مولانا فضل الرحمٰن کے مارچ کے ساتھ سختی کرنے کا ارادہ نہیں، رانا ثناء اللہ۔
آج کل رانا صاحب وزیر داخلہ نہیں سیاسی امور کے مشیر ہیں۔ اسی لیے انکے بیان میں بارودی اثر نہیںبلکہ پھوکا فائر لگتا ہے۔وزیر داخلہ کے پاس بڑے اختیارات ہوتے ہیں۔ رانا ثنا اللہ ان سے تہی ہیں۔ سختی کرنے کی پوزیشن میں ہیں ہی نہیں تو سختی کیا کریں گے۔ وزیر داخلہ کے طور پر ان کو مونچھوں کو تاؤ دینے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی تھی ان میں تاؤ اور تناؤ خود ہی آجاتا تھا۔ویسے مولانا نے مارچ کا اعلان کیا ہی کب ہے۔ انہوں نے تو پشاور میں نو مئی کو زبردست احتجاجی دھماکے کا اعلان کیا ہے۔ پہلے بھی مولانا کب ’’زیر دست‘‘ اعلان کیا کرتے تھے۔مولانا نے کراچی کے جلسے میں کہا کہ اسمبلیاں بیچی گئیں، ایوان صدر کا سودا ہوا ،الیکشن کا ڈرامہ کیا گیا۔ مولانا کے سیاسی حریف علی امین گنڈا پورکہتے ہیں، مولانا کے ساتھ دھاندلی نہیں دھوکا ہوا ہے۔دھوکا ہوا یا دھاندلی ہوئی۔ یہ جس نے بھی کیا اس نے شیر کے کچھار میں ہاتھ ڈال دیا ہے۔مولانا کو مطمئن کر دیا جائے تو ہی ہاتھ سلامت رہ سکتا ہے۔عمران خان کے ساتھ مولانا کی دوریاں قربتوں میں بدل رہی ہیں۔نو مئی کو دونوں نے احتجاج اور مظاہروں کا اعلان کر رکھا ہے۔یہ ایک دوسرے کو سپورٹ کریں گے یا ایک دوسرے کے خلاف ہوں گے؟رانا صاحب نے یہ بھی کہا ہے کہ مولانا کے ساتھ نواز شریف کے ذاتی تعلقات ہیں وہ مولانا سے بات کریں گے۔ پھر تو بات بن گئی۔ مولانا کو بتایا جائے سمجھایا کہ خیبر پختونخوا میں عمران خان سے نمٹ لیں۔ان سے ساری حکومت لے لیں یا ففٹی ففٹی کر لیں۔ہم اپ کے ساتھ ہیں۔
٭…٭…٭
پاکستان میں آٹا 800 رورپے کلو ہو گیا، بھارتی میڈیا لمبی اور ناقابلِ یقین چھوڑنے لگا۔
پاکستان میں آج گندم اور آٹا جتنا سستا ہے گزشتہ چند سال میں اتنا کبھی سستا نہیں رہا۔گندم اور آٹا سستا ہونے کی وجہ سے ہی روٹی کی قیمت خیبر پختون خوا میں 15 اور پنجاب میں 16 روپے مقرر کی گئی ہے مگر بھارتی متعصب میڈیا کی طرف سے پاکستان کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں گندم کی قیمتوں سے متعلق خبروں کو غلط رنگ دے کر جھوٹی خبریں پھیلائی جارہی ہیں کہ پاکستان میں آٹے کی قیمت فی کلو 800 روپے تک جا پہنچی ہے۔مقصد صرف دنیا کو باور کروانا ہے کہ پاکستان میں معاشی حالات بدترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔بجا کہ پاکستان کی معاشی صورتحال قابل رشک نہیں ہے لیکن اتنی بھی بری نہیں جیسی بھیانک تصویر بھارتی میڈیا کی طرف سے کھینچی گئی ہے۔بھارتی میڈیا جھوٹ بولے پراپیگنڈا کرے لیکن اس طرح کا کہ حقیقت کے کچھ تو قریب ہو تاکہ کوئی مان تو لے۔یہ تو بالکل ہی ناقابل یقین ہے اور بہت ہی لمبی چھوڑی گئی ہے۔یوں لگتا ہے انڈین میڈیا میں لمبی لمبی چھوڑنے کا مقابلہ لگا ہوا ہے۔دلی میں چار ’’چھوڑو،گپی ‘‘ بیٹھے ایسی ہی لمبی لمبیاں چھوڑ رہے تھے۔ایک نے کہا کہ ہمارے ہاں اتنی سردی ہے کہ پانی نلکوں میں جم جاتا ہے جسے گرم کرنے کے بعد پینے یا نہانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔دوسرے نے کہا ہمارے ہاں تو باتیں تک جم جاتی ہیں اور ہم انہیں پکڑنے کے بعد گرم کرتے ہیں۔تیسرے نوجوان نے بڑے فاتحانہ انداز میں کہا،پرسوں ہمارے ہاں مہمان آئے ہوئے تھے ،ان کے جانے کے بعد ہم نے صوفے پر برف کا ایک گولہ سا پڑا ہوا دیکھا۔جب اسے گرم کیا تواس میں سے آواز آئی ،آ آ آچھوں۔۔۔ ایک مہمان چھینک وہیں چھوڑ گیا تھا۔چوتھا بھارتی میڈیا تھا اس نے سب سے بڑی چھوڑی کہ پاکستان میں آٹا 800 روپے کلو ہو گیا ہے۔
٭…٭…٭
وزارت توانائی نے نئی سولرائزیشن پالیسی پر کام شروع کر دیا۔
وزارت توانائی کے بابوؤں کی کرسیوں میں شاید کھٹمل اڑے اور وڑے ہوئے ہیں۔ نت نئی چھوڑتے ہیں۔اب کہتے ہیں نیٹ میٹرنگ کی بجلی کے ریٹ کو پچاس فیصد کم کرنے کا ارادہ ہے۔بائی بیک بجلی کا ریٹ22روپے کے بجائے 11روپے کیا جائے گا۔ اس سے کیپسٹی پیمنٹ کی ادائیگی میں آسانی ہوگی۔۔۔اچھا جی! یہ کیپیسٹی پیمنٹ کس نعمت کا نام ہے جو وزارت کو دل و جان سے عزیز ہے۔یہ وہ پیمنٹ ہے جو آئی پی پیز کو بجلی کی پیداوار پر ادا کی جاتی ہے۔بجلی کی جتنی پیداوار کا معاہدہ ہو چکا ہے وہ استعمال میں آئے یا نہ آئے۔آج بجلی کے یونٹ کی اوسط قیمت 42 روپے ہے۔ ہائیسٹ 58 روپے تک پہنچ جاتی ہے۔حکومت کی طرف سے سولر صارفین جو بجلی پیدا کرتے ہیں ان کی ضرورت سے زیادہ بجلی قومی گرڈ میں شامل ہو جاتی ہے۔حکومت کی طرف سے اس کی ادائیگی 22 روپے یونٹ کی جاتی ہے جبکہ یہ بجلی 42 روپے میں فروخت کی جاتی ہے۔ اب ان 22 روپے میں 11 روپے فی یونٹ کا کٹ لگایا جا رہا ہے۔فرنس آئل سے بجلی سب سے زیادہ مہنگی پڑتی ہے۔مہنگی بجلی نے صارفین کا بینڈ بجا دیا اورکڑاکے نکال دیئے ہیں۔مہنگی بجلی کی وجہ سے ہر چیز مہنگی ہو گئی۔لوگ زندہ درگور ہورہے ہیں۔موت بھی مہنگی ہے شہروں میں صرف قبر کا فی مرگ خرچہ 50 ہزار روپے ہے۔اگر ہمارے ہاں کچھ ارزاں سستی وافر اورہر جگہ دستیاب ہے ، وہ مہنگائی ہے۔ان حالات میں جب بجلی کی کمی ہو اور مہنگی بھی ہو ایسے میں سولر صارفین کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔وہ زیادہ سے زیادہ بجلی پیدا کر کے حکومت کو سستے داموں فراہم کریں لیکن متعلقہ وزارت کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ جو لوگ ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں ان کی حوصلہ شکنی کبھی فکس ٹیکس کی باتیں کر کے کی جاتی ہے اور اب بائی بیک ریٹ میں کمی کی جا رہی ہے۔ایسی پالیسیاں سامنے آئیں گی تو صارفین اور متاثرین نے یہ تو کہنا ہی ہے کہ’’ تہانوں لوے مولا۔‘‘
٭…٭…٭
آصف حسین کا استعفیٰ منظور، عمر حمید پھر سیکریٹری الیکشن کمیشن تعینات۔
اسی سال پانچ جنوری کو عمر حمید نے استعفی دیا تھا۔ان کی جگہ دو سال کے لیے آصف حسین کو سیکرٹری الیکشن کمیشن تعینات کیا گیا تھا۔ اب ان کا بھی استعفیٰ آگیا ہے۔ان کی جگہ عمر حمید پھر سیکرٹری الیکشن کمیشن بن گئے
شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
محفل میں اس خیال سے پھر آگیا ہوں میں
یہ مئی 2023 ء میں ریٹائر ہونے والے تھے کہ ان کو ایکسٹینشن دیدی گئی ۔انہوں نے جنوری 2024ء میں استعفیٰ دیا تھا۔اب ایک بار پھر اسی عہدے آ گئے ہیں۔ درمیان میں پورے چار ماہ کا وقفہ ہے۔اگر وہ اسی ایکسٹینشن کے مطابق کام کرتے ہیں تو ان کو چار ماہ لوٹادیئے جائیں گے؟رفیق تارڑ مرحوم صدر پاکستان تھے کہ جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔نواز شریف کے تعینات کردہ صدر کو کچھ عرصہ مشرف برداشت کرتے رہے پھر ان کو جبری اسلام آباد سے لاہور منتقل کر دیا۔رفیق تارڑ صاحب پانچ سال کے لیے صدر منتخب کئے گئے تھے۔ اپنے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد وہ صدر کی مدت مکمل ہونے تک اپنے آپ کو آئینی صدر قرار دیتے رہے۔1990ء سے 1999ء تک میاں نواز شریف کا دو مرتبہ پاکستانیوں نے وزیراعظم کے طور پر انتخاب کیا لیکن دونوں دفعہ وہ اور انکی حکومت آئینی مدت پوری نہ کر سکی۔ یہی کچھ بے نظیر بھٹو شہید کیساتھ بھی ہوا۔جس طرح عمر حمید صاحب کوچار ماہ لوٹائے جا نے ہیں۔ میاں نواز شریف سے چھینے گئے تین چار سال بھی ان کو وزیراعظم مقرر کر کے لوٹا دیئے جائیں۔
ہفتہ‘ 25 شوال المکرم 1445ھ ‘ 4 مئی 2024ء
May 04, 2024