اظہار رائے کی آزادی اور آرمی چیف کا کیڈٹوں سے خطاب

چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ ہم اپنی آئینی حدود جانتے ہیں اور دوسروں سے بھی آئین کی پاسداری مقدم رکھنے کی توقع رکھتے ہیں۔ گزشتہ روز پاکستان ایئرفورس کی پاسنگ آئوٹ پریڈ سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی دفعہ 19 میں واضح طور پر آزادی اظہار اور اظہار رائے کی حدود متعین کی گئی ہیں۔ جو لوگ ان واضح حدود وقیود کی اعلانیہ پامالی کرتے ہیں وہ دوسروں پر انگلیاں نہیں اٹھا سکتے۔ آرمی چیف کا کہنا تھا کہ اسلحے کی دوڑ سے ہمارے خطے میں طاقت کا توازن بگڑنے کا بھی امکان ہے۔ ایک مضبوط فضائیہ کے بغیر ملک کسی بھی جارح کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ پاک فضائیہ ہمیشہ قوم کی توقعات پر پوری اتری ہے جس نے ہر طرح کی مشکلات میں بے مثال بہادری اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ ملک کی فضائی حدود کی نگرانی و حفاظت کی۔ اسکی بڑی مثال 27, 26 فروری 2019ء کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ 
آرمی چیف نے جنگوں کے ملکوں اور قوموں پر مرتب ہونیوالے اثرات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ غزہ جنگ اس کی تازہ مثال ہے کہ جنگیں کیا کیا مصائب سامنے لا سکتی ہیں۔ غزہ میں بوڑھوں‘ خواتین اور بچوں کا اندھا دھند قتل دنیا میں تشدد بڑھنے کا عکاس ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر پر بھارت نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔ اس بھارتی جارحیت پر پوری دنیا کی خاموشی وہاں گونجنے والی آزادی کی آواز کو دبا نہیں سکتی۔ ہم کشمیری بھائیوں کی اخلاقی‘ سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھیں گے۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ حق طاقت ہے جبکہ باطل کبھی طاقتور نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے پاس آئوٹ ہونے والے کیڈٹس سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ وہ ہماری امیدوں کا مرکز‘ آسمانوں کے محافظ اور علاقائی یکجہتی کے ضامن ہیں۔ وہ ریاست پاکستان کے ساتھ وفادار رہیں۔ 
آئین پاکستان نے بے شک اظہار رائے کی آزادی کا حق دیا ہے مگر یہ آزادی شتربے مہار قطعاً نہیں ہو سکتی۔ آئین کی دفعہ 19 میں اسی بنیاد پر اظہار رائے کی آزادی کو مشروط کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں واضح کیا گیا ہے کہ اظہار رائے کی اس آزادی کی آڑ میں نظریہ پاکستان‘ شعائر اسلامی‘ قومی مفادات اور ریاستی اداروں بشمول عدلیہ اور افواج پاکستان کے بارے میں کوئی غلط اور منفی بات نہیں کی جاسکتی۔ اسی طرح اظہار رائے کے وقت اخلاقی اقدار کو بھی مدنظر رکھنا ہوتا ہے۔ تین مئی چونکہ اظہار رائے اور پریس کی آزادی کا عالمی دن ہے اس لئے بالخصوص اس دن کی مناسبت سے آزادی اظہار رائے کے استعمال کے حوالے سے آئین کی دفعہ 19 کو اجاگر کرنا ضروری ہے کیونکہ ہمارے بعض حلقوں نے کسی بھی ذات اور کسی بھی ادارے پر بے سروپا الزام تراشی اور کیچڑ اچھالنا اپنا شعار بنا لیا ہے جبکہ آزادی اظہار کی آڑ میں وہ اپنے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں اور کوئی بھی بات کرنا اپنا حق گردانتے ہیں۔ بدقسمتی سے گزشتہ کچھ عرصے سے پروان چڑھتے بلیم گیم کے کلچر نے شائستگی اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی سیاست کا حلیہ ہی بگاڑ دیا ہے جس میں اخلاقی اقدار نام کی کوئی چیز موجود نہیں رہی۔ اگر آزادی اظہار کی آڑ میں خبث باطن کے اظہار کی بھی کھلی چھوٹ مل جائے تو اس سے معاشرے میں جس کی لاٹھی‘ اسکی بھینس کا تصور ہی پختہ ہوگا اور کسی کی بھی پگڑی، عزت اور زندگی محفوظ نہیں رہے گی۔ بالخصوص افواج پاکستان جیسے ملک کے محافظ اداروں اور انکی قیادتوں کے بارے میں مخصوص سیاسی ایجنڈا رکھنے والے عناصر کو ہر قسم کی ہرزہ سرائی کی چھوٹ ملنے سے اس ادارے کے کمزور ہونے کا تاثر ملتا ہے جبکہ ہمارا ازلی مکار دشمن بھارت ہماری کسی بھی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کے موقع کی ہمہ وقت تاک میں رہتا ہے۔ اظہار رائے کی آزادی کے شتربے مہار استعمال سے ملک کی سلامتی و خودمختاری پر دشمن کو شب خون مارنے کا موقع فراہم کرنا ہی مقصود ہوتا ہے جس کیلئے آج بعض عناصر کی جانب سے اظہار رائے کی آزادی کو سلب کرنے کا پراپیگنڈا ریاستی اداروں بالخصوص ملک کے سکیورٹی اداروں پر ملبہ ڈالنے کیلئے کیا جاتا ہے تاکہ انسانی حقوق کے عالمی اور علاقائی اداروں کو پاکستان پر انسانی حقوق سلب کرنے والے ملک کا لیبل لگانے کا موقع مل سکے۔ 
بدقسمتی سے اس معاملے میں عالمی اداروں‘ قیادتوں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں نے دہرا معیار اپنا رکھا ہے جنہیں بھارت اور اسرائیل کے ہاتھوں انسانی حقوق کی بدترین پامالی اور انسانوں پر مذہبی‘ لسانی اور علاقائی بنیادوں پر ڈھائے جانے والے مظالم نظر نہیں آتے جبکہ ایک اسلامی مملکت ہونے کے ناطے پاکستان ہمیشہ انکی آنکھوں میں کھٹکتا ہے اور اسکے ناطے سے وہ اپنے زہریلے پراپیگنڈے کو امن و آشتی اور شرف انسانیت کے علمبردار دین اسلام کیخلاف استعمال کرنے کے مواقع نکالتے رہتے ہیں۔ انکے ذہنوں پر طاری اسلامو فوبیا انہیں چین سے نہیں بیٹھنے دیتا جس میں بالخصوص امریکہ‘ بھارت‘ اسرائیل پر مبنی شیطانی اتحاد ثلاثہ کا دین اسلام اور مسلم دنیا کو دہشت گردی کے معاملہ میں مطعون ٹھہرانے کا بنیادی اور مشترکہ ایجنڈا بروئے کار لایا جاتا ہے اور بدقسمتی سے ملک کے اندر سے بھی انہیں بعض بد طینت عناصر کی معاونت حاصل ہو جاتی ہے۔ یہ عناصر اپنے عزائم کی تکمیل کیلئے آزادی اظہار کو ہی اپنی ڈھال بناتے ہیں اور اس طرح وہ دانستہ نادانستہ دشمن کے عزائم کی تکمیل میں معاون بنتے ہیں۔ 
ہمارے آج کے معروضی حالات میں تو آزادی اظہار کے شتر بے مہار استعمال کا سدباب کرنا اور بھی ضروری ہو گیا ہے کیونکہ آج روایتی جنگوں کے بجائے جدید ٹیکنالوجی بشمول انٹرنیٹ‘ موبائل سیل فون اور سوشل و ڈیجیٹل میڈیا کے زور پر ہائبرڈ وار کے ذریعے دشمن کو زیر کرنے کے راستے نکالے جارہے جس کیلئے بالخصوص نوجوان نسل انکے عزائم کی تکمیل کیلئے استعمال ہو رہی ہے۔ اسی ٹیکنالوجی کے ذریعے کسی سیاسی لیڈر کو ہیرو بنانے اور کسی کو زیرو کرنے کی کوشش ہوتی ہے اور ریاستی اداروں اور انکی قیادتوں کو مطعون کرکے انکی حوصلہ شکنی کا دانستاً اہتمام کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اس ٹیکنالوجی کے زور پر اداروں پر ملبہ ڈالنے کی گھنا?نی سازشوں کا توڑ اظہار رائے کی شتربے مہار آزادی کے خلاف آئین و قانون کی عملداری یقینی بنا کر ہی کیا جا سکتا ہے۔ آرمی چیف نے گزشتہ روز پاک فضائیہ کے پاس آئوٹ کیڈٹس سے خطاب کرتے ہوئے ملک کے اندر اور باہر سے ہونیوالی ان سازشوں کو ہی فوکس کیا ہے جنہیں ناکام بنانا ملک کی سلامتی کے دفاع کے تناظر میں آج وقت کی ضرورت ہے۔ جو عناصر قانون ہاتھ میں لے کر اودھم مچانا اپنا حق سمجھ بیٹھے  ہیں‘ انہیں قانونی گرفت میں لا کر اور ان پر آئین‘ قانون اور انصاف کی عملداری قائم کرکے ہی انکے ذریعے پروان چڑھتے دشمن کے عزائم کو ناکام بنایا جا سکتا ہے۔ اس کیلئے کسی پس و پیش سے کام لینا دشمن کے عزائم کو تقویت پہنچانے کے  مترادف ہوگا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...