محمد آصف بھلی
جس طرح سپریم کورٹ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت ہے۔ اسی طرح سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن وکلا کا سب سے بڑا منتخب فورم ہے۔ سپریم کورٹ کا ایک ایڈووکیٹ ہونا ہی ایک اعزاز ہے اور جن نامور وکلا کو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا عہدیدار منتخب کیا جاتا ہے وہ ایک منفرد افتخار کی بات ہے۔ سپریم کورٹ بار کے نومنتخب صدر قاضی محمد انور کا تعلق پشاور سے ہے جبکہ لاہور سے تعلق رکھنے والے راجہ ذوالقرنین سپریم کورٹ بار کے سیکرٹری منتخب ہوئے ہیں۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ ان دونوں معروف وکلا کا بنیادی تعلق پیپلز پارٹی سے رہا ہے لیکن سپریم کورٹ بار کے یہ دونوں نومنتخب عہدیدار پیپلز پارٹی کے این آر او سے متعلق بل کے سخت مخالف ہیں۔ سپریم کورٹ کے ان عہدیداروں کا این آر او کے خلاف جرا¿ت پسندانہ اور اصولی م¶قف دراصل پوری وکلا برادری کی آواز ہے۔ پیپلز پارٹی این آر او کو ایکٹ آف پارلیمنٹ بنوانا چاہتی ہے۔ اس حوالے سے اس کی اپنی ضرورتیں اور مصلحتیں ہیں لیکن پیپلز پارٹی کو این آر او کو پارلیمنٹ سے منظور کروانے کی کوششوں سے پہلے ملک بھر کے قانون دانوں کی رائے کو بھی اپنے پیش نظر ضرور رکھنا چاہیے۔
سپریم کورٹ بار کے نومنتخب صدر نے تو دوٹوک انداز میں کہا ہے کہ وکلا ہمیشہ ملک میں قانون کے نفاذ اور قانون کی حکمرانی کے علمبردار رہے ہیں جبکہ این آر او کا مفہوم یہ ہے کہ ہم قانون کی حکمرانی اور نفاذ کے بجائے مجرموں کی حکمرانی کو تسلیم کر لیں۔ اگر ایک شخص قتل یا کرپشن کا مجرم ہے تو وہ پوری قوم اور معاشرے کا مجرم ہے۔ ایسے مجرم کو عدالت قانون کے مطابق جرم ثابت ہونے پر سزا دے گی یا اگر جرم ثابت نہ ہو تو اسے بری کر دیا جائے گا لیکن قانون شکنوں کو اگر عدالت میں لائے بغیر این او آر کے ذریعے چھوڑ دیا جاتا ہے تو یہ پورے معاشرے کو لاقانونیت کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہو گا جسے وکلا اور سول سوسائٹی برداشت نہیں کرے گی اور ملک میں عدلیہ کی بحالی کی تحریک سے بھی زیادہ م¶ثر ایک نئی تحریک کا آغاز ہو جائے گا۔ قاضی محمد انور نے کہا ہے کہ ہم قانون کے دائرہ سے باہر کسی کارروائی کی حمایت نہیں کر سکتے۔ یہ قوم کی عزت اور غیرت کا مسئلہ بھی ہے۔ جب آپ قانون کو نظر انداز کرتے ہیں تو مَیں اسے قوم کی عزت و وقار کے ساتھ ایک مذاق تصور کرتا ہوں۔ وکلا کے احساس کی ترجمانی کرتے ہوئے قاضی محمد انور نے کہا کہ امریکہ کا کیری لوگر ایکٹ اور پاکستان میں این آر او کو ایکٹ بنانے کی کوششیں دونوں ہی میری نظر میں پاکستانی قوم کے اجتماعی ضمیر کے خلاف ہیں۔ اس لئے پوری وکلا برادری میں ان کے خلاف شدید ردعمل پایا جاتا ہے۔
سپریم کورٹ بار کے نومنتحب سیکرٹری راجہ ذوالقرنین نے بھی این آر او کو پرویز مشرف کے دور کا ایک احمقانہ آرڈیننس قرار دیا جسے اب پیپلز پارٹی نے بے وقوفی سے اپنے بل کے طور پر پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی کوشش کی بالآخر پیش نہ کرنے کا فیصلہ کیا تاہم پیپلز پارٹی اس سے مکمل طور پر دستبردار نہیں ہوئی۔ یہ بل حکومت کے لے ڈوبے گا۔ باوقار طریقہ یہ ہے کہ حکومت اس سے مستقل طور پر لاتعلقی اختیار کرے اور مقدمات کا عدالتوں میں سامنا کرے۔ راجہ ذوالقرنین نے کہا جن لوگوں نے جرائم کئے‘ قومی خزانہ لُوٹا انہیں قانون کے مطابق عدالتوں کا سامنا کرنا چاہیے۔ اگر کوئی چور دروازے سے اپنے جرائم کو تحفظ دلانے کی کوشش کرے گا تو وکلا اس کی سخت مزاحمت کریں گے اور چوروں اور لٹیروں کو تحفظ دلانے والے کسی کالے قانون کی ہم حمایت نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ حقیقی اور نظریاتی پیپلز پارٹی بھی این آر او کو سخت ناپسند کرتی ہے۔
جس طرح سپریم کورٹ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت ہے۔ اسی طرح سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن وکلا کا سب سے بڑا منتخب فورم ہے۔ سپریم کورٹ کا ایک ایڈووکیٹ ہونا ہی ایک اعزاز ہے اور جن نامور وکلا کو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا عہدیدار منتخب کیا جاتا ہے وہ ایک منفرد افتخار کی بات ہے۔ سپریم کورٹ بار کے نومنتخب صدر قاضی محمد انور کا تعلق پشاور سے ہے جبکہ لاہور سے تعلق رکھنے والے راجہ ذوالقرنین سپریم کورٹ بار کے سیکرٹری منتخب ہوئے ہیں۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ ان دونوں معروف وکلا کا بنیادی تعلق پیپلز پارٹی سے رہا ہے لیکن سپریم کورٹ بار کے یہ دونوں نومنتخب عہدیدار پیپلز پارٹی کے این آر او سے متعلق بل کے سخت مخالف ہیں۔ سپریم کورٹ کے ان عہدیداروں کا این آر او کے خلاف جرا¿ت پسندانہ اور اصولی م¶قف دراصل پوری وکلا برادری کی آواز ہے۔ پیپلز پارٹی این آر او کو ایکٹ آف پارلیمنٹ بنوانا چاہتی ہے۔ اس حوالے سے اس کی اپنی ضرورتیں اور مصلحتیں ہیں لیکن پیپلز پارٹی کو این آر او کو پارلیمنٹ سے منظور کروانے کی کوششوں سے پہلے ملک بھر کے قانون دانوں کی رائے کو بھی اپنے پیش نظر ضرور رکھنا چاہیے۔
سپریم کورٹ بار کے نومنتخب صدر نے تو دوٹوک انداز میں کہا ہے کہ وکلا ہمیشہ ملک میں قانون کے نفاذ اور قانون کی حکمرانی کے علمبردار رہے ہیں جبکہ این آر او کا مفہوم یہ ہے کہ ہم قانون کی حکمرانی اور نفاذ کے بجائے مجرموں کی حکمرانی کو تسلیم کر لیں۔ اگر ایک شخص قتل یا کرپشن کا مجرم ہے تو وہ پوری قوم اور معاشرے کا مجرم ہے۔ ایسے مجرم کو عدالت قانون کے مطابق جرم ثابت ہونے پر سزا دے گی یا اگر جرم ثابت نہ ہو تو اسے بری کر دیا جائے گا لیکن قانون شکنوں کو اگر عدالت میں لائے بغیر این او آر کے ذریعے چھوڑ دیا جاتا ہے تو یہ پورے معاشرے کو لاقانونیت کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہو گا جسے وکلا اور سول سوسائٹی برداشت نہیں کرے گی اور ملک میں عدلیہ کی بحالی کی تحریک سے بھی زیادہ م¶ثر ایک نئی تحریک کا آغاز ہو جائے گا۔ قاضی محمد انور نے کہا ہے کہ ہم قانون کے دائرہ سے باہر کسی کارروائی کی حمایت نہیں کر سکتے۔ یہ قوم کی عزت اور غیرت کا مسئلہ بھی ہے۔ جب آپ قانون کو نظر انداز کرتے ہیں تو مَیں اسے قوم کی عزت و وقار کے ساتھ ایک مذاق تصور کرتا ہوں۔ وکلا کے احساس کی ترجمانی کرتے ہوئے قاضی محمد انور نے کہا کہ امریکہ کا کیری لوگر ایکٹ اور پاکستان میں این آر او کو ایکٹ بنانے کی کوششیں دونوں ہی میری نظر میں پاکستانی قوم کے اجتماعی ضمیر کے خلاف ہیں۔ اس لئے پوری وکلا برادری میں ان کے خلاف شدید ردعمل پایا جاتا ہے۔
سپریم کورٹ بار کے نومنتحب سیکرٹری راجہ ذوالقرنین نے بھی این آر او کو پرویز مشرف کے دور کا ایک احمقانہ آرڈیننس قرار دیا جسے اب پیپلز پارٹی نے بے وقوفی سے اپنے بل کے طور پر پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی کوشش کی بالآخر پیش نہ کرنے کا فیصلہ کیا تاہم پیپلز پارٹی اس سے مکمل طور پر دستبردار نہیں ہوئی۔ یہ بل حکومت کے لے ڈوبے گا۔ باوقار طریقہ یہ ہے کہ حکومت اس سے مستقل طور پر لاتعلقی اختیار کرے اور مقدمات کا عدالتوں میں سامنا کرے۔ راجہ ذوالقرنین نے کہا جن لوگوں نے جرائم کئے‘ قومی خزانہ لُوٹا انہیں قانون کے مطابق عدالتوں کا سامنا کرنا چاہیے۔ اگر کوئی چور دروازے سے اپنے جرائم کو تحفظ دلانے کی کوشش کرے گا تو وکلا اس کی سخت مزاحمت کریں گے اور چوروں اور لٹیروں کو تحفظ دلانے والے کسی کالے قانون کی ہم حمایت نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ حقیقی اور نظریاتی پیپلز پارٹی بھی این آر او کو سخت ناپسند کرتی ہے۔