ، پنامہ کا مقدمہ شروع ہوا اور اقامہ رکھنے کی جرم نااہل قرار دے دیا ۔ اسی طرح دوسری جانب بے شمار مقدمات میں عمران خان  گھر بیٹھے ضمانت بھی مل جاتی ہے ۔قانون کی پاسداری ہو تو  انصاف نظر بھی آئے ۔کوئی تحریک انصاف سے پوچھنے والا نہیںکہ  اگر اسمبلی نہیں بیٹھنا تھا  استفعوں کا ڈھونگ کیوں رچایا ، استعفے تو ایک طرف  پنجاب اور سرحد میں اسمبلیان توڑ کر  اب شنید کہ پنجاب سرحد میں دوبارہ انتخابات  ، یا  وہاں کی اسمبلیاں بحال کرنے پر  عوام کے محبوب لیڈر  عمران خان آواز لگا رہے ہیں اور اسکے لئے وہ  عدلیہ جائینگے ۔ دراصل  اب تو لگتا ہے کہ  انتخابات کرانے کا مطالبہ اسلئے ہوتا ہے  اس بات سے قطعہ نظر کے ملک کا کتنا پیسہ خرچ  ہوگا ، سیاسی جماعتوںنے انتخابات کو دھندہ بنا لیا ہے۔کسی بھی نشست کے ٹکٹ کیلئے امیدوار کو  اپنی جماعت کو  کم از کم ایک  کروڑ  روپیہ دینا ہوتا ہے جس سیاسی جماعتوںکو اربوںروپے فنڈ مل جاتا ہے ،کوئی تو سوچے کہ اس ملک میںکون اتنا پارسا ہے جو عوام کی محبت میںسرشار ہوکر  نشست حاصل کرنے کیلئے ایک کروڑ چندہ دے گا ، وہ تو حساب لگاتا ہے کہ ایک کروڑ دونگا تو  کتنے کروڑ کمائونگا ۔ پھر  وزارت ، اسپیکر ، ڈپٹی اسپیکر ، جیسے اہم عہدوںکی نرخ علیحدہ ہوتے ہیں ، قانون تو ہے کہ امیدواروںکے اخراجات پر الیکشن کمیشن نظر رکھے گا  ، مگر  وہاںبھی دو نمبری ہوتی ہے  اور اخراجات  کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کارکنوں نے کئے ہیں  ، جبکہ کارکن تو  ایک پلیٹ بریانی کے آسرے پر  وہاںموجود ہوتے ہیں۔ اسطرح ایک سیٹ پر  خرچ  تین کروڑ سے زیادہ ہے  بشمول  پارٹی کو دئے جانے والی رقم کے ۔  ہمیں مجبوری میں  تمام سیاستدانوں کو محترم کہنا پٹرتا ہے چونکہ حاضر اسٹاک  میں تو یہ ہی ہیں ، انہوں نے ہی ہماری  ’’خدمت  ‘‘کرنی ہوتی ہے ، اور کامیابی کے بعد  سیاہ و سفید کے مالک ہوجاتے ہیں۔ دنیا بھر میں سیاسی جماعتیں اپنا منشور پیش کرتی ہیں مگر ہمارے ستر سالوںکی کارکردگی دیکھتے ہوئے منشور کا  کوئی عمل دخل نہیں ہوتا چونکہ  اسپر کسی نے عمل کرنا ہی نہیںہوتا ماسوائے کہ کامیابی کے بعد ایک گھسا پٹا جملہ  کہ ’’ سا بقہ حکومت نے سب تباہ  کردیا ‘‘  پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے سیاست میں یوٹرن تو لیا لیکن بہت سارے نازک معاملات میں انا، تکبر، ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا اس کی تفصیل میں جانا تو غیر ضروری ہے البتہ مذاکرات کے حوالے سے ان سے جب بھی بات کی جاتی تو وہ یہی کہتے کہ چوروں سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے، حالانکہ وہ ریاست مدینہ کا نام لیتے ہیں اور اپنی گفتگو اور انٹرویو ز میں اکثر پیارے نبی ؐکا بھی نام لیتے لیکن شاید وہ سیرت النبی ؐکے اس پہلو کو بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے مکہ کے جانی دشمنوں سے بھی مذاکرات کیے، یہودیوں سے مذاکرات کیے ہیں، پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے رہنمائوں پر بالخصوص ن لیگ اور پی پی پی پر بدعنوانی اور قوم کا پیسہ غبن کرنے کا الزام ہے ان کے کیسز عدالت میں چل رہے ہیں بعض معاملات میں کچھ کو سزائیں بھی ہو چکی ہیں پھر یہ کہ دنیا کی عدالت سے انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آتا تو آخرت کی ایک بڑی عدالت تو موجود ہے جہاں پر کسی کے ساتھ کسی قسم کی کوئی ناانصافی نہیں ہوگی اس لیے ملکی سیاسی معاملات میں اتنا سخت رویہ اختیار کرنا مناسب نہیں تھا اسی طرح ن لیگ سے جب مذاکرات کے حوالے سے بات کی جاتی وہ عمران خان کے بارے میں کہتے ہیں کہ مذاکرات تو سیاستدانوں سے ہوتے ہیں دہشت گردوں سے نہیں ہوتے۔یہ معروف بات ہے کہ جب دو فریقوں  میں مذاکرات ہوتے ہیں  دونوں طرف سے الزام تراشیاں بند کردی جاتی ہیں مگر عوام دیکھ رہے ہیں ایسا کچھ نہیں، عمران خان کہہ چکے ہیںاگر مذاکرات میں میری بات نہیںمانی گئی تو میںسڑک پر آونگا ، اسلام آباد جائونگا اور وہ مستقبل کی بات نہیںکرتے وہ یہ عمل دوران مذاکرات شروع کرچکے ہیں ، اور دوسری طر ف عمران خان کے بقول چور ،لٹیرے ، ڈاکوبھی بضد ہیں، اب عمران خان ڈاکو کا لفظ استعمال نہیںکرتے چونکہ جنہیںوہ سالوں ڈاکو کہتے رہے انہیںاپنی پارسا  ، نیک جماعت کا  صدر بنا دیا ہے ۔ بادی النظر میںدیکھا جائے تو  جمہوری روایات کو سب سے زیادہ نقصان عمران خان نے ہی پہنچایا ہے نہ وہ اسمبلیوںسے باہر آتے نہ ہی باآسانی اتحادی حکومت قانون سازی کرتی بقول عمران خان چوروں نے اپنی سہولیت کیلئے قانون سازی کی ہے  ، اس میںاگر اتحادی قصور وار  ہیں تو محبوب لیڈر عمران خان بھی قصور وار ہیں۔عدلیہ کی یہ بات خوش آئیند ہے جو کہ  خلاف  قانون ہے کہ  اسمبلی میںبل آنے سے پہلے عدالت عالیہ نے اسے خلاف قانون قرار دے دیا  ۔یہ تو وہی بات ہوئی کسی کی شکل دیکھ کر کہا جائے کہ یہ ضرور قاتل یا چور ہے ، چاہے وہ بے چارہ  سادہ انسان ہی کیوںنہ ہو۔ گو کہ اب عمران خان اپنے سارے گناہوں ( جو جمہوریت یا اقتدار کے دورن کئے ہیں ) کا ملبہ سابق سپہ سالار پر ڈال رہے ہیںجس میںپنجاب اورسرحد اسمبلی تڑوانے کا الزام بھی شامل ہے مگر یہ مطالبہ تو اتحادیوںکا بھی تھا  اگر انتخابات چاہتے ہو تو پنجاب اور سرحد اسمبلی توڑ دو تو انہوںنے توڑ دی  اب کاہے تاخیر ہے ، یہ خوف ہے موجودہ ملکی حالات میںعبرتناک شکست کا ۔   

ای پیپر دی نیشن