ایم پی اے کی سفارش پر نوشہرو فیروز کے علاقے بھریا سٹی میں محکمہ تعلیم کے افسران نے پرائمری سکول کو شادی گھر میں تبدیل کر دیا گیا۔ شادی کی تیاریاں شروع‘ اساتذہ اور طلبہ کو چھٹیاں دیدی گئیں۔
کمرشلائزڈ تعلیمی انڈسٹری تو کمائی کے اعتبار سے عروج پر ہے لیکن عام لوگوں کے بچوں کو تعلیم دینے والے سکول بھی شادی ہال بنائے جا رہے ہیں۔ یہ بہت اچھا ہے کہ چلو سرکاری سکول بھی کسی کام تو آئیں۔ ویسے بھی تعلیم نے ہمیں ایسے ایم پی ایز اور تعلیم کے افسران عطا کئے کہ کارطفلاں تمام خواہد شد‘ پڑھنے والے بچوں کو تعلیم دینے کا کام تمام ہوا۔ خواص کا تو ذکر ہی کیا‘ وہ تو ہر دیوار کی زینت ہیں عوام الناس کی بات کرتے ہیں کہ انکی دسترس میں لے دے کے یہی سرکاری سکول ہوتے ہیں‘ وہ بھی اگر بااثر لوگوں کی تقریبات اور مال مویشیوں کیلئے وقف ہوں تو پھر اس ملک میں ذہین جہالت پامال ہوتی رہے گی اور مال و مال حماقتیں بیرون ملک تعلیم حاصل کرینگی۔ ایم پی اے کو جس کام کیلئے منتخب کیا یا کرایا گیا‘ اس نے بطریق احسن وہ کام نبھایا‘ جب سکولوں میں اساتذہ ہی سفارش پر رکھے جاتے ہوں تو پھر ان میں کسی بااثر کی شادی کا فنکشن کرانے کی سفارش محکمہ تعلیم کے افسران کیوں رد کریں؟ ظاہر ہے ایم پی نے کہا ہو گا نوکری کرنی ہے یا نہیں؟ پھر بچوں کو چھٹیاں دینے اور ان کا تعلیمی نقصان کرنے سے کیا فرق پڑتا ہے جہاں ستیاناس وہاں سوا ستیاناس....
خسارے کا لگا ہے بازار دیکھو
بولو جی تم کیا کیا خریدو گے
وزیراعلیٰ پنجاب کو تعلیم عام کرنے کا شوق ہے‘ وہ بھی اپنے شوق کا حشر دیکھ لیں‘ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ....
تیرے شوق دا نئیں اعتبار سانوں
آ ویکھ سکولاں دا حال آجا
٭....٭....٭....٭
پاکستانی حاجی نے چار بیویوں کو اکٹھے حج کروا کرحق مہر ادا کردیا۔
میر حسین نے 15 برس کی عمر سے شادیوں کا آغاز کیا اور شریعت کی آخری حد کو چھو لیا۔ حق مہر بھی ایسا اختیار کیا کہ علماءدین ہی اسکی فقہی پوزیشن واضح کر سکتے ہیں۔ تاہم ہمیں تو یہ حق مہر کا انداز بھی پسند آیا۔ اللہ کو بھی پسند آیا ہو گا کیونکہ حج مفت تو نہیں ہوتا‘ اچھے خاصے پیسے لگتے ہیں۔ میر حسین کا کمال ہے کہ چار بیویوں والی آیت مبارکہ ورُبٰع تک ہی پڑھا‘ آگے پوری آیت نہ پڑھی یا پڑھ کر اس پر عمل کرلیا کہ چاروں بیویوں سے عدل کیا۔ اب مزید پر عمل تو ویسے ہی ساقط ہو گیا۔
اگر غور کیا جائے تو چار بیویاں رکھنے سے بہبود آبادی کا فرض بھی ادا ہو جاتا ہے۔ چار بوگیوں کو ایک ہی انجن چلائے تو رفتار ایک انجن ایک بوگی سسٹم سے کہیں کم ہو گی اور مزید انجن بوگیاں بھی کم تعداد میں تیار ہونگی۔ اس طرح قلتِ رشتہ¿ جات بھی دور ہوجاتی ہے‘ الغرض اللہ نے زیادہ سے زیادہ چار خواتین سے شادی کرنے کی اجازت اس لئے نہیں دی کہ چار ہی کی جائیں‘ آج کے دور میں ایک کو رکھنا بھی کارے دارد۔ تاہم جو عدل پر پورا اترنے کی جانی و مالی قدرت رکھتے ہیں‘ وہ ضرور چار شادیاں کرالیں مگر حق مہر کرنسی کی شکل میں ادا کریں‘ کیونکہ یہ نہ ہو کہ کل کوئی یہ دلیل پکڑے کہ اے فلاں میں نے تیرے ایک لاکھ روپے دینے تھے‘ میں نے تجھے پانچ قرآن پڑھ کر بخش دیئے‘ حساب برابر ہو گیا۔ کسی کو حج کرانا حفظ کرانا شاید مالی معاملات طے کرنے میں کام نہیں آتا‘ باقی فقہاءخوب جانتے ہیں۔ ہم حتماً کچھ نہیں کہتے۔ چار بیویوں سے گناہِ کبیرہ سے بچت ہو جاتی ہے‘ لیکن ہمارے معاشی حالات ایسے ہیں کہ ایک سے بھی کہا جا سکتا ہے‘ تم بابل کے گھر اور ہم تیرے بابل کے پسر ہیں کہ ہم تو خاک بسر ہیں۔
٭....٭....٭....٭
ایک امریکی نوجوان نے کدو کے اندر ویڈیو گیم تیار کرلیا۔
کدو میں ویڈیو گیم بنانے والی بات کدو کے ایک اور استعمال کا انکشاف ہے اور کدو کے رائج استعمالات بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ کدو کئی شکل و شباہت کے ہوتے ہیں‘ ایک بڑا پیٹھا کدو ہوتا ہے جو ستار‘ تانپورہ اور اکتارا بنانے کے کام آتا ہے اور ایسا ساز تیار ہوتا ہے جس کے تار دل کے تار چھیڑ دیتے ہیں۔ ایک لمبے سائز کا کدو ہوتا ہے‘ جو ہانڈی میں ڈالنے کیلئے ایک ہی کافی ہوتا ہے اور نہایت لذیذ ہوتا ہے۔ یہ بلڈ پریشر کو بھی بلنٹ پریشر بنا دیتا ہے۔ یہ دیکھنے میں دیدہ زیب ہے‘ انگریزی میں اسے پمپ کن کہتے ہیں‘ اب یہ تو تحقیقات کرنےوالے ہی بتا سکتے ہیں کہ کدو کی یہ طویل قسم کس کس کام آتی ہے۔ ہمارے پاس ایسی کوئی لیبارٹری نہیں کہ اس پر سائنسی حوالے سے روشنی ڈالیں۔
ایک کدو چھوٹے اور گول سائز کا ہوتا ہے‘ یہ اکثر سالن بنانے کے کام آتا ہے اور اس کو بیماروں سے بہت رغبت ہے کیونکہ یہ نہایت زود ہضم اور مصلحِ معدہ ہے مگر جو پیٹھا کدو ہوتا ہے‘ اس سے ایک ایسی چیز بنتی ہے جو ہمارے علماءکرام کو بہت پسند ہے‘ جسے حلوہ کدو کہتے ہیں۔ حلوہ میٹھا ہوتا ہے اور اس سے بڑھ کر پیٹھا نام کی مٹھائی بھی اسی ستار نوازوں کے کدو سے بنتی ہے۔ کدو کا رس نکال کر پیا جائے تو بلند فشار خون کو بہت افاقہ ہوتا ہے۔ کدو کا استعمال داتا صاحب نے بھی بطور ایک لفظ اپنی کتاب کشف المحجوب میں کیا کہ کسی نے کرامت دکھانے کا مطالبہ کیا تو فرمایا‘ بھئی ہم تو خالی کدو کی مانند ہیں‘ کرامت کیا دکھائیں‘ البتہ تم نے کبھی ہمیں خلاف سنت کوئی کام کرتے دیکھا ہو تو بتاﺅ!