اویس قریشی .........
ملک میں دہشت گردی‘ بدامنی‘ ناانصافی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی و بیروزگاری کی وجہ سے جہاں ہر شخص اس مجموعی صورت حال کی وجہ سے انتہائی غمگین اور مایوس ہے موجودہ حکومت کے جہاں بہت سارے ”کارنامے“ ہیں وہاں تین روز قبل حکومت کے ایک اہم نیب زدہ وفاقی وزیر نے قومی اداروں کو سات روز کے اندر ملک کے کرپشن ختم کرنے کا جو الٹی میٹم دیا ہے اس بیان سے پوری قوم جو ملک کے گھمبیری مسائل کی وجہ سے تقریباً ”کومے“ میں گئی ہوئی تھی وہ بڑے عرصے کے بعد تھوڑے سے وقت کیلئے کھل کر مسکرائی ہے اور پچھلے تین روز سے اپنے سارے جملہ مسائل اور غم بھول کر اپنے حلقہ احباب کو فون کے ذریعے اور ایس ایم ایس کے ذریعے اس بیان کو انجوائے کر رہی ہے لیکن کچھ لوگوں نے تو فرط جذبات سے وفاقی وزیر کی پریس ٹاک کو قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ قیامت کے قریب بھی ایسے ہی مناظر ہوں گے کہ جھوٹ اور منافقت اس قدر بڑھ جائے گی کہ وہ بدقسمتی سے سچ دکھائی دینے لگے گی۔ بہرحال اسلام آباد کے صاحب اقتدار بھی اپنے اہم وزیر کے اس بیان پر بظاہر ناراض نظر نہیں آرہے لیکن حالات کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ وہ تنہائی میں اپنے دانتوں میں انگلیاں دیکر یہ ضرور سوچ رہے ہوں گے کہ ہمارے وزیر موصوف نے بڑا سیاسی بلنڈر کر دیا ہے وہ پریس ٹاک کے درمیان اتنے ہی جذباتی ہو گئے تھے کہ کوئی اور معمول کی بیان بازی کر دیتے جس سے سبکی نہ ہوتی قارئین پنجاب حکومت کے خادم اعلیٰ بھی یقیناً غریبوں کےلئے دل میں درد رکھتے ہوں گے لیکن ایک طرف وہ پنجاب کے سرکاری وسائل کو دیکھ کر اور حالات دیکھ کر بیان دیتے ہیں کہ میرا کلیجہ منہ کو آتا ہے مگر دوسرے ہی لمحے جب ان کی نظر ہر دوسرے دن حال ہی میں ریٹائرڈ ہونے والے کسی تگڑے بیوروکریٹ پر پڑتی ہے تو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اس کی پنجاب میں اس کی ذاتی اور سرکاری ”خدمات“ کے عوض اسے لاکھوں روپے کے ماہانہ پیکج اور دیگر ڈبل سرکاری مراعات کے ساتھ اسے اوکاموڈیٹ کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے اس وقت ہر 30 دن کے بعد ایسے سفید ہاتھیوں پر پنجاب کے خزانے سے 6 سے 8 کروڑ روپے خرچ ہو رہے ہیں حالانکہ یہی رقم وہ بیروزگاری الاونس اور دیگر شعبوں میں خرچ کر سکتے ہیں ایسے کنٹریکٹ کی وجہ سے ہی بغیر کسی مبالغہ آرائی اور مذاق کے پنجاب پبلک سروس کمیشن سمیت ایوان وزیراعلیٰ میں ایک حکومتی سروے کے مطابق کمرے اور گاڑیاں کم پڑتی جا رہی ہیں۔ جب صوبے میں بیوروکریسی کو اس طرح نوازنے کی پالیسی جاری رہی تو بنیادی سہولتوں کے محروم اس ہوش ربا مہنگائی کے دور میں غریب عوام پنجاب حکومت کے حوالے سے کیا تاثر لے گی۔ اسی حوالے سے کچھ ہی دنوں بعد آئی جی پنجاب جوکہ مدت ملازمت مکمل کرنے والے ہیں ان کو بھی اکاموڈیٹ کرنے کےلئے ان کی خواہش پر اصلاح مشورہ جاری ہیں پولیس کے معاملات کیلئے مشیر یا پنجاب پبلک سروس کمیشن میں 3 سالہ کنٹریکٹ پر لگائے جانے کا قوی امکان ہے عوامی حلقے پنجاب حکومت کی ایسی نوازشات کو بڑی تنقیدی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔
ملک میں دہشت گردی‘ بدامنی‘ ناانصافی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی و بیروزگاری کی وجہ سے جہاں ہر شخص اس مجموعی صورت حال کی وجہ سے انتہائی غمگین اور مایوس ہے موجودہ حکومت کے جہاں بہت سارے ”کارنامے“ ہیں وہاں تین روز قبل حکومت کے ایک اہم نیب زدہ وفاقی وزیر نے قومی اداروں کو سات روز کے اندر ملک کے کرپشن ختم کرنے کا جو الٹی میٹم دیا ہے اس بیان سے پوری قوم جو ملک کے گھمبیری مسائل کی وجہ سے تقریباً ”کومے“ میں گئی ہوئی تھی وہ بڑے عرصے کے بعد تھوڑے سے وقت کیلئے کھل کر مسکرائی ہے اور پچھلے تین روز سے اپنے سارے جملہ مسائل اور غم بھول کر اپنے حلقہ احباب کو فون کے ذریعے اور ایس ایم ایس کے ذریعے اس بیان کو انجوائے کر رہی ہے لیکن کچھ لوگوں نے تو فرط جذبات سے وفاقی وزیر کی پریس ٹاک کو قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ قیامت کے قریب بھی ایسے ہی مناظر ہوں گے کہ جھوٹ اور منافقت اس قدر بڑھ جائے گی کہ وہ بدقسمتی سے سچ دکھائی دینے لگے گی۔ بہرحال اسلام آباد کے صاحب اقتدار بھی اپنے اہم وزیر کے اس بیان پر بظاہر ناراض نظر نہیں آرہے لیکن حالات کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ وہ تنہائی میں اپنے دانتوں میں انگلیاں دیکر یہ ضرور سوچ رہے ہوں گے کہ ہمارے وزیر موصوف نے بڑا سیاسی بلنڈر کر دیا ہے وہ پریس ٹاک کے درمیان اتنے ہی جذباتی ہو گئے تھے کہ کوئی اور معمول کی بیان بازی کر دیتے جس سے سبکی نہ ہوتی قارئین پنجاب حکومت کے خادم اعلیٰ بھی یقیناً غریبوں کےلئے دل میں درد رکھتے ہوں گے لیکن ایک طرف وہ پنجاب کے سرکاری وسائل کو دیکھ کر اور حالات دیکھ کر بیان دیتے ہیں کہ میرا کلیجہ منہ کو آتا ہے مگر دوسرے ہی لمحے جب ان کی نظر ہر دوسرے دن حال ہی میں ریٹائرڈ ہونے والے کسی تگڑے بیوروکریٹ پر پڑتی ہے تو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اس کی پنجاب میں اس کی ذاتی اور سرکاری ”خدمات“ کے عوض اسے لاکھوں روپے کے ماہانہ پیکج اور دیگر ڈبل سرکاری مراعات کے ساتھ اسے اوکاموڈیٹ کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے اس وقت ہر 30 دن کے بعد ایسے سفید ہاتھیوں پر پنجاب کے خزانے سے 6 سے 8 کروڑ روپے خرچ ہو رہے ہیں حالانکہ یہی رقم وہ بیروزگاری الاونس اور دیگر شعبوں میں خرچ کر سکتے ہیں ایسے کنٹریکٹ کی وجہ سے ہی بغیر کسی مبالغہ آرائی اور مذاق کے پنجاب پبلک سروس کمیشن سمیت ایوان وزیراعلیٰ میں ایک حکومتی سروے کے مطابق کمرے اور گاڑیاں کم پڑتی جا رہی ہیں۔ جب صوبے میں بیوروکریسی کو اس طرح نوازنے کی پالیسی جاری رہی تو بنیادی سہولتوں کے محروم اس ہوش ربا مہنگائی کے دور میں غریب عوام پنجاب حکومت کے حوالے سے کیا تاثر لے گی۔ اسی حوالے سے کچھ ہی دنوں بعد آئی جی پنجاب جوکہ مدت ملازمت مکمل کرنے والے ہیں ان کو بھی اکاموڈیٹ کرنے کےلئے ان کی خواہش پر اصلاح مشورہ جاری ہیں پولیس کے معاملات کیلئے مشیر یا پنجاب پبلک سروس کمیشن میں 3 سالہ کنٹریکٹ پر لگائے جانے کا قوی امکان ہے عوامی حلقے پنجاب حکومت کی ایسی نوازشات کو بڑی تنقیدی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔