خیالات …شہزاد منیر احمد ریٹائرڈگروپ کیپٹن
shehzadmuneerahmad@gmail.com
ریاست کیا ھے۔ایک مخصوص علاقے میں آباد سیاسی طور پر منظم ملت،جو آزاد اور اپنی خودمختار حکومت کے تابع کام کرے، وہ علم سیاسیات کی رو سے ریاست کہلواتی ھے۔ ریاست اپنے ضروری عناصر ،علاقہ, عوام، خود مختاری اور حکومت کے ساتھ ایک مستقل ادارہ ہوتی ھے۔جن میں سے ریاستی حکومت وقفے وقعے سے بدلتی رہتی ھے۔امتداد زمانہ سے ریاست کے رقبے میں کمی بیشی ہو بھی ، تب بھی ریاست اپنے لازمی چاروں عناصر کے ساتھ موجود رہتی ھے۔ تب ریاست اپنے نظریہ کے نام سے شہرت پاتی ھے۔ جیسے جمہوری، سوشلسٹ ،اسلامی یا فاشسٹ وغیرہ۔قوم اور ملت میں فرق یہ ہوتا ھے کہ ایک نسب و نسل قبیلے کے لوگ قوم کہلاتے ہیں۔جب یہ لوگ سیاسی طور پر اپنی خود مختار ریاست قائم کر لیں تو وہ بین الاقوامی سطح پر ایک قوم تسلیم کئے جاتے۔ جب کے ملت میں نسب و نسل اور علاقے کی قید نہیں ہوتی۔ صرف ان کا نظریہ حیات مذہب اور عقیدہ ہونا لازم ھے۔ جیسے ملت اسلامیہ کا فلسفہ ھے " اسلام تیرا دیس ھے تو مصطفوی ھے " اور ملت عیسیٰ ،ملت موسیٰ اسوغیرہ وغیرہ۔ ریاست کا وجود اس لیے عمل میں لایا جاتا ھے کہ۔ایک۔مخصوص علاقے میں آباد لوگ اپنی صلاحیتوں کے مطابق پر امن اور خوشحال زندگی گزاریں۔اس علاقے کے لوگ ایک معاہدے کے مطابق اپنی حکومت تشکیل دیتے ہیں۔ یہ معاہدہ ریاستی آئین کہلاتا ھے جو ایک مقدس دستاویز تسلیم کی جاتی ھے۔ریاستی اداروں کی تشکیل، ان کے فرائض و اختیارات اور طریقہ کار ساری تفصیلات اس آئین میں درج ہوتی ہیں۔ آئین سے انحراف ناقابل معافی جرم سمجھا جاتا ھے۔اس لیے کہ ائین توڑنے کا مطلب ریاست کے ڈھانچے کا انجر پنجر ہلانے کا اغاز۔ علامہ اقبال تقدیس ائین پر ایمان رکھنے اور اس کی اہمیت پر رقم طراز ہیں۔
قوموں کے لیے موت ھے مرکز سے جدائی
ھو صاحب مرکز تو خودی کیا ھے، خدائی
ریاستی عوام
ائین کے مقدس محترم حیثیت رکھنے کے باوجود ریاست میں ائین شکنی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ مخصوص مزاج کے آدمیوں کی فطری خباثت میں شر کا عنصر ہوتا ھے۔ انسان نہیں بدلا اس کی فطرت نہیں بدلی اس کی۔نفسیات نہیں بدلی اس کا مزاج بدلا ھے۔ انسان انسانیت کا اول نقیب ہونے کے ساتھ ساتھ فطری طور پر خود غرض ، جلد باز ، جگھڑالو اور فسادی بھی ہے۔ اس لیے بسا اوقات وہ کبھی سرکشی میں تو کبھی سرشاری میں ایسے اقدامات کر جاتا ھے۔ ریاستی آئین کے خلاف ہونے کے سبب قانون کی گرفت میں آ کر مجرم سزا پاتا ھے۔ تو کبھی حب الوطنی میں اپنی جان بھی قربان کر کے آئیندہ نسلوں کا بھی ہیرو بن جاتا ھے۔ جبھی تو کہا جاتا ھے کا… امن پسندوں اورتخریب کاروں کے درمیان یہ اختلاف ریاست کے وجود کے لیے خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ھے اور نعمت غیر مترقبہ بھی۔
ریاست میں نہ چاہتے ہوئے بھی دو گروہ خود بخود پیدا ہو جاتے ہیں۔ سیاسی اصطلاح میں انہیں حزب اقتدار اور حزبِ اختلاف کہا جاتا ھے۔اگر حزب اختلاف ، حکومتی فیصلوں کو آئینی کے خلاف پا کر حکومت کی۔مخالت کرے تو حزب اقتدار کبھی عوامی مفاد کے خلاف فیصلہ نہیں کر سکتی۔اور نہ ہی ملک میں بد عنوانی ، کرپشن و رشوت ستانی پنپ سکتی ھے۔ المیہ یہ ھے کہ حزبِ اختلاف ایسا قانونی اور آئیڈیل رویہ اختیا نہیں کرتی۔ وہ صرف حکومتی گروہ سے حسد کرتی ھے اور انتقامی کارروائی کی ٹوہ میں رہتی ھے۔ حکومت حزب اختلاف سے کھار بھی کھاتی ھے اور حسد بھی کرتی ھے۔ حسد ایک ایسا کینسر ھے جو علاج سے نہیں ، عقل سلیم اور حسد کی بیخ کنی سے ختم ہوتا ھے۔ حسد میں خصوصی وصف یہ ھے کہ حاسد نہ خود کبھی خوش رہتا ھے اور نا ہی اوروں کو خوش دیکھ سکتا ھے۔ریاست کا اثاثہ اس کا نظریہ حیات ، قومی دولت ، معدنیات ، جغرافیائی اہمیت اور عوام کی اپنی ریاست سے محبت ہوتی ھے۔ حکومت کا سب سے بڑا کام ریاست ، ریاستی وسائل اور قومی دولت کا تحفظ ہوتا ھے۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ھے کہ آزاد ریاست اپنے ہی حکمرانوں کے ہاتھوں غلامی میں لڑھک گئی۔ جیسے بر صغیر میں انگریزوں نے ہندوستان کو اپنی کالونی بنالیا۔ اور ایک غلام لیڈر کے ہاتھوں آزادی کی نعمت حاصل ہونے کی مثال اسلامی جمہوریہ پاکستان کا محمد علی جناح کے ہاتھوں معرضِ وجود میں آنا۔
قیادت کا کرشمہ
اہل علم و نظر اور فکر و خیال ہی در اصل قومی قیادت کے اہل ہوتے ہیں۔ وہ اپنے تاریخی مطالعہ اور حالیہ مشاہدات کی روشی میں اپنی قوم کے مروجہ نظام کا موازنہ کرتے ہوئے تبدیلی چاہتے ہیں۔ مقتدر حلقے مگر STATUS QUO کو برقرار رکھنے پر بضد ہوتے ہیں۔ یہ اختلاف ہی ریاست میں انقلاب کا باعث بنتا ھے۔ اس ضمن میں ہم کائنات کے خالق اور علیم و حکیم اللّٰہ کی کتاب سے مدد لے کر دیکھتے ہیں۔
اللّٰہ الرحمٰن نے اپنے بندوں کی ھدایت کے لیے جتنے نبی اور رسول مبعوث فرمائے انہیں ان کی امت نے جھٹلایا۔ اس قوم کے سرداروں نے یہی عذر پیش کیا کہ ہم تو وہی کریں گے جیسا ہم نے اپنے آبا واجداد کو کرتے دیکھا۔ اپ بھی ہم جیسے بندے ہو، ہم تمہاری بات نہیں مانیں گے۔ بلکہ یاد رکھو اگر تم اس تبلیغ سے باز نہ آئے تو ہم تمہیں یا تو سنگسار کریں گے یا اس بستی سے نکال دیں گے۔ اللّٰہ نے ان منکرین کو معاف نہ کیا۔ کسی کو سیلابی طوفان سے مٹایا، کسی کو دریا میں ڈبویا۔ کسی کو مہک چنگھاڑ سے مار دیا۔ آج کی دنیا میں اللّٰہ منکرین ومشرکین کو تباہ نہیں کرتا ڈھیل دے کر تباہ کرتا ھے۔ اب قوم کی اصلاح کرنے والوں ، کامیابی کی بہتر راہنمائی کرنے والوں کو سردار ،( جاگیر دار اور سرمایہ دار,) ایسے انقلابیوں کو فتنہ قرار دے کر جیل میں بند کرتے اور خود حکمرانی کرتے ہیں۔معصوم اور مظلوم ریاست بے بسی سے ان ظالموں کے کوتکوں کو دیکھتی اور پچھتاتی ھے۔
انقلابیوں کے اندر سچائی کا طوفان انہیں غاصب سرداروں سے براہ راست ٹکرانے پر مجبور کرتا ھے۔کیونکہ سچ کو جھوٹ سے دوستی کا ہاتھ ملانا نا ممکن ہوتا ھے۔ وہ تکلیفیں سے گزرتا ھے، اذیتیں جھیلتا ھے مکر اپنے سچے موقف سے منحرف نہیں ہوتا۔ اخر کار قدرت اسی انقلابی کو اسی سرزمین پر انہیں سرداروں کا حاکم بنا کر جہد و جہد کے نتیجے میں مثالی انداز میں سرفراز کرتی ھے۔ عوام اش اش کر اٹھتے ہیں۔ اور انعام پانے والا مثالی نامور ہیرو بن جاتا ھے۔ساوتھ افریقہ برطانوی سلطنت کی کالونی تھی۔ پھر اور تین کالونیوں کا ملا کر اسے خود مختار ریاست کی حثیت دے کر آزاد کر دیا گیا۔ ریاست میں سیاہ فام اور گوروں کے درمیان نسلی امتیاز قائم تھا۔ نیلسن منڈیلا افریکن نیشنل کانگریس کا رکن تھا۔ وہ اس نسلی امتیاز کے خلاف آواز اٹھاتا رہا۔ جس پر حکومت اسے جیل یاترا کرواتی رہی۔ جیل سے رہا کیا جاتا تو وہ ملک میں جاری عصبیت ، جس میں کالے لوگوں کو انسانیت سے بھی بدتر سلوک کا سامنا تھا دیکھ کر اپنے نظریات کے مطابق اور بڑھ کر احتجاج کرتا۔اسے کنگرو کورٹس پھر جیل بھیج دیتی۔ نیلسن منڈیلا نے ساوتھ افریقہ میں سیاہ فام سے نسلی امتیاز برتے جانے کے خلا ف اپنی زندگی کے 27 سال سے زائد عرصہ طرح طرح کی۔مشکلات اور اذیتیں جھیلتے جیل میں گذارے۔ ریاست جنوبی افریقہ تب بھی وہیں تھی مگر نیلسن منڈیلا کی کوئی مدد نہ۔کر پائی۔ ریاست خود اپنے کارندوں سے مغلوب ہو کر اپنی شناخت بدلنے کا سبب بنتی ھے۔اب کے نیلسن منڈیلا جیل سے باہر آیا تو وہ اس قدر پسندیدہ شخصیت بن چکا تھا کہ اسے ملک کا صدر منتخب کر لیا گیا۔ اقتدار سنبھالنے کے ساتھ اس نے سارے سیاسی مخالفین کو عام معافی دے کر ملکی ترقی کی خاطر بلا کسی امتیاز ہر شہری کو ریاستی حقوق میں برابر قرار دے دیا۔ نیلسن منڈیلا ساو¿تھ افریقہ کا انقلابی لیڈر ،ملک کا صدر ، انسانیت کا علم بردار۔ شہری آزادیوں کا نقیب اور حقیقت پسندی کا مینار ایک دن میں نہیں بنا تھا۔ انقلابی شخصیات کو شروع شروع میں مزاحمتوں ، مخالفتوں اور منفی پروپیگنڈا کا سامنا ہوتا ھے مگر وہ ہمت نہیں ہارتے۔اپنی۔منزل تک پہنچ کر دم لیتے ہیں۔ کائنات پر ظاہریت کی چادر تان کر حقیقت ڈھانپی ہوئی ھے۔ اسی طرح ریاست پر ہمارے فیصلوں پر نمود کا رومال بچھا کر حکومتی اعمال اور کارکردگی کی اصلیّت اوجھل رکھی جاتی ھے۔ نظریاتی شخصیات کا مسلہ یہ ہوتا ھے کہ اپنے نظریہ کو تب تک ترک نہیں کرتے جب تک انہیں نظریاتی شکست دی جائے۔
1933 میں ہٹلر آئینی بادشاہت کو ختم کر کے اقتدار میں آیا۔ ریاست وہی تھی جو ائینی بادشاہت میں تھی۔ لیکن عوام کی سوچ بدل دی گئی۔ ہٹلر نے فسطائیت قائم کر دی تو وہی ریاست ایک طاقتور ترین ملک بن گیا۔ بڑے بڑے طاقتوروں کو فتح کرتا چلا گیا۔ کہنا مقصود یہ ھے کہ قوم کی پاسداری کے لیے ایک ہی نظریاتی شخصیات کافی ہوتی ھے۔ سلطنت عثمانیہ ختم کر دی۔ترکی۔میں مصطفیٰ کمال اتاترک نے انقلاب برپا کر دیا۔ جنگ ہوئی۔۔ کہا گیا ترکی کو شکست ہو گئی ھے۔ کمال اتاترک نے کہا " ترکی میرا نام ھے۔ میں ترکی ہوں۔ میں نے شکست تسلیم نہیں کی۔ ترکی کیسے شکست کھا سکتاھے''ملت کی پاسبانی کو اک روح بیدار شرط ''