لاہور + پشاور + ایبٹ آباد (آئی اےن پی) ملک کے مختلف شہروں میں سی این جی سٹیشنز مالکان نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں عوام کو ملنے والی سہولت کو ناکام بنانے اور اپنی ناجائز منافع خوری جاری رکھنے کیلئے عوام اور حکومت پر دباﺅ بڑھانے کیلئے غیر قانونی ہڑتال کر دی جس سے ملک کے کئی شہروں میں مسافروں اور ٹرانسپورٹرز کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایبٹ آباد میں سی این جی سٹیشنز کی ہڑتال کیخلاف مشتعل افراد نے ایک سی این جی سٹیشن پر دھاوا بول دیا اور احتجاجاً شاہراہ قراقرم بھی بلاک کر دی۔ اےبٹ آباد میں نئے نرخوں کے خلاف سی این جی سٹےشنز مالکان کی جانب سے سٹیشن بند کرنے پر سراپا احتجاج بن گئے اور سڑکوں پر نکل آئے، مشتعل افراد نے سی اےن جی سٹےشن پر دھاوا بول کر توڑ پھوڑ کی اور شاہراہ قراقرم بلاک کر دی۔ ایبٹ آباد میں سی این جی سٹیشن کی بندش کے خلاف شہری سڑکوں پر نکل آئے اور بند سی این جی سٹیشنوں پر توڑ پھوڑ کی۔ مظاہرین نے ڈی سی او ایبٹ آباد اور سی این جی ایسوسی ایشن کے خلاف شدید نعرے بازی کی، مظاہرین نے ضلعی انتظامیہ کو دھمکی دی ہے کہ بند سی این جی سٹیشن نہ کھولے گے تو انہیں آگ لگا دی جائے گی۔ مشتعل افراد نے اےک سی اےن جی سٹےشن پر پتھراﺅ کر دےا جس سے سٹےشن کے شےشے ٹوٹ گئے۔ خےبر پی کے مےں سی اےن جی سٹےشنز مالکان نے نئے نرخوں کے خلاف احتجاجاً تمام سٹےشن غےر معےنہ مدت تک بند کر دےئے۔ ادھر سی اےن جی اےسوسی اےشن کے چےئرمےن غےاث پراچہ نے کہا ہے کہ حکومت ہمےں گمراہ کر رہی ہے۔سی اےن جی انڈسٹری کو تباہ نہ کےا جائے۔عوام اور سی اےن جی سٹےشنز مالکان کونہ لڑاےا جائے۔ حکومت سپرےم کورٹ کے 25 اکتوبر کے حکم پر عمل کرے۔ علاوہ ازیں وائس چیئرمین آل پاکستان سی ا ین جی ایسوسی ایشن پرویز خان خٹک نے کہا ہے کہ خیبر پی کے میں بیشتر سی ا ین جی مالکان نے فی کلو گیس میں 17 سے 20 روپے نقصان کے باعث سٹیشنز بند کئے۔ اسسٹنٹ کوآرڈینیشن آفیسر حبیب اللہ عارف نے کہا کہ انتظامیہ نے سی این جی فروخت نہ کرنے پر 5 پمپ سیل کر دئیے۔
فیصل آباد (رپورٹ: احمد جمال نظامی) سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے سی این جی کی قیمتیں مقرر کرنے کے بعد سی این جی سٹیشن مختلف اوقات کار کے لئے بند کرتے ہوئے ہڑتال پر چلے گئے ہیں جس کے باعث لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس وقت سی این جی سٹیشنز کی ہڑتال کے بعد عوام شدید اذیت میں مبتلا ہیں جبکہ سی این جی پمپ مالکان کا مو¿قف ہے کہ وہ اوگرا کی طرف سے مقررکردہ نرخوں پر سی این جی فروخت نہیں کر سکتے اور سی این جی کی قیمتوں میں کمی کروانے کے لئے ضروری ہے کہ گیس کی قیمتوں میں مرحلہ وار زیادہ سے زیادہ کمی کو یقینی بنایا جائے۔ حکومت نے گذشتہ برس سی این جی کی کٹوں کی امپورٹ اور سی این جی کٹوں کو گاڑیوں میں لگانے پر پابندی عائد کر دی تھی مگر اس کے باوجود پاکستان دنیا کا وہ ملک ہے جہاں موٹر وہیکلز سب سے زیادہ سی این جی کا استعمال کرتی ہیں ایک اندازے کے مطابق ہمارے ملک میں 21 فیصد سے زائد گاڑیاں سی این جی پر چل رہی ہیں۔2011ءکے وسط تک ملک میں 3329 سی این جی سٹیشن تھے۔ ہمارے ہاں سی این جی کی ڈیمانڈ 40 فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھتی رہی ہے۔ سوئی ناردرن اور سوئی سدرن دونوں کمپنیوں کی روزانہ کی پیداوار 19 سو سے 2 ہزار میٹرکیوبک فٹ ہے جبکہ روزانہ کا استعمال 28 سو میٹر کیوبک فٹ ہے یعنی ہمیں روزانہ کے حساب سے 8 سو میٹر کیوبک فٹ شارٹ فال کا سامنا ہے۔ حکومت سی این جی سٹیشنز کو منظوری دیتے ہوئے اس بات کو سامنے نہیں رکھ سکی کہ وطن عزیز میں گیس کی قلت کا سامنا ہے اور یہ قلت مزید بڑھ سکتی ہے جس سے صنعتی بحران بھی جنم لے گا۔ حکومت بغیر کسی پلاننگ کے سی این جی سٹیشنز کے لئے منظوری دیتی رہی۔ بعض اطلاعات کے مطابق یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حکومت ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت گیس کی قلت پیدا کر رہی ہے تاکہ ایل پی جی کو امپورٹ کر کے اسے سی این جی کا متبادل ذریعہ بنایا جا سکے۔ حکومت چاہتی ہے کہ ایل این جی کو امپورٹ کرے اور ایل این جی کو سی این جی کے طور پر استعمال کیا جائے۔ 2012ءمیں کراچی میں لگنے والے ایل پی جی سٹیشن کے باوجود صرف 125 گاڑیاں ایل پی جی پر منتقل ہوئیں۔ حکومت اگر اب بھی چاہے تو جس طرح سپریم کورٹ کی طرف سے سی این جی کی قیمتوں میں کمی کی گئی ہے حکومت گیس کی قیمتوں میں کمی کر کے سی این جی سٹیشنز کے مالکان کو سپریم کورٹ کے نرخ ناموں پر سی این جی باآسانی فروخت کرنے پر قائل کر کے عوام کو سہولیات فراہم کر سکتی ہے اور دوسری طرف ملک میں گیس کی قلت کے مسئلے پر بھی مناسب حکمت عملی کے تحت قابو پایا جا سکتا ہے۔ آج سی این جی سٹیشنز کی وافر تعداد اور سی این جی سٹیشنز کے ذریعے گیس کی طلب میںاضافے کے سبب شدید صنعتی بحران نے ہماری ملکی معیشت کو مفلوج کر کے رکھا ہے۔ ہفتے میں تین سے چار روز گیس کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ملکی برآمدات کو اربوں روپے کے حساب سے ہفتہ وار نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے مگر کوئی پرسان حال نہیں۔ سندھ سمیت ملک کے بیشتر مقامات پر گیس موجود ہے مگر اس کو استعمال میں نہیں لایا جا رہا اور نہ ہی کوئی لانے کو تیار ہے جبکہ اس کے برعکس مقامی گیس دریافت کر کے مقامی نرخوں کے مقابلے میں تین گنا زائد قیمتوں پر گیس امپورٹ کرنے کی خواہش سب کو بے چین کرتی ہے اگر حکومت اندرون ملک موجود گیس کے ذخائر سے ہی استفادہ کر کے گیس فیلڈز قائم کر لے تو اس وقت موجود گیس اور سی این جی سٹیشنز کی بندش دونوں بحرانوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔