یہ جنگل نہیں معاشرہ ہے

پاکستان نہ تو جنگل ہے اور نہ ہی یہاں کوئی جنگل کے طور طریقے چلتے ہیں اور ویسے بھی جنگل کا کوئی قاعدہ قانون نہیں ہوتا بلکہ وہاں طاقت کا قانون چلتا ہے جو جتنا طاقتور ہے وہ اتنا ہی جنگل میں اختیار کا مالک ہے لیکن ہمارے کچھ فاضل دوست پاکستان کو جنگل قرار دینے پر مصر ہیں اور پاکستان کے کچھ اداروں کو انھوں نے جنگلی جانوروں سے اپنے تئیں تشبیہ بھی دے ڈالی ہے جس پر میں اپنے اس فاضل دوست سے بصد احترام اختلاف کروں گا کیوں کہ پاکستان نہ تو جنگل ہے اور نہ ہی یہاں بسنے والے لوگ اور نہ ہی ہمارے ادارے جنگلی جانور ہیں کہ انھیں جانوروں سے تشبیہ دی جائے یا استعاروں میں جنگلی جانوروں کا استعمال کر کے آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشس کی جائے۔پاکستان انسانوں کا معاشرہ ہے اور یہاں حضرت انسان کے بنائے ہوئے قوانین اور اللہ کے نبی ؐکے بتائے ہوئے طور طریقے کے مطابق اس ملک کو چلانے کی اس ملک کی ترقی کی اس ملک کی بہتری کی کوششیں تمام ادارے اپنی اپنی آئینی حدود میں رہ کر کرتے ہیں۔اسی جانب ہمارے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بھی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی ہے کہ ہمارے ہاں کچھ لوگ آزادیِ اظہار کا غلط استعمال کرر ہے ہیں بلکہ آزادیِ اظہار سے بھی تجاوز کر رہے ہیں۔ہمارے ہاں ایک فیشن بن گیا ہے کہ پاک فوج کو تنقید کا نشانہ بنانا ہے تو استعاروں کی زبان استعمال کی جائے تاکہ بات بھی کہہ لی اور پتا بھی نہ چلنے دیا جائے بقول داغ دہلوی
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں 
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
یہاں میں قارئین کو بتاتا چلوں کہ پاک فوج اپنے سپہ سالار کی آنکھ کے اشارے کی منتظر رہتی ہے اور جس جانب سپہ سالار نظر ڈالتا ہے تو پانچ لاکھ افراد کی نگاہیں اس جانب مرکوز ہو جاتی ہیں اور یہی پاک فوج کا بلکہ ایک ڈسپلن ادارے کا حسن ہوتا ہے کہ وہ اپنے سربراہ کے اشارہ ابرو کے منتظر رہتے ہیں اور جس فوج میں اگر ڈسپلن نہیں ہو گا تو وہ اپنے ملک کا دفاع بھی نہیں کر پائے گی اور جب ملک کا دفاع نہیں ہو گا تو نہ سیاست ہو گی نہ صحافت ہو گی اور نہ ہی استعاروں کی زبان استعمال ہو گی بلکہ پھر اصل میں جنگل کا قانون لاگو ہو گا جس کی جانب ہمارے کچھ فاضل دوست اشارہ کر رہے ہیں۔ پاک فوج کیوں کہ ایک ڈسپلن ادارہ ہے اس میں تعیناتیاں اور تقرریاں ایک مروجہ طریقہ کار کے تحت ہوتی ہیں اور اعلیٰ کارکردگی پر نہ صرف انعام سے نوازا جاتا ہے بلکہ بری کارکردگی پر سرزنش بھی کی جاتی ہے۔ادارہ جاتی تقرریاں نہ تو کسی کی خواہش پر ہوتی ہیں اور نہ ہی کوئی اپنے تفویض کردہ وقت سے زیادہ کسی عہدے پر براجمان رہ سکتا ہے یعنی ایک مخصوص مدت تک ہی کوئی کسی عہدے پر رہ سکتا ہے اور اس میں کوئی تخصیص نہیں ہے۔ سب اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے طے شدہ ایک مروجہ طریقہ کار کے تحت کسی بھی پوسٹ پر کام کرتے ہیں اور ملک کی حفاظت کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔ خاکی وردی پاک فوج کا فخر ہے اور خاکی وردی پہن کر ملک کی خاک پر اپنی جانوں کا نذرانہ یہ پاک فوج کے جوان ہی دیتے ہیں اور اس خاک پر اپنی خاکی وردی سمیت قربان ہونے کا حوصلہ اور جگر ہمارے ان پاک فوج کے جوانوں، افسروں میں ہمیشہ موجود رہتا ہے کیونکہ ملک کی خاک کو یہ خاکی وردی والے اپنے جسم کا حصہ سمجھتے ہیں۔کیوں پاکستان انسانوں کا معاشرہ ہے یہاں ہر ایک آئین میں طے کردہ اپنی ذمہ داریاں نبھا رہا ہے ،فوج اور فوجی جوان جس میں سپہ سالار ،اعلیٰ افسران سمیت سرحد پر کھڑا ایک سپاہی بھی اتنا ہی آئیں کا پاسدار ہے جتنا کوئی اور عام پاکستانی شہری ہے اور وہ نہ تو کسی جنگل کے باسی ہیں اور نہ ہی وہ جنگل کے شیر ،بارہ سنگھے یا لومڑ ہیں کہ انھیں ان سے تشبیہ دی جائے بلکہ وہ انسان ہیں اللہ کے نبیؐ کے بتائے ہوئے شہادت کے سبق کو مدنظر رکھتے ہوئے وطن کی خاطر جان قربان کرنے کا حوصلہ لیے پھرتے ہیں۔اسی طرح سیاست دان بھی آئیں میں دی گئی آزادی کے تحت ہی ملک پاکستان کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں، سیاسی و آئینی ادارے موجود ہیں ملک کا ایک آئین ہے سب کو سیاسی آزادیاں حاصل ہیں اور ان ہی سیاسی آزادیوں کو استعمال کرتے ہوئے سیاست دان ملک و قوم کی فلاح کے منصوبے بناتے ہیں۔کچھ لوگ ایسے استعارے استعمال کر رہے ہیں جو شاید انارکلی کے تھڑے پر بکنے والے ایک ڈائجسٹ کی زبان تو ہو سکتے ہیں، یہاں میں کہنا چاہوں گا کہ وہ دیو مالائی قصے کہانیوں کو ضبط تحریر میں لاتے ہیں لیکن بھول جاتے ہیں کہ اس طرح کی دیو مالائی داستانیں ایک خاص قسم کے قاری کے لیے تو ہو سکتی ہیں لیکن جو سنجیدہ قارئین ہیں وہ اس طرح کی چالاکیاں بھانپ لیتے ہیں اور جو خود بھی سنجیدہ لکھنے والے ہیں انھیں یہ زیب نہیں دیتا کہ کیوں کہ دیو مالائی قصے کہانیوں والی زبان استعمال کر کے وہ ملک کا بھلا نہیں کر رہے بلکہ وہ غیر شعوری طور پر دشمن کی زبان بول رہے ہیں اور لکھ رہے ہیں۔دنیا بھر میں قومی سلامتی سے جڑے معاملات اس طرح اخبارات کی زینت نہیں بنتے لیکن ہمارے ہاں شاید کچھ لوگ اس آزادی کا غلط استعمال کر کے اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔جس طرح ایک مالا میں جڑے ہر ایک نگینے کی اپنی اہمیت ہوتی ہے اور اگر ایک بھی نگینہ اپنی جگہ چھوڑ دے تو وہ مالا نا مکمل ہوتی ہے اسی طرح ہماری فوج ،ہماری سیاست ،ہمارے سیاسی ادارے اور خصوصاً پاک فوج میں سپہ سالار سے لے کر افسران اور سپاہی تک ایک مالا کی طرح آپس میں جڑے ہوتے ہیں اور جس طرح ایک مالا میں جڑا ہر نگینہ اہم ہوتا ہے اسی طرح ہماری پاک فوج میں سپہ سالار سمیت ہر ایک افسر ہر ایک سپاہی ایک نگینہ ہے جو اپنے حصے کی روشنی سے ملک کا بھلا کرنے کی اور ملک کی سرحدوں کو دشمن کے پھیلائے ہوئے اندھیروں کو اپنی روشنی سے پاٹنے کی کوشش کرتا رہتے ہیں  اور خاک وطن پر اپنی جان قربان کرنے کے لیے وطن کے یہ بیٹے ہمیشہ تیار رہتے ہیں بقول شاعر
ہم بھی ترے بیٹے ہیں ذرا دیکھ ہمیں بھی 
اے خاکِ وطن تجھ سے شکایت نہیں کرتے
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...