وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق جمعرات کو وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت ملک میں گندم کے ذخائر کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے اعلی سطحی جائزہ اجلاس منعقد ہوا۔ وزیرِ اعظم نے گزشتہ برس گندم کی درآمد کے حوالے سے وزارت قومی غذائی تحفظ کے حکام سے استفسار کیا کہ گزشتہ برس اچھی پیداوار کے باوجود گندم کی درآمد کا فیصلہ کن وجوہات کی بنا پر کیا گیا۔ وزیراعظم نے گندم کی درآمد کے حوالے سے انکوائری کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے۔ سیکرٹری کابینہ ڈویژن انکوائری کمیٹی کی سربراہی کریں گے۔ اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ گندم کی خریداری میں کسی قسم کی تاخیر نہ ہو۔ گندم کی خریداری کے حوالے سے تمام ضروری اقدامات اٹھائے جائیں اور کسانوں کو ان کی محنت کا معاوضہ جلد پہنچایا جائے۔
گندم کی قیمت کا تعین ہونے اور وزیراعظم شہبازشریف کے واضح احکامات کے باوجود سرکاری سطح پر کسانوں سے گندم کی خریداری تاحال شروع نہیں ہو سکی۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ ملک میں گندم کی ریکارڈ پیداوار کے باوجود باہر سے ایک ارب ڈالر کی گندم درآمد کرلی گئی۔ اس وقت حکومت ملک چلانے کیلئے ایک ایک پائی کی محتاج نظر آرہی ہے اور معیشت میں بہتری لانے کیلئے آئی ایم ایف کی طرف دیکھ رہی ہے۔ ایسے میں گندم کی درآمد پر ایک ارب ڈالر خرچ کرنا کوئی دانشمندی نہیں۔ اس اقدام سے یہی تاثر پختہ ہو رہا ہے کہ متعلقین نے اپنا کمیشن کھرا کرنے کیلئے گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایسے فیصلے کرنے والے کو قانون کے کٹہرے میں لا کر مثالی سزا دینی چاہیے جس کیلئے گزشتہ دنوں وفاقی وزیر پلاننگ احسن اقبال خود کہہ چکے ہیں کہ جنہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے‘ انہیں سزا دی جائے۔بے شک گندم کی درآمد کا فیصلہ باہمی مشاورت سے ہی اس وقت کے نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کے دور میں گندم بحران کے خدشہ کے تحت کیا گیا ہوگا جس کی انکوائری کیلئے وزیراعظم نے کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ کمیٹی انکوائری کے معاملات طول پکڑ سکتے ہیں‘ جب تک ضروری ہے کہ وزیراعظم کے احکامات کی روشنی میں کسانوں سے مقرر کردہ نرخوں پر گندم خریدنے کا جلد سلسلہ شروع کر دیا جائے تاکہ کسان سکھ کا سانس لیں اور حکومت کیخلاف احتجاج کا سلسلہ بند ہو سکے۔ حکمرانوں کو ادراک ہونا چاہیے کہ کسانوں کے بنیادی مسائل حل کر کے اور انکے جائز حقوق پورے کرکے ہی ملک میں زرعی انقلاب کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے جس کیلئے آرمی چیف بھی ’’گرین پاکستان انیشیٹیو‘‘منصوبے کے تحت سرگرم عمل نظر آتے ہیں۔