طارق شہزاد چودھری
ایسٹ انڈیا کمپنی 1600ء میں لندن میں قائم ہوئی اور 1616ء میں ہندوستان میں مصالحہ جات کی تجارت کی غرض سے نمودار ہوئی۔
اس کے برصغیر میں تسلط اور قبضے کو روکنے کی فکر سب سے پہلے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی طرف سے نظر آتی ہے۔ جنہوں نے مغربی استعمارکے بارے میںخبردارکیا۔پہلی عملی جدوجہدانہ حکومتی سطح پر بنگال میں نواب سراج الدولہ نے کی۔مگر اسے اس مزاحمت میں میر جعفر کی غداری کی وجہ سے کامیابی نہ مل سکی ۔میسور میں ٹیپو سلطان کے والد حیدر علی نے انگریزوں کا خوب مقابلہ کیا مگر وہاں بھی میر صادق لنگ غدار نکل آیا جس نے انگریزوں کے ساتھ مل کر اپنوں کو پیٹھ میں چھرا گھونپا۔
ٹیپو سلطان نے باقاعدہ سلطنت خداداد کی بنیاد رکھی اور اس کی فوج نے انگریزوں کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج کو جو لوہے کے چنے چبوائے وہ ایک الگ تاریخ ہے۔ تاریخ میں مورخّین نے کسی بھی جنگجو سلطان اور بادشاہ سے اتنے زیادتی نہیں کی،جتنی ٹیپو سلطان سے ہوئی۔سلطان نے عنانِ امورِ حکومتِ میسّور اپنے والد حیدر علی کی وفات کے بعد 1782ء میںسنبھالا۔سلطان نے اپنی ریاست کو ریاست خداداد کا نام دیا۔
1784ء میں ترک سلطان عبدالحمّید کو لکھا کہ سلطنت تیموریہ کے کمزور ہو جانے کے باعث نصاریٰ نے ہندوستان کے بعض ساحلی علاقوں پر تجارت کے بہانے قبضہ کر لیا ہے۔سلطان نے پیشکش کی ،کہ جو ترک فوجیں میسور پہنچیں گی ان کا تمام خرچ ریاست میسور کی ذمہ داری ہو گئی۔ سلطان عبدالحمید جب چاہیں اپنی فوج واپس بلا سکیں گے۔ ایک اندازے کے مطابق صرف بنگال سے انگریزوں کو اس وقت 35کروڑ روپیہ سالانہ کی آمدنی ہوتی تھی۔ترکی حکومت نے ٹیپو سے معاہدہ کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ جس طرح ہندوستان کے لیے انگریزی تسلط کا خطرہ تھا، اسی طرح روسی استعمار ترکوں کے لیے خطرناک تھا۔ چنانچہ سلطان عبدالحمّید نے اس کو جواب میں تحریر کیا آپ کا دوست بھی اپنے آباء کے طریق پر جہاد کی راہ پر گامزن ہے دفاع کیلئے ہماری فوجیں سرحدوں پر جمع ہو رہی ہیں۔ ٹیپو سلطان نے تو خلافت کا بھی مطالبہ کیا تھا کہ میسّور کو اسلامی خلافت عثمانیہ میں شامل کیا جائے اور اسے ریاست خداداد کا گورنر مقرر کیا جائے۔
انگریزوں کی دشمنی میں میسور اور فرانس ان دنوں ایک رشتے میں منسلک تھے۔ ٹیپو کے سفراء کا شاہ فرانس نے بہت گرم جوشی سے استقبال کیا، اس استقبال کے لیے خود بادشاہ نے اپنے قالین بھیجے تھے۔ _3 اگست 1788ء کو ان سفیروں کی شاہ فرانس سے ملاقات ہوئی، تا ہم اس ملاقات کا کوئی مثبت نتیجہ نہ نکلا چونکہ فرانس اس وقت انقلاب عظیم کے دروازے پر پہنچ چکا تھا۔ ٹیپو سلطان ایک اور کوشش کی اور جزیرہ ماریشس کہ گورنر ملارٹک کو لکھا، کہ اگر تم اس وقت ہمارا ساتھ دو گے تو ہم انگریزوں کو ہندوستان سے نکال دیں گے۔ اس امر کے بھی کوئی خاطر خواہ فوائد حاصل نہ ہوئے۔
ٹیپو سلطان نے افغانستان کے شاہ زمان سے بھی رابطہ کیا۔ زمان شاہ کا خیال تھا کہ برصغیر میں داخل ہو کر مغل سلطنت کے اقتدار کی بحالی میں مدد دی جائے۔ زمان شاہ حسب وعدہ اپنی فوجوں کے ساتھ دسمبر 1798ء میں لاہور تک پہنچ گیا۔ لیکن یہاں سے اسے جلد واپس جانا پڑا،اس میں شک نہیں کہ اگر زمان شاہ کی فوجیں اگر آگے بڑھتی چلی جاتیں تو ہندوستان کے بہت سے سردار اس کے ساتھ ہو جاتے اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے ایک پیچیدہ مسئلہ پیدا ہوجاتا۔
ٹیپو سلطان ایران سے بھی اشتراک عمل کی کوشش کی۔ 1797ء میں ایران کا شہزادہ اپنے باپ سے لڑ کر سرنگا پٹم آ گیا۔ یہاں ٹیپو نے اسے خوش آمدید کہا، اور اپنے پاس رکھا۔ جاتے وقت اس نے شہزادے سے کہا " اپنے دارالسلطنت کے معاملات طے کرنے کے بعد میری خواہش ہے کہ تم میرے اور زمان شاہ کے ساتھ مل کر ہندوستان اور دکن کے مسائل حل کرو " شہزادہ اس کے لیے راضی ہو گیا۔ ٹیپو نے خود شاہ ایران کے پاس اپنے ایک قاصد کے کے ذریعے یہ تجویز بھیجی کہ سلطان کی یہ خواہش تھی کہ تجارت کا قدیم خشکی کا راستہ جو ایران سے ہو کر یورپ تک جاتا ہے وہ اس سے دوبارہ جاری کرے۔ لیکن اس کی مدت حکومت اس قدر مختصر تھی کہ وہ اس منصوبے کو عملی شکل نہ دے سکا۔
ٹیپو سلطان کی سلطنت خداداد اور ریاست میسور کے پڑوسی نظام حیدراباد اور مرہٹے انگریزوں سے مل کر ریاست میسور کے خاتمے کے در پر تھے۔ لیکن نظام کی طرح مرہٹوں سے بھی ٹیپو نے دوستانہ روابط قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا لیکن وہ بدستور انگریزوں کی ٹیپو سے ہونے والی لڑائیوں میں انگریزوں کا ساتھ دیتے رہے۔ 1787ء میں سلطان نے مرہٹوں کو شکست دی۔ بعد ازاں دوستی کی غرض سے نہ صرف پیسہ دیا بلکہ قلعے بھی دیے۔ مگر مرہٹوں پر اس کا کچھ اثر نہ ہوا۔ انہوں نے جنگ میں لارڈ کارنوالس کا ساتھ بھی دیا۔ مرہٹوں کے حکمران و پیشواء بابا فرنویس کو آ خر تک یہ اندازہ نہ ہوا کہ ان کا اصل دشمن ٹیپو نہیں بلکہ انگریز ہیں۔ لیکن ٹیپو کی شہادت کے بعد اسے صحیح نقشہ نظر آیا۔ اس نے جب کہا " ٹیپو ختم ہو گیا، انگریزوں کی قوت برابر بڑھ رہی ہے، اب سارا مشرقی ہندوستان ان کے قبضے میں آ جائے گا اور پونہ ان کا نیا شکار ہوگا۔"یہ پیش گوئی بھی جلد پوری ہو گئی، نتائج کا ذمہ دار خود نانا فرنویس تھا۔ ٹیپو سلطان شہید تاریخ بر صغیر کا وہ کردار ہے۔ جس کو کبھی فراموش کیا ہی نہیں جا سکتا۔
سلطان شہید نے نپولین بوناپارٹ کی طرح چار بائی چار فٹ کے پنجرے میں اذیت ناک موت کے مقابلے میں میدان جنگ میں لڑتے ہوئے، شہید ہونا مناسب سمجھا۔ لیکن اس نے سبسٹریری الائنس معاہدے پر دستخط نہیں کیے۔ ہندوستان کی 550 سے زائد ریاستیں سب کچھ کرنے کے لیے تیار تھیں۔ ٹیپو شیر تھا جسے شیر پسند تھا، وہ شیر کی طرح جیتا رہا لڑتا رہا، شیر کی طرح دنیا سے رخصت ہوا۔ اس کا تخت بھی شیر کی کھال سے بنا ہوا تھا اس کے فوجیوں کا لباس بھی شیر کی کھال کہ مشابہ تھا۔ اس کی توپوں اور تلواروں پر بھی شیر کندہ تھا۔
ٹیپو سلطان ایک دلیر زیرک اور ترقی پسند مسلمان مجاہد تھا۔ بیرونی ممالک سے اور ہندوستان کے حکمرانوں سے روابط پیدا کرنے کا اس کا واحد مقصد یہ تھا کہ وہ ایک ایسا اتحاد قائم کرنے میں کامیاب ہو، جو وطن کے بیرونی اقتدار سے نجات دلائے۔ فرانس انقلاب سے دوچار تھا ترکی انحطاط میں مبتلا تھا۔ مرہٹوں کی ہوس اقتدار ختم نہیں ہوتی تھی۔ نظام حیدرآباد ایک کمزور حکمران تھا۔ زمان شاہ متلون المزاج بادشاہ تھا۔ اس سے مدد کی اپیل کسی قدر بھی درست فیصلہ نہ تھا۔
ایک طرف تو ،سقوط سرنگا پٹم کے پیچھے مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کا بڑھاپا ، 1707ء میں اس کا انتقال ، شہزادوں کی اقتدار کے لیے رسہ کشی اور عیاشیاں ، شاہ معظم اور رنگیلا شاہ جیسے کردار مغل سلطنت کے زوال کی وجہ بنے اور دوسری طرف عالمی سیاسی منظر نامہ،ٹیپو کے بعض کارندوں کی غداری، انگریزوں کی قوت میں برتری اور تین ریاستوں پر حکمرانی، نظام اور مرہٹوں کی انگریز دوستی، لاکھوں کی تعداد میں بیل پیش کرنا، سب سے بڑھ کر مقامی لوگوں کی ایسٹ انڈیا کمپنی میں بطور فوجی بھرتی ہونا مغل سلطنت کے زوال کا باعث بنا۔مغلوں کے زوال کا باعث بننے والے بڑے عناصر میں سے آزاد حکومتوں کا بننا ، ٹیکس نہ دینا خود مختاری کے اعلانات، عہدیداروں کے ریاستوں پر قبضے، اندرونی بیرونی سازشیں سب کی سب انگریزوں کے برصغیر پر تسلط کی نمایاں وجوہات ہیں۔
ٹیپو کی خارجہ پالیسی کے بارے میں خود انگریز گورنر جنرل لارڈ ولزولی کے تاثرات پڑھنے کے قابل ہیں۔ فلسطینی تنظیم حماس کا سربراہ اسماعیل ہانیہ آج کا ٹیپو سلطان ہے۔ اسے بھی ٹیپو شہید کی طرح کی پڑوسی ممالک اور مسلم ممالک سے سفارت کاری کے حوالے سے چیلنجز درپیش ہیں۔ مسلمان حکمرانوں کی نام نہاد مصلحت آڑھے ہے۔ بطور چیئرمین ٹیپو سلطان شہید فاؤنڈیشن ،میری حکومت وقت اور ریاست پاکستان سے درخواست ہے کہ مودی حکومت نے جب اپنے سکولوں کالجوں کے نصاب میں سے ٹیپو سلطان شہید کے تذکرے کو ہندوستان کی تاریخ کی کتابوں سے نکال باہر کر دیا ہے۔ سلطان کی تعمیر کردہ مسجدِ اعلیٰ پر بی جے پی ہندتوا پرست کے لوگ حملے کر چکے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی جب حالات کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ہمیں نئی نسل کو حقائق سے آگاہ رکھنا ہو گا کہ ٹیپو سلطان خطے میں مسلمانوں کی تاریخ اور آزاد ہندستان کا ایک اہم باب ہے۔ ہمیں ٹیپو سلطان کو قومی ہیرو تسلیم کرنا چاہیے۔ سرکاری سطح پر ٹیپو سلطان کے حوالے سے اگاہی اور شعور کی آبیاری کرنی چاہیے۔ حضرت علامہ اقبال بہت بڑے ٹیپوشناس تھے۔ آپ کے کمرے میں ٹیپو سلطان کی تصویر موجود تھی۔ علامہ اقبال جب بنگلور تشریف لے گئے تو ٹیپو سلطان کے مقبرے پر گئے۔ وہاں دو اڑھائی گھنٹے عالمِ تخلیہ و تنہائی میں بے خود رہے۔ ٹیپو کی دعا کے نام سے نظم لکھی۔
ہمیں بھی ٹیپو سلطان کی طرح امن و امان اور تعاون و خوشحالی پر مبنی خارجہ پالیسی ترتیب دینی چاہیے۔ ہمیں قومی غیرت اور حمیّت کی روایّت کہنہ اور اسلاف کی پاسداری کرنی چاہیے۔ ہمیں جواں مردی و بے باکی کے ساتھ حکمت اور تدبیر پر مبنی تعاون کی روش پر جاری خود مختار آزاد خارجہ پالیسی اپنانی چاہیے ،جو ہماری ترقی اور خوشحالی کی ضمانت دے۔ بالخصوص افغانستان ایران اور چین کے ساتھ ایسے مضبوط تعلق کو فروغ دیا جائے جو پاکستان کی داخلی اور خارجی امن و خوشحالی کے لیے ضروری ہے۔ جب تک پاکستان ہے ہندوستان پڑوسی ہے۔ منیمم ڈیٹرینس پالیسی پر قائم رہتے ہوئے ، خطے کو کشیدگی سے پاک رکھنے کے لیے طاقت کا توازن بھی ضروری ہے۔ سفارت کاری آج بھی مسلمانوں کا اہم مسئلہ ہے۔ اور مسلمانوں کی خارجہ پالیسی محض معاشی مفادات تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسا کرنا ترقی خوشحال کا عارضی سبب تو بن سکتا ہے۔ لیکن پائیدار ترقی اور خوشحالی کی دیر پا ضمانت نہیں دے سکتا۔
باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک ہے
شرکت میانہء حق و باطل نہ کر قبول
(اقبال )