گوروں کے ملک میں چھپنے والے گوروں کے ایک بڑے اخبار ٹیلی گراف میں بڑے خان صاحب کا مضمون چھپا ہے جس میں پاکستان کے ’’فسطائی ٹولے‘‘ کے ہولناک مظالم کی دردناک کہانی تفصیل سے بیان کرنے کے بعد بڑے خان صاحب نے تان اس فریاد پر توڑی ہے کہ اب تو سب ہو چکا، محض میری جان لینے کی کسر باقی رہ گئی ہے۔
ہو چکیں غالب بلائیں سب تمام
ایک مرگ ناگہانی اور ہے۔
یہ تو غالب نے کہا تھا جنہیں اپنی موت کی آہٹ سنائی دے رہی تھی لیکن وہ آخر تک یہ نہ جان سکے تھے کہ موت کس ذریعے سے آئے گی۔ لیکن بڑے خان صاحب تو دیوار کے پار بھی دیکھ لیتے ہیں۔ انہیں موت کے سبب کا بھی پتہ ہے اور قاتل کا بھی۔ وہ کئی بار بتا چکے ہیں کہ انہیں زہر دے کر مارا جائے گا اور زہر ایسا خاص قسم کا ہو گا کہ بعد از موت، پوسٹ مارٹم رپورٹ میں اس کا سراغ بھی نہیں ملے گا اور یہ کہ میرے قاتل فلاں اور فلاں ہوں گے۔
تبصرہ کرنے والے یہ تبصرہ فرما رہے ہیں کہ بڑے خان صاحب کی حقیقی آزادی کی جنگ بہت سے مراحل طے کر کے اب ’’ایس ایم ایس‘‘ پر آ کر ختم ہو رہی ہے۔ ان کے خیال میں ٹیلی گراف میں چھپوایا گیا خط ’’سیو مائی سول‘‘ یعنی ایس ایم ایس ہے، بروزن ایس او ایس، سیو آور سولز‘‘__ یعنی بڑے خان صاحب کی کتاب انقلاب کا اختتامیہ گورا صاحب سے یہ استدعا ہے کہ حضور فیض گنجور، میری جان خطرے میں ہے، مجھے بچائو۔
______
ویسے گوروں کا ملک برطانیہ اب پہلے جیسا گورا ملک نہیں رہا۔ دھیرے دھیرے یہاں کالے، بھورے ، مٹیالے لوگ بڑھتے جا رہے ہیں۔ لندن میں تو سنا ہے، آدھی سے زیادہ آبادی کالی یا سانولی ہے۔ اور تو اور۔ برطانیہ کا وزیر اعظم رشی بھی کالا ہے۔ برطانیہ میں آج تک جتنے بھی وزرائے اعظم آئے، من کے سبھی کالے تھے لیکن اب جو وزیر اعظم آیا وہ تن کا بھی کالا ہے
رشی سنک ہے سب دیکھا بھالا
تن بھی کالا، من بھی کالا
مضمون کا عنوان کچھ یوں ہونا چاہیے تھا کہ مہاراج رشی سینک، آپ سے پرارتھنا ہے کہ میری جان بچانے کیلئے کچھ پربندھ کریں چھیتی بوھڑیں رشی سنیکا نئیں تے میں ٹر چلیا…
______
پی ٹی آئی کے بعض باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ پہچان اور نشان نہ چھوڑنے والے زہر کی آپشن اب ترک کر دی گئی ہے بلکہ اب خان کی جان لینے کیلئے سائنس کا سہارا لیا جانے والا ہے۔ یہ جو پاکستان نے چاند پر مشین بھیجی ہے، وہ کوئی خلائی مشین نہیں ہے بلکہ حقیقی آزادی کیخلاف فیصلہ کن سازش ہے۔ چاند سے یہ مشین کوئی لیزر بم اڈیالے کا نشانہ لے کر پھینکے گی ، پھر کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا کہ کیا چیز کہاں سے آئی اور اپنا کام کر گئی۔
ابن صفی مرحوم کا وہ ناول یاد آ گیا جس کا نام ہی یاد نہیں رہا۔
______
پی ٹی آئی کی دیوقامت، مہیب پراپیگنڈہ مشین شبانہ روز یہ اطلاع دیتی تھی کہ خان ڈٹ کے کھڑا ہے۔ کوئی بات اس کے پائے استقلال میں لرزہ نہیں لا سکی۔ لیکن خان کا خط تو اس کی سراسر تردید کر رہا ہے۔ یہ خط تو بتا رہا ہے کہ خان کی اب بس ہو گئی۔ زبر والی گڑگڑاہٹ ، زیر والی گڑگڑاہٹ میں بدل گئی۔ بظاہر یہی لگتا ہے، اصل بات کا علم بہرحال انہی کو ہو گا جو دیوار کے پار دیکھ لیتے ہیں۔
______
پی ٹی آئی کے ایک رہنما حامد خاں نے کہا ہے کہ ہم ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے مذاکرات بالکل نہیں کریں گے اور اس لئے نہیں کریں گے کہ ان دونوں جماعتوں نے ہمارا مینڈیٹ چوری کیا ہے۔
یعنی ، حامد خاں کے بیان کے حساب سے، فوج تو بری ہو گئی۔ اب تک پی ٹی آئی کا ’’کیس‘‘ یہ رہا ہے کہ مینڈیٹ فوج نے چوری کیا اور چوری کر کے مال مسروقہ ان دونوں جماعتوں کو دیا۔ ٹیلی گراف والے خط میں بھی یہی لکھا ہے کہ 8 فروری کے الیکشن میں ادارے نے ہمارا مینڈیٹ ان جماعتوں کے حوالے کر دیا۔ اب حامد خاں کی ’’شخصیت‘‘ سے پتہ چلا کہ دراصل، انہی دونوں جماعتوں نے، اپنی مدد آپ کے تحت خود ہی چوری کی واردات کی اور 2018 ء والا پلے ری پلے نہیں ہوا۔
حامد خاں کی اس تحقیق کے بعد ٹیلی گراف میں چھپے مضمون کو مناسب ترمیم اور تصحیح کے بعد پھر سے چھاپنا ضروری ہو گیا ہے۔
______
پی ٹی آئی وہ سپاہ ہے جس کے جرنیل ایک دوسرے کو روندے ڈالتے ہیں۔ تازہ ماجرا بڑا پرلطف ہے۔ ایک نامور میڈیا پرسن جو کالم بھی لکھتے ہیں، پی ٹی آئی کے ایک بڑے جرنیل تصور کئے جاتے ہیں۔ وکلا محاذ پر شعیب شاہین بھی انہی کے ہم منصب ہیں یعنی بذات خود جرنیل ہیں۔ تو ہوا یہ کہ کسی نامعلوم نے پاک فوج کیخلاف سخت زہریلا مضمون لکھا۔ جرنیل شعیب شاہین نے یہ مضمون اس اوّل الذکر جرنیل کے نام سے منسوب کر کے سوشل میڈیا پر ڈال دیا۔ اور لکھا کہ دیکھو، جرنیل صاحب نے کیا زبردست لکھا ہے۔ اب اوّل الذکر جرنیل دہائیاں دیتے پھر رہے ہیں کہ خدا کا نام لے، یہ میں نے ہرگز نہیں لکھا، لیکن موخر الذکر جرنیل شعیب شاہین پکڑائی نہیں دے رہے۔
لطیفہ یاد آ گیا۔ کسی بدبخت نے اپنے مخالف کو قتل کر دیا اور لاش رات کی تاریکی میں ایک گھر کے اندر پھینک دی۔ وہ گھر اتفاق سے کسی جگت باز کا نکلا۔ مخبری ہو گئی ، پولیس نے چھاپہ مارا ، لاش تحویل میں لی اور جگت باز کو تھانے لے جا کر اس کی دھلائی شروع کر دی اور پوچھا، بتا اسے کیوں مارا۔ جگت باز نے ہاتھ جوڑ کر کہا، مہاراج میں نے کب مارا، مجھے تو یہ پہلے سے مرا مرایا ملا ہے۔
______
سابق پرائمری سکول ٹیچر اور حال ارب پتی سیاسی رہنما نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان نے دو ہوائی اڈّے امریکہ کو دے دئیے ہیں۔ دفتر خارجہ نے اس دعوے کی تردیدکی ہے۔
تردیدناکافی ہے۔ حکومت اور کچھ نہیں کر سکتی تو اتناہی کر ڈالے کہ سابق پرائمری ٹیچر، حال ارب پتی کو ایک سیکورٹی وفد کے ہمراہ لے جائے اور کہے کہ جو ایرپورٹ امریکہ کو دئیے ہیں ، وہ ہمیں دکھائو۔
دکھا دیں تو بات ختم، نہ دکھا سکیں تو گرفتار کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ گرفتار کیا تو اگلے ہی سیکنڈ تاحیات ضمانت مل جائے گی۔