”مہنگائی“ متحدہ کا سینٹ‘ قومی اسمبلی سے واک آﺅٹ ۔۔ تنقید کرنے والے ایک ٹکٹ میںدو مزے لیتے ہیں : وزیراعظم گیلانی

Nov 04, 2010

سفیر یاؤ جنگ
اسلام آباد (لیڈی رپورٹر + وقائع نگار) قومی اسمبلی سے گذشتہ روز ایم کیو ایم کے اراکین نے حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کرتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میںاضافہ کے باعث احتجاجاً فیصلہ لینے تک اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا ہے۔ وسیم اختر نے اپنے نکتہ اعتراض پر کہا کہ ایوان میں عوامی مسائل پر بحث کی جائے اور عوامی مسائل حل کئے جائیں صرف پوائنٹ سکورنگ نہ کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے حکومت مہنگائی کے خلاف ٹھوس اقدامات کرے اورعوام کو ریلیف دے۔ انہوں نے حکومت پر واضح کر دیا کہ اگر تیل کی قیمتیں واپس نہ آئیں تو اجلاس کی کارروائی میں شریک نہیں ہوں گے اور حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کرتے ہوئے ایوان سے باہر چلے گئے جس پر ڈپٹی سپیکر فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ ایوان میں ایسے نعرے بازی کرنا قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی ہے۔ انجینئر امیر مقام نے ایم کیو ایم کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں حکومت ٹارگٹ کلنگ کے لئے بھی سدباب کرے تاہم ایرا کے فنڈز ریلیز کرنے پر وزیراعظم کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ شیخ آفتاب نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کو بھی قیمتوں میں اضافہ پر شدید تشویش لاحق ہے‘ حل نہ نکلا تو عوام کو کنٹرول کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ ادھر قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے اراکین ملک شاکر شبیر اعوان‘ نزہت صادق‘ ڈاکٹر نیلسن عظیم‘ عابد شیر علی اور (ق) لیگ کی ماروی میمن نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ پر بحث کےلئے تحریک التوا جمع کروائی جسے بحث کے لئے منظور کر لیا گیا‘ حکومت نے مخالفت نہیں کی۔ ڈاکٹر ظہیر الدین بابر اعوان نے کہا کہ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والی حکومت مہنگائی پر بحث کے لئے جمع کرائی جانیوالی تحریک التوا کو کیلئے نامنظور کر سکتی ہے۔ وقائع نگار کے مطابق اےوان بالا کے اجلاس سے ایم کیو ایم نے حکومت کی جانب سے پٹرولےم مصنوعات اور بجلی کے نرخوں مےں اضافے اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سےنیٹرز نے قلات کوئٹہ روڈ منصوبے کے التوا کے خلاف احتجاجاً واک آوٹ کےا۔ طاہر حسےن مشہدی نے نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے پٹرولےم مصنوعات اور بجلی کی قےمتوں مےں اضافے کا جو فےصلہ کےا ہے وہ ظالمانہ اقدام ہے اور عوام اس بوجھ کو برداشت کرنے کی صلاحےت نہےں رکھتے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کے ان فےصلوں سے ملک بھر مےں صنعتےں مشکلات کا شکار ہوں گے اور ان کی بندش شروع ہو گی۔ غلام احمد علی، عبدالحسےب خان، عبدالخالق پےرزادہ اور بابر خان غوری نے پٹرولےم مصنوعات و بجلی کی قےمتوں مےں اضافے خلاف احتجا ج کےا۔ قبل ازےں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اراکےن سےنٹ نے نےشنل ہائی وےز کی جانب سے قلات کوئٹہ روڈ کے منصوبے پر کام بند کرنے اور اسے التوا کا شکار کرنے کے خلاف اےوان بالا مےں سخت احتجاج کےا اور حکومت پر الزام عائد کےا کہ حکومت دانستہ طور پر مذکورہ منصوبوں کے لئے فنڈز جاری نہےں کر رہی ہے اور وفاقی وزرا اس پر ےہ جواز پےش کر رہے ہےں کہ امن و امان کی وجہ سے اس منصوبے کو جاری نہےں رکھا جا سکتا ہے۔ اے پی پی کے مطابق مسلم لیگ (ن)، جے یو آئی اور ایم کیو ایم سمیت مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان نے یوان بالا میں نیٹو کی طرف سے ایک بار پھر پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ نیٹو حکام کو دفتر خارجہ بلا کر اس معاملے پر شدید احتجاج کیا جائے۔ سینیٹر راجہ ظفر الحق نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ نیٹو کے ہیلی کاپٹر نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی ہے، جس کا جب دل چاہتا ہے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے ایوان سے احتجاجاً واک آﺅٹ کا اعلان کر دیا۔ سینٹیر رضا ربانی نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ نیٹو کے حکام کو دفتر خارجہ بلا کر احتجاج کیا جائے اور انہیں بتایا جائے کہ آئندہ ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی ہوئی تو پاکستان اس کا منہ توڑ جواب دے گا۔ مولانا عبدالغفور حیدری نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ ڈرون حملے بھی پاکستان کی سرحدی حدود کی خلاف ورزی ہیں یہ ہماری آزادی اور خود مختاری پر ضرب لگانے کے مترادف ہے، حکومت اس کا نوٹس لے۔ سینیٹر طاہر حسین مشہدی نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ پاکستان کی جغرافیائی حدود کی خلاف ورزی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ حکومت امریکہ اور نیٹو کو بتا دے کہ اگر دوبارہ ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی ہوئی تو ان کے طیارے مار گرائے جائینگے۔ مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق ایم کیو ایم اور اپوزیشن کے ارکان نے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف سندھ اسمبلی کے اجلاس سے بھی واک آوٹ کیا تاہم پیپلز پارٹی کے ساتھ مذاکرات کے بعد ایم کیو ایم کے ارکان غیر مشروط طور پر لوٹ آئے۔
اسلام آباد (لیڈی رپورٹر + نمائندہ خصوصی + مانیٹرنگ ڈیسک) وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ حکومت کے ساتھ ہو کر تنقید کرنے والے ایک ٹکٹ میں دو مزے لیتے ہیں۔ اپوزیشن چاہتی ہے کہ ہم سے حصہ بھی لے اور تنقید بھی کرے۔ پوری دنیا سیلاب زدگان کی مدد کیلئے تیار ہے ہمیں خود بھی کچھ کرنا چاہئے۔ وہ وزیراعظم ہاﺅس میں حکمران جماعت کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے کسی کی بھی ترقی کیلئے سلیکشن بورڈ کو سفارش نہیں کی‘ میں نے کسی بھی رکن کو آج تک پلاٹ الاٹ نہیں کیا۔ ایسا تاثر دیا جاتا ہے کہ حکومت احتساب سے گھبراتی ہے‘ احتساب کے راستے میں کبھی حائل نہیں ہوئے۔ اراکین پارلیمنٹ کوشش کریں کہ احتساب بل رواں اجلاس میں منظور کرائیں۔ احتساب کے راستے میں آتے تو کبھی اپنی داڑھی دوسرے کے ہاتھ میں نہ دیتے مڈٹرم انتخابات کی بات کرنے والے قوم کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ کالا باغ ڈیم اب سبز باغ بن چکا ہے۔ ہم نے کسی چیز کو انا کا مسئلہ نہیں بنایا‘ سب کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔ احتساب کی کریڈیبلٹی کی بات کرنے والوں کے دور میں تمام کیسز بنے۔ قومی اسمبلی میں اراکین کے نکتہ اعتراض کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ نے کنکرنٹ لسٹ کی منظوری دی ہے اس لئے اب آ ئین کی پاسداری کرنا ہمارا فرض ہے حکومت اپوزیشن کے ساتھ مل کر تمام ملکی مسائل حل کرنا چاہتی ہے پارلیمنٹ بالا دست ہے اسے بحث و مباحثہ کی جگہ قرار دینا درست نہیں ہے یہاں آج تک جتنی متفقہ قانون سازی ہوئی ہے اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی انہوں نے کہاکہ ایوان کی کارروائی اگر قواعد و ضوابط و طریقہ کار کے تحت چلائی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ تمام مسائل یہاں زیر غور نہ لائے جا سکیں، اگر نکتہ اعتراض پر مسائل اٹھانے کی بجائے اراکین توجہ دلاﺅ نوٹس یا تحریک التواءلائیں تو اس پر متعلقہ وزیر بھی تیاری کر کے ایوان کو جواب دے سکتے ہیں، 101 آئینی ترامیم متفقہ طور پر منظور کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا تاہم اس پارلیمنٹ نے یہ کام کر دکھایا بعض اراکین نے نکتہ اعتراض پر مختلف امور اٹھائے ہیں یہ ہاﺅس بالادست اور خود مختار ہے۔ میں بھی اس ایوان کا سپیکر رہا ہوں، اور ہم نے اس دور میں ہاﺅس کو ایک طریقہ کار کے مطابق چلانے کا فیصلہ کیا تھا جس کے بہتر نتائج سامنے آئے تھے۔ ہمیں ایک دوسرے سے تعاون کرنا چاہئے ہاﺅس میں عوامی مفاد کا جو اقدام ہو گا ہم اس پر تعاون کرینگے۔ یوسف رضا گیلانی نے سعودی عرب کے فرمانروا شاہ عبداللہ کی طرف سے پاکستان کے سیلاب زدگان کی مدد کے لیے سعودی عوام سے امداد کی ذاتی اپیل کرنے پر حکومت پاکستان اور عوام کی جانب سے اظہار تشکر کیا ہے۔ وزیراعظم سے سعودی عرب کے سفیر عبدالعزیز بن ابراہیم بن صالح الغدیر نے ملاقات کی۔ وزیراعظم نے سعودی سفیر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات قابل تحسین ہے کہ شاہ عبداللہ نے ذاتی طور پر 110 ملین ڈالر کا عطیہ دیا جبکہ مجموعی طور پر 242 ملین ڈالر جمع ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب نے پاکستان کے لیے 700 ملین ڈالر کی مدد کا وعدہ کیا تھا جو اس نے تیزی سے پورا کر دیا ہے۔ سعودی سفیر نے کہا کہ شاہ عبداللہ نے انہیں ایک ہوائی جہاز دیا ہے اور ہدایت کی ہے کہ تمام سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کیا جائے۔ شاہ عبداللہ نے انہیں یہ بھی ہدایت کی ہے کہ وہ پاکستان کو یہ پیغام دیں کہ سیلاب کی قدرتی آفت کے اس موقع پر پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑا جائے گا۔ سعودی عرب ہر وہ مدد کرے گا جو اس کے بس میں ہے۔ دریں اثنا ڈاکٹر بابر اعوان‘ خورشید شاہ‘ قمر زمان کائرہ اور بیگم نسیم اختر چودھری سے ملاقات کے دوران وزیراعظم نے وزارت قانون و انصاف و پارلیمانی امور کو ہدایت کی کہ وہ احتساب بل کے مسودے کی تیاری کا کام تیز کریں تاکہ اسے جلد پارلیمنٹ میں پیش کیا جا سکے۔ انہوں نے قانون و انصاف بارے قومی اسمبلی کی کمیٹی سے کہا کہ وہ احتساب بل کو حتمی شکل دینے کے لئے زیادہ سے زیادہ اجلاس منعقد کرے۔ وزیراعظم نے اس بات پر بھی زور دیا کہ احتساب بل کو حتمی شکل دینے سے پہلے تمام فریقین کو اعتماد میں لیا جائے۔ اے پی پی کے مطابق وزیراعظم نے کہا ہے کہ جمہوری حکومت نے جمہوری عمل کو درست سمت پر ڈال دیا ہے‘ اب سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کرنا چاہیے‘ بنیادی ڈھانچے اور تعلیمی اداروں کی حالت بہتر بنانا ہوگی۔ وزیراعظم ہاﺅس میں وفاقی وزیر تعلیم سردار آصف احمد علی‘ وفاقی وزیر امور کشمیر میاں منظور احمد وٹو اور وزیر مملکت برائے مواصلات امتیاز صفدر وڑائچ سے گفتگو کر رہے تھے جنہوں نے ان سے الگ الگ ملاقات کی۔ وزیراعظم نے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلانے کی ہدایت کر دی۔ نجی ٹی وی کے مطابق وزیراعظم نے کہا ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس پاکستان ڈویلپمنٹ فورم کے اجلاس سے قبل بلایا جائے۔
مزیدخبریں