فیض عالم
قاضی عبدالرﺅف معینی
ایک دفعہ کا ذکر ہے موسلا دھار بارش کے بعد جل تھل ایک ہو چکا تھا۔ہر طرف پانی ہی پانی۔یہ پانی آہستہ آستہ کچھوے کی رفتار سے اترنا توشروع ہوگیالیکن ایک چوراہے میں اترنے سے انکاری ہوگیا اور راہگیروں کے لیے وبال جان بن گیا۔ہر کوئی گزرتے ہوئے بڑبڑا رہا تھا جو یقیننا حاکمان وقت اور انتظامیہ کے حوالے سے ”توصیفی کلمات“ ہی تو تھے۔بڑی دیر بعد ایک سمجھداربندہ خدا آیا ، اس نے ایک لمبی سی چھڑی اٹھائی اور تھوڑی دیر پانی کے اندر دائیں بائیں اور اپر نیچے گھمائی تو پانی تیزی سے یہ جا وہ جا اور چوراہا صاف ہو گیا۔قارئین آپ صحیح سمجھے۔ایک ناہنجار مومی لفافہ جسے عرف عام میں شاپر یا شاپنگ بیگ کہا جاتا ہے ،پانی کے تالاب اور سیوریج لائین میں رکاوٹ بنا بیٹھا تھا۔جیسے ہی اسے ہٹایا گیا تودیرینہ مسئلہ حل ہو گیا۔یقین کریں ہمارے بہت سے مسائل اس دن سے حل ہو نا شروع ہو جائیں گے جس دن ہم نے زبان کو حرکت دینے کی بجائے ہاتھوں کو حرکت دینا شرو ع کر دی ۔واضح رہے کہ ملک عزیز کا زوال وسائل کی کمی کی وجہ سے نہیں۔الحمدللہ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ ملک سے کسی بھی صورت کم نہیں۔بے مثال زوال کی دیگر بہت سے وجوہات کے علاوہ بڑی وجہ بے عملی ہے۔سادہ لفظوں میں ”ہڈ حرامی“ قوم کے گوڈوں اور گٹوں میں رچ بس گئی ہے۔نوجوان سرکاری ملازمت کے عاشق ہیں ۔اس عشق کی وجہ پوچھیں تو جواب ملتا ہے کہ اگر ملازمت مل گئی تو کام نہیں کرنا پڑے گا۔ اس حوالہ سے سرکاری محکموں میںمحکمہ تعلیم سر فہرست ہے جہاں سال میں سات ماہ تو بالکل کام نہیں کرنا پڑتا تنخواہ بھی گھر پہنچا دی جاتی ہے۔سرکاری ملازمین کام کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں ۔ان ملازمین کی اکثریت چونکہ جزوقتی یا کل وقتی طور پر نجی اداروں میں بھی ”خدمات“ سر انجام دے رہی ہوتی ہے،وہاں ان کی پھرتیاں قابل دید ہوتی ہیں۔ہر فرد دوسروں کوتو وعظ و نصیحت کر رہا ہے لیکن بذات خود عمل سے گریزاں ہے۔ بقول حضرت علامہ ڈاکٹرمحمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ
اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا غازی یہ تو بنا ، کردار کا غازی بن نہ سکا
بے عملی سے قوم جمود کا شکار ہو چکی ہے اور اس جمود کی وجہ سے حالات کچھ یوں ہو گئے کہ اب
سورج چڑھیا پچھم توں
تے پورب آن کھلویا
اج دا دن وی ایویں لنگھیا
کوئی وی کم نہ ہویا
یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں انفرادی یا اجتماعی ترقی مسلسل محنت کے بغیر ممکن نہیں۔قوموں کی ترقی کا راز عمل پیہم میں پوشیدہ ہے۔
نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا
سو بار جب عقیق کٹا تب نگیں ہوا
معاشرہ کا ایک روگ بے مقصد سیمینار بھی ہیں ۔ویسے تو سیمینار کی افادیت دنیا بھر میں مسلم ہے لیکن ملک عزیز میں ان کا کوئی فائدہ نظر نہیں آرہا۔یہ سیمینار نشستند، گفتند اور برخاستند یعنی بیٹھو، گفتگو کرو اور تشریف لے جاﺅ سے آگے نہیں جا رہے۔اب اس سارے سلسلہ میں خوردند یعنی کھا ﺅ پیو بھی شامل ہو چکا ہے۔ سنا ہے ایک صدر مملکت صاحب ان سیمیناروں کے سخت مخالف تھے وہ فرماتے تھے ایک سیمینار اس موضوع پر بھی ہوجائے کہ ان سیمیناروں کا کوئی فائدہ نہیں۔دنیا بھر میں بھی جب کسی حوالے سے کوئی دن منایا جاتا ہے تو سماجی اور فلاحی تنظیمیں بڑے جوش و خروش کا مظاہرہ کرتیں ہیں۔لیکن ملک عزیز میں یہ بھی بے مقصد سرگرمی اور وقت گزاری کے سوا کچھ نہیں ۔ گزشتہ روز مزدوروں کا عالمی دن منایا گیا۔ستم ظریفی یہ ہے کہ سرکاری اور نجی ادارے بند ہوئے ،تعلیمی اداروں میں بھی تعطیل تھی بس اےک طبقہ کو چھٹی نہ ملی جس کا دن منایاجا رہا تھا۔حکومتی عہدیداروں نے تقریریں کیں ،تصاویر بنوائیں لیکن آج تک مزدور کے حالات نہیں بدلے کیونکہ
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
واعظین اور ناصحین شعلہ بیانیوں سے ”بھانبڑ بال“ رہے ہیں لیکن معاشرہ ہے کہ تباہی اور بربادی کی طرف رواں دواں ۔سوشل میڈیا پر فیس بکی دانشور واعظ و نصیحت کی بھر مار کیے ہوئے ہیں ۔ ہر کوئی خواہش رکھتا ہے کہ دوسرا فرد کچھ کرے لیکن میں کچھ نہ کروں۔بے عملی کی بڑی مثال یہ بھی ہے کہ سیاسی جماعتیں الیکشن کے دوارن جس منشور کو لہرا رہی ہوتی ہیں الیکشن کے بعد وہ مشور ایک بوسیدہ کاغذ کے پرزے سے زیادہ نہیں ہوتا ۔ عمل ندارد ۔یاد رکھیں حکومت سے کسی بڑی بھلائی کی توقع نہ کریں خود اپنی اور معاشرہ کی فلاح و بہبود کے لیے میدان عمل میں آئیں۔
یہی آئین قدرت ہے ،یہی اسلوب فطرت ہے
جو ہے راہ عمل میں گامزن ،محبوب فطرت ہے