اسلام آباد میں قائم امریکی اور بھارتی سفارت خانوں میں فوجی چھائونیوں کے قیام اور بلیک واٹر کی سی امریکی تنظیموں کے بھیس بدل کر پاکستان کے شہروں میں ڈیرے ڈال دینے کی افواہوں کے موسم میں ایں گُلِ دیگر شگفت!تجویز کیا گیا ہے کہ دُنیا کو ’’اسلامی انتہا پسندی‘‘ کی قوّتوں سے نجات بخشنے کی خاطر امریکہ اور بھارت مشترکہ فوجی جارحیت سے آناً فاناًپاکستان کے ریاستی وجود کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیں:
\\\"The fall of Pakistan to radical Islamic forces would be clamitous for the rest of the world. The possibility of nuclear war on the Asian subcontinent would be increased.....Faced with such a foe, the United States would probably have little choice but to strike first. With Indian forces waiting anxiously to move in, the final collapse of the Pakistani state would be a near certainty.....Sadly, there is probably very little the rest of the world can do to prevent this.\\\" (Schmidt, John R. (2009) \\\'The Unravelling of Pakistan\\\', Survival, 51:3,29-54)
دہشت گردی کے خلاف جنگ میںپاکستان کے دو اتحادی ممالک …امریکہ اور بھارت…کی پاکستان کے خلاف ریاستی دہشت گردی کی یہ پیش گوئی کسی مداری کی پٹاری سے برآمد نہیں ہوئی ۔یہ تو ایک ماہرِ سیاسیات اور ماہرِ پاکستانیات سابق امریکی سفارت کار اور حال پروفیسرکی سوچی سمجھی اورتحقیق کے مسلمّہ علمی معیاروں کی روشنی میں لکھی گئی تحریر کا آخری پیرا گراف ہے۔ اِسکے مصنف جان ۔ آر۔ سمتھ امریکہ کی فارن سروس میں اہم اسامیوں پر متعیّن رہے ہیں۔
موصوف ۸۹۹۱ء سے لے کر 2001ء تک اسلام آباد کے امریکی سفارت خانے میں پولیٹیکل قونصلر کی حیثیت میں کام کرچکے ہیں اوراِن دنوں جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں پاکستانیات کے اُستاد ہیں۔ اُن کا زیرِ نظر مقالہ بعنوان \\\"The Unravelling of Pakistan\\\" ) مملکتِ پاکستان کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دینے کی ضرورت) پاکستان کے سیاسی کلچر پر ایک اہم اور فکر انگیز تصنیف ہے۔ مقالے کا آخری پیرا گراف آپ نے پڑھ لیا ہے، اب پہلے پیراگراف کی ابتدائی سطریں بھی پڑھ ڈالیں:
\\\"Armed with nuclear weapons, home to al-Qaeda, and heavily infested with a growing mass of domestic radical Islamists, Pakistan has been famously called the \\\'most dangerous place on earth\\\'. At the root of the country\\\'s problems is a feudal political establishment primarily interested in promoting and preserving its own narrow class interests and unable or unwilling to seriously address the myriad threats the country faces. \\\"
درج بالا سطروں میں پاکستان پر عائد کی گئی فردِ جرم کے تین حصے ہیں۔
اوّل: ایٹمی قوت
دوم: القاعدہ کا مسکن
سوم: ریڈیکل اسلام پسندوں کی روز افزوں مقبولیت۔
اب آئیے ایک ایک کر کے ہر تین جرائم کا جائزہ لیں۔
اوّل: ایٹمی قوّت کا حصول اگر گناہ ہے تو یہ گناہ سب سے پہلے خود امریکہ نے کیا ہے۔ امریکہ نے نہ صرف دُنیا میں سب سے پہلے ایٹمی ہتھیار تیار کیے بلکہ ایشیاء کی ایک اُبھرتی ہوئی قوت کیخلاف ایٹمی ہتھیار استعمال بھی کیے۔ اِس اعتبا ر سے دیکھیں تو دُنیا کو اِس وقت بھی سب سے بڑا خطرہ امریکہ کے پنجۂ خونیں سے ہے۔
دوم: القاعدہ کا مسکن سے متعلق الزام کا جواب تومرزاغالب دے چکے ہیں۔ہم بھی وہی مصرع دُہرا دیتے ہیں…ہرچند کہیں کہ ہے ، نہیں ہے!
سوم: اسلام کے نام پر دہشت گردی کے فروغ کے ضمن میں سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ یہ دہشت گردی خطے میں نیٹو دہشت گردی کا ردِعمل ہے۔
9/11 سے پہلے تو پاکستان میں سب خیریت تھی ۔ اُس وقت کی قیادت نے سوچے سمجھے بغیر نیٹو اتحاد میں شمولیت اختیار کر لی، پاکستان کے اندر مختلف مقامات پر امریکہ کو فوجی اڈے فراہم کر دیئے اور نیٹو ممالک کی جاسوس ایجنسیوں کو پاکستان کے اندر اپنا اپنا جال بچھانے کی اجازت دے دی۔ تب سے لے کر اب تک مقالہ نگار کے لفظوں میں ریڈیکل اسلام تیزی کے ساتھ فروغ پاتا چلا جا رہا ہے۔ اِس صورتحال سے نجات پاکستان کے ریاستی وجود کو مٹا ڈالنے میںہر گز نہیں بلکہ نیٹو اتحاد سے پاکستان کے نکل جانے میں مضمر ہے ۔
خود مقالہ نگار نے دُنیا کو پاکستان کے ریاستی وجود سے نجات دلانے کی خاطر امریکی بھارتی مشترکہ فوجی جارحیت کا نسخہ آزمانے کا مشورہ دیتے وقت پاکستان کو’’ دُشمن‘‘ کے اِسمِ صفت سے متصف کیا ہے(Faced with such a foe)۔ کیا ہمارے اربابِ اختیار لفظ foe کی معنویت سمجھنے کے لیے اپنی بے پناہ مصروفیات میں سے تھوڑا سا وقت نکال سکیں گے؟
سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنے دشمنوں کی جنگ لڑ رہے ہیں ؟ کیا ہم اپنے دشمنوں کے اتحادی ہیں؟ اِس سوال کے جواب میں نکلتا ہوں تو سب سے پہلے مجھے برصغیر کی تاریخ میں دہشت گردی کے سیاق و سباق کو سمجھنے کی کوشش کرنا پڑتی ہے۔ برصغیر کی حالیہ تاریخ اِس بات کی شاہدِ عادل ہے کہ بیسویں صدی میں سن ساٹھ کی دہائی برصغیر میں دہشت گردی کے آغاز کا زمانہ ہے۔
یہ وہ زمانہ ہے جب مشرقی پاکستان میں تخریب کاری کی خاطر بھارت نے مکتی با ہنی کے دہشت گردوں کو تربیت دینا شروع کی تھی۔ اِسی دہشت گردی کے نتیجے میں پاکستان کا مشرقی بازو پاکستان سے کاٹ کر رکھ دیا گیا تھا۔ آج بھی مقبوضہ کشمیر میں تحریکِ آزادی کے مجاہدین کیخلاف بھارتی افواج اور بھارتی جاسوسی اداروں کی دہشت گردی اپنے عروج پر ہے۔ اِس اعتبار سے دیکھیں تو دہشت گردی کی جنگ میں ہمارا اتحادی بھارت پاکستان کیساتھ حسبِ سابق دشمنی کی راہ پر گامزن ہے۔
ہمارا دوسرا بڑا اتحادی امریکہ پاکستان، افغانستان ، ایران…پورے خطّے میں بھارت کی بالادستی قائم کرنے میں کوشاں ہے۔ نیٹو اتحاد کا سب سے بڑا مقصد دُنیائے عرب میں اسرائیل کی بالادستی اور دُنیائے عجم میں بھارت کی بالادستی کا قیام ہے ۔ تو پھر کیا ہم خطّے میں بھارت کی بالادستی کی جنگ میں دادِ شجاعت دے رہے ہیں ؟ کیا یہ دادِ شجاعت ہے یا دادِ ندامت؟
میں نے زیرِ نظر تحقیقی مقالے کو پاکستان کے سیاسی کلچر پر ایک اہم اور فکر انگیز تجزیہ قرار دیا ہے۔ اگر ہم مقالے کا ابتدائی اور اختتامی پیرا گراف حذف کر دیں تو یہ مقالہ پاکستان کی اشرافیہ کے ذہن و ذوق کا حقیقت افروز تجزیہ قرار پائے گا۔ مقالہ نگار نے ہماری سیاست اور معاشرت کا بڑی گہری نظر سے مطالعہ کیا ہے۔ انھوں نے پاکستان کے سیاسی کلچر کو جاگیردارانہ سیاسی کلچر قرار دیا ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ پاکستان کے سیاستدان ہمیشہ اپنے مخصوص ذاتی اور گروہی مفادات کے حصول میں سرگرداں رہتے ہیں۔ انھیں قومی مفادات کو ذاتی مفادات کی خاطر بالائے طاق رکھنے کے گُر خوب آتے ہیں۔ پاکستان کی صرف ایک فیصد آبادی ٹیکس دیتی ہے باقی سب کے سب ٹیکس چور ہیں۔ اُنھیں سب سے زیادہ غُصّہ اِس بات پر آیا ہے کہ پاکستان کے سیکولر دانشور بھی دل ہی دل میں پاکستان کی اسلامی شناخت کا دم بھرتے ہیں۔
نتیجہ یہ کہ ’’ریڈیکل اسلام ‘‘کے روز افزوں فروغ کو روکنا پاکستان کے اہلِ سیاست اور اہلِ دانش کے بس کی بات نہیں۔ اِس صورتحال سے امریکہ اور نیٹو اتحاد کو یہ جان لینا چاہیے کہ پاکستان اُن کے کسی کام کا نہیں۔سو،پاکستان کے وجود سے نجات ہی میں دنیا کی نجات مضمر ہے:
\\\"Should resistance fail, the scene may be set for the final unravelling of the Pakistani state. This could come with explosive suddenness, unfolding like the Iranian Revolution, with a recalcitrant Army crumbling and the feudals rushing for the nearest exits.....Never in their entire history have Pakistan\\\'s elites, the Army included, been willing to tackle serious problems head on.\\\"
درج بالا پیرا گراف سے شروع ہونیوالے مقالے کا باقی ماندہ متن پڑھ کر میں حیران پریشان ہو کر رہ گیا۔ سوچنے لگاکہ انسان دوستی ، وسیع النظری اور سائنسی دانشمندی کا دم بھرنے والے مغربی سکالر پاکستان اور اسلام کا نام آتے ہی کیونکر فاشسٹ بن جاتے ہیں؟مان لیا کہ اِس وقت دُنیائے اسلام اور پاکستان کا حال بہت بُرا ہے مگر اِن بُرے حالوں بھی ہمارا نام آتے ہی یہ نام نہاد ترقی پسند دُنیاکیوں خوف سے تھر تھر کانپنے لگتی ہے؟
شاید دُنیائے اسلام کا ماضی اُنھیں بُھلائے نہیں بُھولتا اور وہ ہر آن اِس اندیشے میں مبتلا رہتے ہیں کہ کہیں پھر اسلام کی وہ سائنسی رُوح نہ بیدار ہو جائے جس نے ایک وقت میں یورپ کی تاریکیوں میں علم اور عقل کی شمعیں روشن کر کے دُنیائے مغرب کے Dark Ages کو منوّر کر دیا تھا۔ہر چند آج کی دُنیائے اسلام فی الواقع دُنیائے انسانیت میں ایک روحانی اور مادی انقلاب برپا کر سکتی ہے۔یہ انقلاب دائرۂ امکان میں ہے۔ شاید اِسی لیے مقالہ نگار کے سے دانشور اِن امکانات کا دروازہ بند کرنے کی خاطر پاکستان کے ریاستی وجود کو ملیا میٹ کر دینے کے خواب دیکھ رہے ہیں
سوچتا ہوں کہ دُنیا میں امریکہ سمیت ایسے بہت سے ممالک ہیں جن کی تاریخ میں پاکستان کی عصری زندگی سے بھی بُرے دور آئے ہیں مگر کسی نے اُن ممالک کو تباہ کر دینے کی راگنی تو کبھی نہیں چھیڑی ۔ اُن ہی بُرے حالوں میں اصلاح اور انقلاب کی تحریکیں نمودار ہوئیں اور یوں اُن ممالک کی سرحدوں کے اندر نیا انسان نئے معاشرے کے ساتھ وجود میں آیا۔
غور طلب بات یہ ہے کہ پاکستان میں اصلاحِ احوال کی بجائے پاکستان کے انہدام کے خواب کیوں دیکھے جا رہے ہیں؟ اِس سوال کا جواب درج بالا پیرا گراف میں ایران کی مثال میں پوشیدہ ہے۔ ایرانی انقلاب نے ایران کو تو تباہ نہیں کیا،ایران کی امریکہ غلام شہنشاہیت کو دفن کیا ہے۔
شاید مغرب کا دانشور اِس امکان سے لرزاں ہے کہ کہیں پاکستان میں بھی ایران کا سا انقلاب نمودار نہ ہو جائے۔ اگر ایسا ہو گیا تو دُنیائے عجم میں بھارت کی بالادستی کی جنگ میں نیٹو اتحاد کو مُنہ کی کھانا پڑیگی!